Siasi Mafahmat Ho To Kaise Ho?
سیاسی مفاہمت ہو تو کیسے ہو؟
سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے مطابق ان کی جماعت تحریک انصاف ملک میں ایک ہی وقت میں انتخابات کے لئے حکومت سے بات چیت کے لئے تیار ہے، حکومت ایک قدم آگے بڑھے، پی ٹی آئی ملک اور جمہوریت کے مفاد میں دو قدم آگے بڑھنے اور انتخابی اصلاحات کے لئے آئینی ترمیم میں تعاون کے لئے بھی تیار ہے۔
اسد قیصر کے اس بیان پر حکمران اتحاد کے رہنمائوں کا ردعمل اپنی جگہ بجا اور یہ موقف بھی اپنی جگہ درست ہے کہ جس جماعت کا سربراہ اٹھتے بیٹھتے مخالفین کے خلاف نفرت کو ہوا دے رہا ہو اور روزانہ ایک نیا بیانیہ دے کر اپنے حامیوں کو مشتعل کرے اس سے مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں لیکن اس امر پر دو آراء نہیں کہ آج یا کل بہرحال سیاسی جماعتوں کو ہی مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر مسائل و مشکلات کا حل نکالنا ہوگا۔
حکمران اتحاد کے بعض رہنمائوں کا یہ سوال بھی درست ہے کہ اگر بالفرض تحریک انصاف سے مذاکرات کر بھی لئے جاتے ہیں تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ عمران خان مذاکرات میں طے پائے امور سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
مذاکرات کے حوالے سے پی ڈی ایم کے بعض رہنما تو دوٹوک موقف رکھتے ہیں ان کے خیال میں عمران خان سے مذاکرات ہونے ہی نہیں چاہئیں اپنے اس موقف کے حق میں وہ جو دلائل دیتے ہیں وہ ماضی کے واقعات اور اپنے دور اقتدار میں عمران خان کی جانب سے اپوزیشن سے اپنائے گئے رویے کے باعث بجا ہیں۔
ایک طرح سے دیکھا جائے تو اس صورتحال کے ذمہ دار بڑی حد تک عمران خان خود ہیں۔ انہوں نے اقتدار میں آنے سے قبل، دور اقتدار اور پھر وزارت عظمیٰ سے محرومی کے بعد اپنے مخالفین کے لئے جو زبان استعمال کی اور جس طرح کے الزامات عائد کئے اس کے بعد اگر پی ڈی ایم کے بعض رہنما ان سے مذاکرات کو غیرضروری سمجھتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے البتہ ان رہنمائوں کو یہ بات بہرحال مدنظر رکھنا ہوگی کہ سیاست میں کوئی حرفِ آخر ہوتا ہے اور نہ کسی کو محض اس بنا پر نظرانداز کیا جاتا ہے کہ وہ ہمارے سیاسی وجود سے انکاری ہے تو ہم اس کے لئے گنجائش کیوں رکھیں۔
سیاسی عمل میں آگے بڑھنے کے لئے تحمل و برداشت کے ساتھ وسعت قلبی کے مظاہرہ کی ضرورت قدم قدم پر رہتی ہے۔ کسی ایک فریق کے دوسرے کو تسلیم نہ کرنے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوجاتی۔
پی ٹی آئی سے مذاکرات کی بازگشت گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کے ایوان میں بھی سنائی دی۔ ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے بعض رہنمائوں نے یہ سوال کیا کہ کیا مذاکرات سے قبل پی ٹی آئی اپنے سابق ڈپٹی سپیکر کی جانب سے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کو غداروں کا ٹولہ قرار دیئے جانے کے الزام پر معافی مانگے گی۔
گزشتہ سے پیوستہ روز قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے نوجوان سربراہ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہم سیاسی لوگ ہیں سیاست بند کمروں میں نہیں کھلے میدان میں ہوتی ہے کسی سے لاکھ اختلاف ہو یا کوئی اختلافات کو نفرت کا رنگ دے کر بگاڑ کو بڑھائے بالآخر مذاکرات ہی واحد راستہ اور ضرورت ہیں۔ ان کے مطابق ہمیں (حکمران اتحاد) کسی سے لاکھ اختلافات ہوں ایک دن بہرطور مذاکرات کرنا پڑتے ہیں۔
بلاول بھٹو کی تقریر کو اگر پاکستانی سیاست کے پچھلے 35برسوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو انہوں نے جو کہا ہے اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ سیاسی اختلافات کی آڑ میں جتنی مرضی نفرت پھیلائی اور کردار کشی کی جائے بالآخر سیاسی مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا ہی پڑتا ہے۔
مروجہ سیاست کی مکمل ملکی تاریخ اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ دو انتہائوں پر کھڑے ہوکر سیاست کرنے والوں نے ایک دوسرے کے بارے میں جو بھی کہا ہو ایک دن نہ صرف انہیں منفی باتوں، رویوں اور دوسرے معاملات پر معذرت کرکے آگے بڑھنے کے لئے مفاہمت کو ترجیح دینا ہی پڑتی ہے۔
اس حوالے سے قریب ترین مثال مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی میں سیاسی مفاہمت و تعاون ہے۔ 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں (ن) لیگ کی سیاست پیپلزپارٹی کی دشمنی سے عبارت تھی پھر ایک دن دونوں جماعتوں نے ماضی کو بھلاکر آگے بڑھنے کی ضرورت کو تسلیم کیا۔ بادی النظر میں بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں اسی طرف توجہ دلائی ہے۔
اس امر پر دو آراء نہیں کہ پی ٹی آئی کی سیاست منفی رویوں سے عبارت ہے البتہ اس امر پر حیرانی بجا ہے کہ جب عمران خان خود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی کرپشن کے ان کے پاس ذاتی ثبوت نہیں ہیں بلکہ انہیں تو ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کی ماتحت ایجنسیوں نے کرپشن کے ثبوت دیکھائے تھے تو ہماری دانست میں وہ اپنے طرزعمل اور سیاست کے حوالے سے آدھا اعتراف کرتے ہیں اصولی طور پر انہیں پورا سچ بولنا چاہیے جو یہی ہے کہ انہیں ان کے مخالفین کی کرپشن کے ثبوت دیکھانے والوں نے ہی پروپیگنڈہ کرنے والی وہ ٹیم فراہم کی جس نے پی ٹی آئی کے حامیوں کی اس امر پر ذہن سازی کی کہ اس وقت ملک میں پارسا، مسیحا اور نجات دہندہ صرف عمران خان ہیں جبکہ ان کے مخالفین خرابیوں کے ذمہ دار۔
یقیناً اس طور عمران خان کا یہ فرض بھی بنتا ہے کہ وہ اپنی سیاسی حکمت عملی اور رویوں پر نظرثانی کریں۔ جن الزامات کو وہ اپنے دور اقتدار میں ثابت نہیں کرسکے ان پر مزید وقت برباد کرنے کی بجائے سیاسی کشیدگی کو کم کرنے میں کردار ادا کریں۔ بدقسمتی سے انہوں نے جو طرزعمل اپنارکھاہے اس سے سیاسی اختلاف کی خلیج وسیع تر ہوتی جارہی ہے۔
ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے بعض ذمہ داران ابھی کچھ عرصہ پہلے یہ اعتراف کرتے دیکھائی دیئے 2018ء میں عمران خان کے اقتدار کے لئے راستہ ہموار کرنا ہماری غلطی تھی۔ اندریں حالات ضروری ہوگیاہے کہ عمران خان بھی اپنے ماضی سے نجات حاصل کریں۔ ملک کو درپیش مسائل کے حل کیلئے افہام و تفہیم کی ضرورت کو عصری شعور کے ساتھ مدنظر رکھیں۔
اسی طرح حکمران اتحاد سے مذاکرات کی خواہش اور آگے بڑھنے کے لئے آئینی ترمیم کے لئے رضامندی دینے والے سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو بھی یہ بات بہرصورت مدنظر رکھنا ہوگی کہ انہوں نے پچھلے برس مئی میں بھی اس حوالے سے کچھ کوششیں بلکہ ملاقاتیں بھی کی تھیں۔
ان ملاقاتوں کے نتیجے میں ابتدائی طور پر کچھ معاملات طے پائے تھے ان سے پیچھے ہٹنے یا انہیں مسترد کرنے میں پہل عمران خان نے کی بعدازاں حکومت نے بھی مذاکرات کے دروازے بند کرلئے۔
موجودہ حالات میں ان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش مثبت رویہ کا مظاہرہ ہے لیکن کیا اس بارے انہوں نے اپنی قیادت اور خصوصاً عمران خان کو اعتماد میں لے لیا ہے نیز یہ کہ کیا عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کو آمادہ ہیں؟
یہ سوال اس لئے اہم ہے کہ عمران خان نے چند دن قبل کہا ہے کہ اگر مذاکرات کرنا پڑے تو میں اسٹیبلشمنٹ سے کروں گا پی ڈی ایم یا پیپلزپارٹی سے نہیں۔ پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی سے مذاکرات کی نفی کرتے ہوئے انہوں نے حسب سابق وہی باتیں کیں جو ان کی سیاست کا رزق ہیں۔ ان حالات میں اسد قیصر کی پیشکش کے جواب میں حکمران اتحاد کے رہنما جو کہہ رہے ہیں بظاہر وہ اپنی جگہ درست ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اس عدم برداشت کے بڑھاوے کے نتیجہ کو کوئی بھی مدنظر رکھنے پر تیار نہیں جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتیں حقیقت پسندانہ طرزعمل اپنائیں اور اس امر کو بطور خاص مدنظر رکھیں کہ نفرتوں کی سیاست سے اصلاح احوال ممکن نہیں اور یہ کہ یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔
ماضی میں جس کسی نے بھی گھاٹے کے اس سودے کا کاروبار کیا بالآخر اسے منہ کی کھانا پڑی۔ ہم دست بدستہ یہی درخواست کریں گے کہ مسائل و مشکلات کو مدنظر رکھ کر مفاہمت و تعاون کا راستہ اپنایا جائے اور سیاسی قائدین بشمول عمران خان اس تلخ حقیقت سے آنکھیں نہ چرائیں کہ ان کی سیاست و قیادت پاکستان کی مرہون منت ہے، پاکستان ان کا محتاج نہیں اس لئے نفرتوں کے بیوپار کو ترک کرکے سیاسی اخلاقیات اور برداشت کو اولیت دی جائے۔
بصورت دیگر کوئی انہونی ظہور پذیر ہوئی تو کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔