Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Takheer Se Bedar Hui Ghairat

Takheer Se Bedar Hui Ghairat

تاخیر سے بیدار ہوئی "غیرت"

آج کے کالم کا موضوع کچھ اور ہے لیکن پچھلی شب سے تاریخ سیاسیاست کے اس طالب علم کو پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو یاد آرہے ہیں۔ اس یاد گیری کی وجہ ایک سابق وزیراعظم عمران خان کی موجودہ اور تیسری اہلیہ کے سابق خاوند خاور فرید مانیکا کا وہ انٹرویو ہے جو ملک کے ایک بڑے بلکہ سب سے بڑے میڈیا ہائوس کے نیوز چینل پر بغیر کسی وقفے اور اشتہار کے نشر ہوا۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اسی میڈیا ہائوس کے مرحوم مالک (اس وقت زندہ تھے) کے بارے میں ایک تاریخی جملہ کہا تھا، اس میڈیا مالک کے کردار و عمل اور دیگر خصوصیات کی بنیاد پر بھٹو کا جملہ ایسا صادق آیا کہ نہ صرف اس کی دھوم مچ گئی بلکہ مرحوم ارشاد رائو کے ہفت روزہ جریدے "الفتح" میں اس جملے کے پس منظر سمیت اس ملاقات کی روداد بھی شائع ہوئی جس میں بھٹو صاحب نے میر خلیل الرحمن کو ان کے منہ پر "کچھ" کہا تھا۔

معذرت کہ بھٹو صاحب کا وہ جملہ یہاں لکھنے سے قاصر ہوں۔ اس کے علاوہ بھی ایک دو باتیں یاد آرہی ہیں ایک تو یہ کہ جب سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کے بھائی ٹھیکیدار کامران کیانی کے لئے کیریئر کے طور پر کام کرنے والی ایان علی کو آصف علی زرداری سے منسوب کرتے ہوئے دو ٹی وی اینکروں نے نہ صرف ایان علی کے پیٹ میں زرداری کی نشاندنی ڈھونڈ لی اور میڈیکل رپورٹ حاصل کرلینے کے دعوے کئے تو اس وقت غالباً اخلاقیات تیل لینے گئی ہوئی تھیں۔

دوسری ڈاکٹر تنویر زمانی نامی امریکی شہری کو آئی ایس پی آر اور چند دیگر کرداروں کے ایما پر چینل چینل گھماتے ہوئے اسے کبھی زرداری کی دوسری بیوی، کبھی گرل فرینڈ کے طور پر پیش کیا گیا تب بڑے بڑے میڈیا ہائوسز نے ایک بچے کی تصویر شجاعت علی خان زرداری کے نام سے دیکھائی اور شائع کی تاثر یہ دیا گیا کہ یہ بچہ زرداری کا تنویر زمانی میں سے ہے۔

بعد میں وہ محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ راولپنڈی میں شہید ہونے والے کائرہ خانادن کے فرد کا صاحبزادہ نکلا۔

ہمارے کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ خاور مانیکا کے انٹرویو کو تاریخ کے حصے کے طور پر دیکھا سمجھا جائے۔ کیونکہ تاریخ، میں سب کچھ "جمع" ہوتا ہے۔ مثلاً بادشاہ برہنہ دربار میں بیٹھتا تھا۔ بہت احترام کے ساتھ ان دوستوں سے اتفاق نہیں کرپارہا۔

عدم اتفاق کی وجہ یہ ہے کہ اگر کل کلاں کسی میڈیا ہائوس نے کلکتہ والی دلشاد بیگم کا قدیمی انٹرویو یا اس کے چٹخارے دار حصے نشر و شیئر کئے۔ ملکہ پکھراج کی صاحبزادی کا گھر ٹوٹنے کی کہانی کو پھر سے زبان دی یا دسمبر میں ہوئی ایک شادی کا نتیجہ اپریل میں برآمد ہونے کی کہانی دستاویزاتی ثبوتوں کے ساتھ سنائی تو پھر سبھی روتے پھریں گے کہ کردار کشی ہورہی ہے۔

یہاں ایک بات مزید عرض کئے دیتا ہوں وہ یہ کہ ایک بڑے میڈیا ہائوس کے نیوز چینل پر نشر ہونے والا خاور فرید مانیکا کا انٹرویو اصل میں ایک "کمرشل" تھا۔ یعنی وقت خرید کر نشر کیا گیا پروگرام۔ اسی لئے اس میں وقفہ اور اشتہارات نہیں تھے۔ اشتہار کے اندر اشتہار نشر بھی نہیں ہوتے۔

اب آیئے، تاخیر سے بیدار ہوئی غیرت کے مظاہرے یعنی عمران خان کی موجودہ اہلیہ کے سابق شوہر خاور فرید مانیکا کے اشتہاری انٹرویو پر بات کرلیتے ہیں۔

بالفرض اگر ہم یہ مان لیتے ہیں کہ تاریخ میں سب کچھ ہوتاہے حزن و ملال، چٹخارے، اسباق اور دیگر بہت کچھ تو پھر تاریخ، فرید مانیکا کی تاخیر سے بیدار ہوئی غیرت سے کیوں شروع کی جائے؟

اچھا ہوا کہ اس کمرشل انٹرویو میں ہی مانیکا کاایک پرانا ویڈیو کلپ نشر کردیا گیا جس میں اس نے اپنی سابق اہلیہ کو "دنیا کی پاک ترین بی بی قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں نے اس سے پاک بی بی نہیں دیکھی"۔

گزشتہ شب کے انٹرویو میں"دنیا کی اسی پاک ترین بی بی" کے بارے میں جاگی ہوئی غیرت نے جو کچھ کہا اُگلا اسے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ موصوف کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا کہ جب اس کی اور بشریٰ بی بی کے بیٹی کا اہتمام کے ساتھ مکہ مکرمہ میں نکاح منعقد ہوا تھا تو وہ سابق اہلیہ کے موجودہ خاوند (جوکہ اس وقت ملک کا وزیراعظم تھا) کے سرکاری جہاز میں ان کے ہمراہ سعودی عرب کیوں گئے؟

ایک گھنٹے کے کمرشل انٹرویو میں مانیکا میاں کی گفتگو کچھ تھی اور چہرے کے تاثرات کچھ اور۔ اس انٹرویو نما اشتہار کا کس کو فائدہ اور کس کو نقصان ہوگا، میری دانست میں اس سوال کی رتی برابر اہمیت نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کے حامی اور پیروکار اسے اسٹیبلشمنٹ اور جاتی امرا کا مشترکہ منصوبہ کہیں گے بلکہ کہہ رہے ہیں۔

مخالفین کا ایک طبقہ ضرور اس سے حظ اٹھانے کے ساتھ ساتھ سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ خود خاور فرید مانیکا کے حصے میں راکھ ہی آئے گی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ تحریک انصاف کے پورے دور اقتدار میں اپنے بچوں کی ماں کی طاقت سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ تقرریاں تبادلے اور دیگر معاملات اس کی ایک صاحبزادی کا والدہ اور سوتیلے والد سے ملاقات میں تحریک انصاف میں شامل ہونا، معاملہ یہاں تک ہی محدود نہیں داستانیں اور بھی بہت ہیں۔

محض یہ کہہ کر بری الذمہ نہیں ہوا جاسکتا کہ "میں بے قصور تھا، مجبور تھا، خوفزدہ تھا۔ بچوں کی زندگیوں کی خاطر خاموش رہا۔ اب ٹوٹ گیا ہوں اس لئے بولنے پر مجبور ہوا۔ میں نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑدیا ہے"۔

عین ممکن ہے کہ معاشرے اور صحافیوں کے ایک طبقے کے مطابق مانیکا کا اشتہاری انٹرویو درست ہو اور تاریخ کی ضرورت بھی۔ لیکن اگر تاریخ کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے کچھ اور پرانے قصے نئے مرچ مصالحہ اور تڑکوں کے ساتھ بیان ہوں گے تو پھر وہ کردار کشی تو قرار نہیں پائیں گے؟

مکرر عرض کردوں مانیکا کا اشتہاری انٹرویو گٹر صحافت کا شاہکار ہے۔ ہم ماضی میں اس طرح کی گٹر صحافت اور سیاست دیکھ بھگت چکے ہیں۔ درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ اس ملک میں گٹر صحافت و سیاست ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی چھتر چھایہ میں ہوئی اور پروان چڑھی۔

مانیکا میاں نے ایک بار اپنی سابق اہلیہ کو دنیا کی پاک ترین بی بی قرار دیا تھا۔ وہ تب بھی اپنے رشتے کے ماضی اور "کہانیوں" سے بخوبی واقف تھا گزشتہ شب اسی پاک ترین بی بی کو ایک بدکردار عورت کے طور پیش کرتا رہا جبکہ اسی پاکیزہ یا بدکردار عورت کی طاقت سے چار برسوں تک پورا خاندان لطف اندوز ہوتا رہا۔

یہ سطور لکھتے ہوئے بار بار مطالعے اور مشاہدے کی ایک بات یاد آرہی ہے وہ یہ کہ "انسان کا اصل تعلق کے خاتمے پر کھلتا ہے"۔ عمران خان معصوم فرشتہ تھا نہ ہے اس کا ماضی سب کے سامنے ہے۔ لیکن کیا اشتہاری انٹرویو نشر کرنے والے میڈیا ہائوس کے مالک نے عمران خان کے دور میں اپنی گرفتاری کا غصہ اب نکالا ہے؟ ہم اس سوال کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔

لوگ کہتے ہیں کہ اس میڈیا ہائوس کے مالک نے عمران خان کی دوسری سابق اہلیہ ریحام خان سے ساڑھے چار کروڑ روپے کے عوض ایک ویڈیو خریدی تھی۔ اس کی گرفتاری اسی ویڈیو کے حصول کا معاملہ تھا کیونکہ موصوف نے کسی نجی تقریب میں کہا تھا کہ ایک ویڈیو عمران خان کو سنگسار کرانے کے لئے کافی ہے۔

بات آگے بڑھ گئی وزیراعظم نے ذاتی طور پر اس میڈیا مالک کی گرفتاری کا حکم دیا اور گرفتاری ہوگئی۔

اسٹیبلشمنٹ یا جاتی امرا یا پھر میڈیا ہائوس اشتہاری انٹرویو سے اڑتی خاک تینوں کے چہروں پر پڑے گی۔ اب اگر اس طرح کے کچھ اور انٹرویو اور کہانیاں اچھالی گئیں تو پھر رونا دھونا فضول ہوگا۔

میں یہ عرض کردوں کہ مجھے عمران خان سے کوئی ہمدردی نہیں اسے بھی زبان تالو سے لگا کر رکھنے کی عادت نہیں ہے۔ اسی طرح اشتہاری انٹرویو کے پیچھے موجود قوتوں یا میڈیا مالک کا ذاتی غصہ اس میں بھی کسی کو حاصل وصول کچھ نہیں ہوگا۔

ایک لمحہ کے لئے ہم خاور فرید مانیکا کی ساری باتیں درست مان لیتے ہیں اب سوال یہ ہے کہ سابق اہلیہ کے خلاف ٹی وی انٹرویو دینے کی اسے ضرورت کیا آن پڑی تھی کہیں یہ کرپشن کیس میں ضمانت پر رہائی کا "حق خدمت تو نہیں تھا؟"

مانیکا پانچ سال قبل اپنے بچوں کی والدہ کو طلاق دے چکا تھا۔ 28 یا 29 سال کا تعلق خاطر ختم ہوا۔ اب اس ختم ہوئے تعلق کے آخری دنوں کی کہانی بیان کرنے کی ضرورت کیا تھی؟

اشتہاری انٹرویو کی بدولت اس پر مزید تھوتھو ہوگی اور ان پر بھی جو اس کے منصوبہ ساز ہیں۔

ہماری دانست میں ضروری ہے کہ اس گٹر صحافت و سیاست پر دادوتحسین میں مصروف خواتین و حضرات کے لئے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کیجئے۔

Check Also

Khyber Pakhtunkhwa Ka Jahannam

By Najam Wali Khan