Zeeshan Zahoor Ka Qatal, Dukh Hai Tamam Dukh
ذیشان ظہور کا قتل، دُکھ ہے تمام دُکھ
فکشن ہاوس کے ظہور احمد خان سے تین دہائیوں پر پھیلا احترام بھرا تعلق بہت ساری یادیں اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔ ظہور احمد خان نے اپنی محنت اور لگن سے اس ادارے کو صف اول کا اشاعتی ادارہ بنایا ہی نہیں بلکہ مسابقتی عمل میں منوایا بھی۔ اس دور میں جب ہر شخص یہ کہتا دیکھائی دے کتابیں کون پڑھتا ہے۔ کتابیں پڑھی جاتی ہیں یہی سچ ہے۔ کتابوں کی اشاعت میں اولین اور اہم بات بہرطور یہ ہے کہ کتاب میں ہے کیا۔ لوگ اسے کیوں خرید کر پڑھیں۔ خیر اس حوالے سے پھر کسی وقت بات کریں گے۔
فی الوقت تو ان سطور میں ظہور احمد خان اور ان کے خاندان پر ٹوٹنے والی ایک قیامت کا ذکر کرتے ہیں۔ جوان بیٹے کا سانحہ ارتحال والدین کےلئے کسی قیامت سے کم نہیں۔ ان کے خاندان پر یہ قیامت 19نومبر کو ٹوٹی جب ان کے جواں سال صاحبزادے ذیشان ظہور ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوکر حیات ابدی کے سفر پر روانہ ہوگئے۔ اب اسے بدقسمتی کہہ لیجئے یا ذرائع ابلاغ کا غیرذمہ دارانہ طرزعمل کے لٹن روڈ پر ہوئی ٹارگٹ کلنگ کو اردو بازار میں دو گروہوں کے درمیان فائرنگ میں ایک راہ گیر نوجوان کے جاں بحق ہونے کی خبر بنادیا گیا۔ لٹن روڈ اور اردو بازار کے درمیان خاصی مسافت ہے۔
سوشل میڈیا پر ذیشان ظہور کے قتل کی ابتدائی خبر کا ذریعہ الیکٹرانک میڈیا پر نشر ہونے والی خبر ہی تھی لیکن بدھ کے روز ظہور احمد خان نے دوستوں اور حلقہ احباب جو کو واٹس ایپ میسج بھیجا اس میں وہ کہتے ہیں "میرے صاحبزادے ذیشان ظہور کو لٹن روڈ پر اس کے گھر کے باہر ٹارگٹ کرکے گولی ماری گئی جو اس کے دل میں لگی۔ سانحہ ارتحال کی وجہ یہی ہے۔ میڈیا میں چلنے والی خبر جس میں کہا گیا کہ اردو بازار میں دو گروہوں کی فائرنگ کی زد میں آکر ذیشان جاں بحق ہوا، خلاف واقعہ ہے۔ ان کے مطابق واقعہ کی ایف آئی آر معروف قانون دان لیاقت علی ایڈووکیٹ کی کوششوں سے وقوعہ کے مطاقب درج ہوئی ہے"۔
ذیشان ظہور 19نومبر کو ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوکر راہی ملک عدم ہوئے۔ ایک بات تو طے ہے کہ اس ٹارگٹ کلنگ کے واقعہ کو کسی دوسرے واقعہ کا حصہ بناکر خبر کے طور پر نشر کرنا انتہائی غیرذمہ داری کا مظاہرہ ہے۔ اس غیرذمہ داری کے حوالے سے دو سوال اہم ہیں اولاً یہ کہ کیا ذرائع ابلاغ سے منسلک کرائم رپورٹرز نے نادانستگی میں 2الگ واقعات کو ایک بناکر اپنے اداروں کو خبر دی؟ ایسا ہے تو یہ کرائمز رپورٹر یا رپورٹرز کی غیرذمہ داری ہے۔ ثانیاً یہ کہ کیا کرائم رپورٹرز کو کسی نے دونوں خبروں کو یکجا کرکے فراہم کیا اور انہوں نے خبر فائل کرتے وقت چھان بین کو ضروری نہیں سمجھا بلکہ محض معمول کے واقعات کے طور پر لیا۔
اس میں ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ دو الگ واقعات کی خبر کو جان بوجھ کر ایک خبر کے طور پر رپورٹرز تک پہنچایا گیا ہو۔ یہ کام کسی شخص کا ہے یا پولیس کا ذریعہ جس سے عموماً کرائم رپورٹرز استفادہ کرتے ہیں؟ ایف آئی آر کے مطابق خبر دینا رپورٹرز کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ کیا کرائمز رپورٹرز لٹن روڈ پر ہوئی ٹارگٹ کلنگ میں ایک نوجوان کے قتل اور ایف آئی آر کے متن سے لاعلم تھے؟ جواں سال ذیشان ظہور کا قتل ایک المناک سانحہ ہے۔ فکشن ہائوس کے ادارے، ظہور احمد خان اور ان کے خاندان کے لئے یہ ناقابل تلافی نقصان بھی ہے۔
اولاد ہر والدین کو پیاری ہوتی ہے ظہور صاحب اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ ان کے بچوں نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے والد کے ادارے کو آگے بڑھانے میں دن رات محنت کی۔ فکشن ہاوس کے لئے ظہور صاحب کے دو صاحبزادوں ریاض ظہور اور ذیشان ظہور کا جوش وجذبہ اور محنت حقیقت میں مثالی ہیں۔ لائق اولاد نے نہ صرف کاروباری اسرارورموز کو سمجھنے اوراسے آگے بڑھانے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی بلکہ اپنے اخلاق سے والد کے دوست و احباب اور فکشن ہائوس سے کتابیں خریدنے والے علم دوست لوگوں کے دلوں میں اپنا مقام بنایا۔
عمر کے اس حصے میں جوان بیٹے کا قتل ہوجانا ہی المیہ سے کم نہیں تو میڈیا کے غیرذمہ دارانہ طرزعمل کی وجہ سے حقائق کے برعکس خبر کا نشر ہونا بھی افسوسناک ہے۔ ذیشان ظہور ٹارگٹ کلنگ کا شکار کیوں ہوئے؟ اس سوال کا جواب تو قتل کی تفتیش کرنے والی ٹیم نے تلاش کرنا ہے لیکن ضروری ہے کہ روایتی طریقہ تفتیش کی بجائے جدید خطوط پر اس سانحہ کی تحقیقات کی جائے۔
ملنسار، ہردم مسکراتے رہنے اور ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مگن ذیشان ظہور کی بھلا کسی سے کیا دشمنی ہوسکتی ہے ایک ایسا نوجوان جو 24میں سے 16گھنٹے اس جدوجہد میں گزارے کے اپنے کاروبار کو مزید کیسے بہتر کیا جاسکتا ہے۔ وہ روایتی دنیاداری کے لئے تو وقت ہی نہیں نکال پاتا۔ ظہور صاحب سے برادرانہ مراسم اور فکشن ہاوس سے دیرینہ تعلق کی وجہ سے ان کے صاحبزادوں نے کبھی عزت و احترام میں کمی نہیں آنے دی۔ ریاض اور ذیشان نے نہ صرف اپنے والد کے کاروبار کو ہی محنت اور لگن سے نہیں سنبھالا بلکہ والد اور فکشن ہاوس دونوں کے احباب کے دلوں پر بھی گہرے نقش قائم کئے۔
خود ظہور صاحب بھی مزاجاً عمومی دنیاداری سے دور اور اپنے کام میں مگن رہنے والے انسان ہیں۔ ذیشان ظہور کا اس جواں عمری میں ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوجانا کسی قیامت سے کم نہیں اس عمر کے بہت کم نوجوانوں میں احساس ذمہ داری دیکھنے ہیں آتا ہے اس کے ساتھ ساتھ ہر آنے والے کے مزاج کے مطابق اسے ڈیل کرنا بلکہ اسے خصوصی انسان سمجھنا یہ بذات خود ایک وصف ہے۔
بدقسمتی ہے کہ کہ اپنی علالت کے سبب آمدورفت میں پیش آنے والی مشکلات کی وجہ سے ذیشان ظہور کی آخری رسومات میں شریک نہیں ہوسکا۔ اس علالت کی وجہ سے بسا اوقات شرمندگی بھی اٹھانا پڑتی ہے۔ ظہور صاحب اور ان کے صاحبزادوں کے حوالے سے یادوں کے دفتر محفوظ ہیں ذہن و دل میں تین سوا تین عشروں پر پھیلے اس تعلق کے عرصہ میں صاحبزادگان خصوصاً ریاض اور ذیشان نے جس احترام اور محبت سے سرفراز کیا وہ بھی سرمایہ ہے۔
ذیشان ظہور کی ٹارگٹ کلنگ ظہور صاحب کے ہر دوست اور شناسا کے لئے قیامت ٹوٹنے کی خبر ہی ہے۔ ہمہ وقت مسکراتے ہوئے اپنے کام میں مصروف اس بھلے مانس نوجوان کی کسی سے کیا دشمنی ہوسکتی ہے۔ ظہور صاحب اور ان کاخاندان محبتوں اور احترام کی تقسیم میں چار اور شہرت رکھتا ہے۔ یہ سانحہ یقیناً ناقابل برداشت ہے۔ ذیشان ظہور کے درجات کی بلندی اور خاندان کے لئے صبر جمیل کی دعا ہی کی جاسکتی ہے۔ دوست احباب کے بس میں یہی ہے۔
البتہ لاہور پولیس کا فرض ہے کہ وہ اس ٹارگٹ کلنگ کے ذمہ دار سفاک مجرموں کو بے نقاب کرکے ایک مظلوم خاندان کو انصاف دلانے کے لئے ہرممکن کوشش کرے۔
فی الوقت تو یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ والدین کو جوان اولاد کی دائمی جدائی کے امتحان سے نہ ہی گزرنا پڑے تو اچھا ہے۔ والدین تو جوان اولاد کی دائمی جدائی پر جیتے جی مرجاتے ہیں۔ حق تعالیٰ ظہور احمد خان اور ان کے خاندان کو صبر جمیل عطا کرے، آمین۔