Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Rakh Tasbeeh Te Thap De Musalle Nu

Rakh Tasbeeh Te Thap De Musalle Nu

رکھ تسبیح تے ٹھپ دے مُصلے نوں

مرشد سید عبداللہ شاہ بخاری المعروف بابا بلھے شاہؒ سے پہلا تعارف لگ بھگ نصف صدی سے کچھ اُدھر ان کے ایک شعر کے اس مصرعے کی معرفت ہوا "سچ آکھیاں بھانبڑ مچ دا اے"۔ کئی دنوں تک سوچتا رہا کہ کیا فقط سچ بولنے سے ہی الاؤ بھڑکتے ہیں؟

پھر بعد کے سالوں میں مرشدِ کریم سے شاہ حسین، خواجہ فرید سے سچل سرمست، رحمٰن بابا سے مست توکلی اور شاہ لطیف بھٹائی و سامی کے ساتھ سرمد و منصور کو پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی تو اس سوال کا جواب مل گیا کہ سچ بولنے سے الاؤ کیسے بھڑکتے ہیں۔

سچ اصل میں پورا سچ ہوتا ہے نصف، چوتھائی یا دو تہائی ہرگز نہیں۔ نصف صدی سے کچھ اوپر وقت گزر گیا، بہت سفر طے ہو چکا۔ اب کوئی دم آتا ہے اور کوئی دم رخصت ہوتا ہے۔ یہی ابدی سچائی ہے۔

مرشد مجھے انسانی تاریخ کے ان سارے سچوں کی طرح محبوب اور محترم ہیں جنہوں نے اپنے اپنے عہد نفساں میں خالق کی مخلوق کے ساتھ کھڑا ہونے کا حق ادا کیا۔ جب کبھی ان کے دوارے حاضری کا موقع ملتا ہے جی بھر کے باتیں کر لیتا ہوں۔ حال دل بیان کرتا ہوں اور مرشد کی سن لیتا ہوں۔ مرشد اپنی مثال آپ تھے، ہیں اور رہیں گے۔

ہم اپنے موضوع سے دوسری طرف بڑھ جائیں گے لیکن ایک دوسرے پہلو سے بات کرنا ضروری ہے کہ مرشد کا شجرہ تبدیل کرنے کے مغالطوں کے پیچھے کوئی کج تھا یا لوگ والد و دادا کے ترکے میں آئے زمین کے ٹکڑے کی وجہ سے خطا کھا گئے جو اوچ گیلانیاں کی حدود میں تھا۔ چند حوالے موجود ہیں اور کچھ معلومات پر ان پر گفتگو کرنا مناسب نہیں۔ البتہ اس موضوع پر تفصیل سے ایک الگ مضمون میں عرض کروں گا کے کیسے محققین کو مرشد کی ذات بارے مغالطہ ہوا۔

ابھی یہی بہت ہے کہ مرشد مجھے محبوب ہیں اور خود وہ محبوبِ ذات بھی ہیں۔ ان کی تربیت و تعلیم کے ابتدائی دو میں مرشد کی بڑی بہن سیدہ بی بیؒ ہی استاد تھیں اور رہنما بھی۔ بہت عجیب سا لگتا ہے کہ سادات کے خانوادوں میں ہمیشہ ایک بہن ایسی ہوتی ہے جو یا تو بھائیوں کی فکر و فہم کی نگہبان بنتی ہے یا پھر اس کی تربیت کے اثرات بھائیوں یا کسی ایک بھائی پر بہت گہرے ہوتے ہیں۔

مرشد نہ تو روایتی سید تھے اور نہ "مسیتڑ مولوی" بنے۔ پیری مریدی سے بھی دس کوس کے فاصلے پر رہے۔ اپنے عہد کے بالادستوں کے زبردست ناقد تھے۔ یہاں تک کہ اپنے استاد مکرم سے بھی فکری نبھا اس لئے نہ ہو پایا کہ وہ (استاد مکرم) محکوم زمین زادوں کو تو صبر و شکر کا درس دیتے تھے مگر کبھی کسی ظالم خاندان کا ہاتھ پکڑ کر یہ نہ کہہ سکے کہ اللہ کی مخلوق پر ظلم روا نہیں۔

بغاوت گھٹی میں شامل تھی اسی لئے تو کہا تھا "تسبیح رکھ اور مُصلہ لپیٹ دو کہ ہمیں تو یار کے محلے میں جانا ہے"۔ ظاہر ہے جب وہ یہ کہہ رہے تھے تو شعوری طور پر جانتے تھے کہ ملا اور خان دونوں ان کے ایمان کو ناقص قرار دیں گے۔ مگر انہیں پرواہ کب تھی۔ پرواہ کرتے بھی کیوں؟

کچھ نام کی تاثیر تھی کچھ نسب کی اور کچھ بڑی بہن کی تربیت کی۔ قدم قدم پر انہوں نے مولوی کی گھڑی ہوئی شریعت سے انکار کیا۔ مولوی کی گھڑی ہوئی شریعت ہی ہمیشہ مسئلہ رہی۔ اپنے اصل سے کٹی ہوئی روح سے خالی، بدذائقہ مولویانہ شریعت کا عوام کے حقوق اور شعور سے کوئی تعلق نہیں رہا۔

بلکہ مولوی نے تو ہر دور میں جاہ پرستوں کے معاون کا کردار ادا کیا۔ بلھے شاہؒ بھی شاہ لطیفؒ کی طرح یہ سمجھتے تھے کہ اقرار کا نغمہ وہی الاپ سکتا ہے جسے اپنے عصر سے انکار کا حوصلہ ہو۔ شاہ لطیفؒ نے تو اپنے عصر کے انکار کو سرمدی نغمہ کہا تھا جو اپنے لہو کاغسل کرکے الاپا جاتا ہے۔

بلھے شاہؒ نے اپنے عہد کے ہر کج اور کج ادا پرحرف ملامت کہتے ہوئے کبھی خوف محسوس نہیں کیا۔ ان کا خیال تھا کہ جو من میں بسا ہو اس کی تلاش میں دربدر ہونے کی ضرورت نہیں۔ مرشد من میں دیکھنے کے نور سے مالا مال تھے۔ اسی لئے تو کہا تھا کہ "نفس کے سرکش گھوڑے پر کاٹھی نہ ڈال سکنے والے یار کے کوچے تک کا سفر طے نہیں کر پاتے کہ یار سے ملنا تب ہی ممکن ہے جب خواہشوں سے من آلودہ نہ ہو"۔

ایک سچے اجلے انسان دوست اور نتھرے کردار والے انسان تھے جبھی تو پورا سچ بولنے کا حوصلہ تھا ان میں اور زندگی بھر سچ پر ڈٹے رہے۔ حسین بن منصور حلاجؒ کا عاشق ادھورا آدمی ہو ہی نہیں سکتا اور مرشد جانتے تھے کہ حلاج نے کہا تھا "مجھے مار دو میرے دوستو کہ میری موت میں تمہاری حیات ہے"۔

پھر بلھے شاہؒ ہی تھے جنہوں نے منصور کا قصاص طلب کیا۔ ان کے سوا کون یہ نعرہ مستانہ بلند کرسکتا تھا کہ "تم اپنی شریعت کی باتیں بعد میں کر لینا ابھی میں یار سے ہمکلام ہوں"۔

بلھے شاہؒ جس راستے کے مسافر تھے اس راستےکے مسافرو ں نے اپنے اپنے عہد میں لمحہ بھر کا سکھ نہیں پایا مگر اپنے دامن میں جو بھی تھا چار اور کے لوگوں میں بانٹ کر اطمینان حاصل کیا۔ بلھے شاہ نفس مطمعنہ کی زندہ تصویر تھے۔ طمع اور جمع کی خواہش انہیں چھو کر بھی نہیں گزری تھی۔

یوں بھی وہ تقسیم کے قائل تھے اور طبقاتی شناختوں کے سخت ترین ناقد کیونکہ ان کا خیال تھا کہ بالادست طبقات محکوموں کا حق کھاتے ہیں اور محکوم ان دنیاوی مالکوں کی اطاعت گزاری کے جھمیلوں میں سے اتنا وقت ہی نہیں نکال پاتے کہ مالکِ اصلی سے رابطہ قائم کر سکے۔ شاہ پر فتوے بھی بہت لگے یہاں تک کہ ان کے اپنے استاد نے کفر کا فتویٰ دے دیا پر شاہ کو ان فتوؤں کی پرواہ نہیں تھی۔

ہوتی بھی کیوں وہ اپنے سچ پر قائم تھے اور جانتے تھے کہ جہل، غربت، تعصب اور ریاکاری انسانیت کے ساتھ ایمان کے دشمن ہیں۔ وہ زندگی بھر انسانیت اور ایمان کے دشمنوں سے لڑتے رہے اور ایک قدم بھی پسپا نہیں ہوئے۔ بلھے شاہؒ اس ابدی سچائی سے کاملاََ آگاہ تھے کہ طاقت کو سچائی کا سامنا ہو تو "خون تلوار پر فتح حاصل کرتا ہے"۔

ان پر لکھتے ہوئے ہر دوسرےلفظ پر جی مچلنے لگتا ہے کہ مرشد کی کردار کشی کے لئے ملونٹوں کے چیلوں کی گھڑی روایات پر تین حرف بھیجوں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انسانی تاریخ میں جس بھی شخص سے بالادست طبقات، حاکموں اور مذہبی دکانداروں کے کاروبار کو خطرات لاحق ہوئے اس پر اس کی زندگی میں فتوے صادر ہوئے اور مرنے کے بعد کردار کشی کا طوفان بدتمیزی برپا کروا دیا گیا۔

چند ٹکوں کی خاطر ان محترم و پاکباز بزرگوں کی توہین کی گئی جو زندگی بھر اپنے اصولوں پر ڈٹے رہے اور محکوم و مجبور طبقات کی آواز بنے۔ سامت کو پھانسی ہوئی۔ منصور کو تین سزائیں ملیں۔ پھانسی، پھر ایک ایک عضو کو دوران پھانسی کاٹنا اور آخر میں نعش کے سارے ٹکڑے نذرِ آتش کرکے راکھ دجلہ میں بہا دینا۔

سرمد کی گردن جلاد کی تلوار کے نیچے آئی۔ بلھے شاہؒ کی میت تین دن نماز جنازہ کے انتظار میں پڑی رہی۔ تیسرے دن سید زاہد ہمدانیؒ نامی بزرگ تشریف لائے اور جنازہ اور تدفین کا عمل طے ہوا۔ یہاں عجیب و غریب روایات اور پھر ان روایات پر بھونڈی دلیلوں سے عمارت اٹھانے کا شوق پورا ہو رہا ہے صدیوں سے۔ شہید سرمد کے احوال زندگی اورنگ زیب عالمگیر کے حکم پر اس کے ایک درباری نواب انشا اللہ خان نے بھی عنایت اللہ خان کی پیروہ کرتے ہوئے اپنے روزنامچے میں درج کرتے ہوئے اورنگزیب سے انعام و داد کے لئے لواطت کے اپنے شوق کو سرمد کے گلے ڈال کر کردار کشی کی۔

حالانکہ ہندوستان میں اپنی آمد کے بعد سرمد نے زیادہ وقت ٹھٹھہ اور لاہور میں بسر کیا۔ ان دونوں مقامات پر کسی نے بھی اس شوق بارے بات نہیں کہ یہاں تک کہ سرمد اور داراشکوہ کے دو بڑے محترم ذاتی دوستوں حضرت میاں میر اور حضرت موسیٰ پاک نے بھی مگر نواب انشااللہ خان کو جن بتا گیا تھا۔

یہی کچھ ہمارے مرشد کریم حضرت بابا بلھے شاہ بخاریؒ کے سانحہ ارتحال کے بعد ان کے ساتھ ہوا۔ قصور کے حاکم خاندان اور کٹھی ملاؤں نے جہاں بھر برائیاں بلھے شاہ پر تھوپ دیں۔ رہی سہی کسر ان اشعار نے پوری کر دی جو سیدی بلھے شاہؒ کے ساتھ لوگوں نے اپنی مشہوری کے لئے منسوب کر دیئے۔

پنجابی کے معروف ادیب، دانشور، صوفی مزاج شخصیت ہمارے استاد مکرم اکرم شیخ مرشدی بلھے شاہ کے عاشق صادق ہیں۔ مرشد کی فکر پر ملاؤں کے ڈالے پردے، تھوپے الزامات اور دوسرے معاملات کا فکری جائزہ لے کر انہوں نے پچھلے ایک ڈیڑھ عشرے کے دوران جتنا کام کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔

جناب شیخ صاحب تصوف کے طالب علم ہیں اور فکرِ بلھے شاہ سے نئی نسل کو روشناس کروانے میں پیش پیش۔ ملامتی صوفیاء سے انہیں ایک قلبی لگاؤ ہے۔ ان کی ایک تصنیف "بلھے شاہ کا نظریہ توحید" انہی کوششوں کا حصہ ہے کہ تصوف کے طلبا اور نئی نسل ہر دو سے مرشد کا حقیقی تعارف کرایا جاسکے۔ مجھ سے ادنیٰ طالب عالم کے لئے یہ تحریر دو حوالوں سے باعثِ اعزاز ہے۔ اولاََ مرشدِ کریم سیدی بلھے شاہؒ پر لکھنا اور ثانیاََ استادِ مکرم اکرم شیخ کے حکم کی تعمیل۔

استاد مکرم سلامت رہیں اور اسی طرح چراغ جلاتے رہیں تاکہ حاکموں، مولویوں اور درباروں کے استحصال پر آواز بلند کرنے والے صوفیا کے اس طبقے کی فکر سے تصوف کے طلباء اور عوام آگاہ ہوسکیں جن کی کردار کشی کو کچھ لوگ آج بھی ایمان کا درجہ دیتے ہیں۔

Check Also

Khyber Pakhtunkhwa Ka Jahannam

By Najam Wali Khan