Mazhab Ki Bunyad Par Hakimiyat
مذہب کی بنیاد پر حاکمیت
دوست بہت مہربان ہیں اچھے برے ہر وقت میں جی جان سے بڑھ کر خیال ہی نہیں کرتے بلکہ شکر خورے کو اس کی "شکر" کتابیں بھی عنایت کرتے رہتے ہیں۔ کتاب، رسالہ، اخبار پڑھنے کے لئے جو چیز جس وقت دستیاب ہو پڑھتے رہنا چاہیے۔ چند اخبارات گھر پر آتے ہیں کچھ نیٹ کی سہولت کے باعث دیکھ لیتا ہوں۔ توفیق ہو تو دوچار کتابیں خریدتا ہوں کبھی دوست بھی مہربانی کردیتے ہیں۔
چند دن قبل ہمارے برادر عزیز سید عامر عباس نقوی کے والد گرامی مرحوم و مغفور مخدوم سید غلام عباس نقوی کی دو تصانیف ملیں، "تاریخ سادات" فتح گڑھ چوڑیاں ضلع گورداس پور اور کتاب الاثار فی نسب آلِ اطہارؑ" گزشتہ شب ایک دوست نے تین کتابیں عنایت کیں۔ ان میں سے "تاج کی بجائے عمامہ" انقلاب اسلامی ایران کے پس منظر میں لکھی گئی ہے۔ کتاب کے مصنف پروفیسر سعید امیر ارجمند یونیورسٹی آف نیویارک امریکہ میں سوشیالوجی کے پروفیسر ہیں۔
انگریزی زبان کے سابق معلم پروفیسر ظفر علی خان نے اس کا ترجمہ کیا ہے۔ طالب علم کا مصنف اور مترجم سے اولین تعارف "تاج کی بجائے عمامہ" نامی کتاب ہی ہے۔ پروفیسر سعید امیر ارجنمد کی قبل ازیں تالیفات سے آگاہ نہیں ہوں البتہ جناب پروفیسر ظفر علی خان متعدد کتابوں کے مترجم ہیں۔ "تاج کی بجائے عمامہ" کے ترجمے میں انہوں نے بعض فارسی اصطلاحات کے متبادل کے طور پر اردو معلیٰ کے الفاظ کا انتخاب کیا۔ جس سے ترجمہ کچھ کچھ بوجھل ہوگیا۔
روزمرہ بولی جانے والی اردو کے متبادل الفاظ زیادہ بہتر رہتے ہیں۔ مترجم نے ایرانی انقلاب کے بعد شیعت کے مختلف خطوں کے ممالک میں بڑھاوے کو ایرانی شیعت کا بڑھاوا قرار دیا۔
میری دانست میں شاید یہ تاثر جو ان پر قائم ہوا درست نہیں پھر بھی ان کی رائے قابل احترام ہے اس پر بات بھی ہوسکتی ہے کہ ایرانی شیعت (بقول مترجم) مکتب امامیہ کا حقیقی اصل ہے یا ایران کے سیاسی نظام کو عقیدے کا رزق فراہم کرتی اس سوچ پر مبنی ہے کہ یہ حکومت الٰہیہ کے قیام کا ابتدائیہ ہے۔
کتاب کے مصنف پروفیسر سعید امیر ارجمند نے ایران کے ماضی (تاریخ) کے زندہ حوالوں سے اپنے موضوع کو دوچند کیا۔ کتاب بین دوست یقیناً اس کتاب کے حوالے سے اپنی اپنی رائے رکھتے ہوں گے۔ یہی بنیادی بات ہے۔
مجھ ایسے طالب علم کے لئے سمجھنے والی بات بہرطور یہ ہے کہ کیا انقلاب مسلط نظام کے ردعمل سے جنم لیتا ہے یا کسی دیرینہ فکر کی نئی تفہیم سے؟ مترجم نے اپنے پیش لفظ میں ساسانی دور کے ایک ایرانی بادشاہ کی اپنے صاحبزادے کو کی گئی وصیت کا اقتباس بھی شامل کیا ہے۔ یہ اقتباس پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
ساسانی بادشاہ نے صاحبزادے کے لئے وصیت میں لکھا "یہ جان لو کہ بادشاہت اور مذہب جڑواں بھائی ہیں۔ ان میں سے ایک کے پاس کوئی طاقت نہیں سوائے ساتھی کے ذریعے سے کیونکہ مذہب بادشاہت کی بنیاد ہے اور بادشاہت مذہب کی محافظ ہے۔ بادشاہت کو اپنی بنیاد کی جبکہ مذہب کو اپنے محافظ کی ضرورت ہے۔ جس کا کوئی محافظ نہ ہو وہ تباہ ہوجاتا ہے۔ جس کی کوئی بنیاد نہ ہو وہ برباد ہوجاتا ہے۔
میں تمہارے لئے جس چیز سے بہت ڈرتا ہوں وہ ہے لوگوں کا حملہ۔ مذہب کی تعلیمات پر غور کرو اور اس کی تشریحات اور سمجھ پر توجہ دو اگر تم بادشاہ کی شان و شوکت سے مغرور ہوجائے گے اور مذہب کے بارے اس کی تعلیمات، تشریحات اور اس کی فہم کے بارے تحقیری رویہ اختیار کرو گے تب مذہبی قائدین میں سے جو کم مایہ لوگوں اور رعایا میں چھپے ہوئے ہوں گے وہ جنہیں تم نے زک پہنچائی ہوگی، ڈرایا ہوگا، محروم اور ذلیل کیا ہوگا اٹھ کھڑے ہوں گے۔
یہ جان لو کہ مذہب میں ایک چھپا ہوا قائد اور سرکاری قائد بادشاہت میں کبھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے سوائے اس کے کہ مذہبی قائد سب کچھ جو بادشاہت میں قائد کے ہاتھ ہے وہ غصب نہ کرلے (یہ ایسے ہی ہے) کیونکہ مذہب بنیاد ہے اور بادشاہت ستون۔ بنیاد ہی کے آقا کے پاس ساری عمارت کی طاقت ہے، بمقالہ ستون کے آقا کی طاقت کے"۔
مندرجہ بالا وصیت میں سمجھنے والی بات یہی ہے کہ ریاست کی ظاہری شکل مذہب کی مرہون منت ہی ہوتی ہے۔ اسی لئے ریاست اور مذہبی پاپائیت کی ساجھے داری ہمیں تاریخ میں قدم قدم پر ملتی ہے۔
اب یہ سوال کہ کیا ریاست کو مذہب کی ضرورت تھی، حکمرانی کے دبدبے کے لئے یا مذہب کو ریاست کی اپنے پھیلائو کے لئے؟ اہمیت کا حامل ہے۔ اس سوال کا جواب ہم ایرانی تاریخ کے اجمالی جائزے سے حاصل کریں یا پھر زیرمطالعہ کتاب "تاج کی بجائے عمامہ" سے جواب ایک ہی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ضرورت مند ہیں۔
یہ ضرورت مندی بلاوجہ ہرگز نہیں۔ کیونکہ ریاست نے ہمیبشہ پاپائیت (ملائی مذہبیت) کو ساجھے دار بنایا تاکہ حاکمیت کے دبدبے میں خدا بولتا ہوا محسوس ہو۔ اس کی ضرورت اس لئے بھی رہی اور ہے کہ اس طرح عصری شعور کے حاملین کو نافرمان بے دین اور زندیق قرار دے کر کچلنے میں آسانی رہتی ہے۔
کیا تخلیق کے لئے خالق کی اطاعت لازم بلکہ واجب ہے، انسان بھی تو ایک متھ کے اعتبار سے تخلیق ہی ہے تو اس حیثیت میں اطاعت واجب لازم ہے یا وہ اپنی فہم کی روشنی میں سفر حیات طے کرنے کا حق رکھتا ہے؟
مذاہب یقیناً کچھ نہ کچھ آزادی جو بقول ان کے خالق کی عطا کردہ ہے دیتے رہے ہوں گے مگر ریاست کی ساجھے دار بنی مذہبی پاپائیت ایسا حق نہیں دیتی یہ ایک ہی وقت میں انسان (مذہب کے پیروکاروں) سے تین طرح کی اطاعت طلب کرتی ہے اولاً اپنے مذہبی رہنما، مولوی، پنڈت، ربی، پادری، مربی، مکھیا وغیرہ کی ثانیاً ریاست کی کیونکہ اس کے وجود کو تقدس مذہب فراہم کرتا ہے۔ ثالثاً خالق کی جو تخلیق یا تخلیقات کا حقیقی خالق ہے۔
یہ تین اطاعتیں بھی پھر حرف آخر نہیں ہیں۔ آگے چل کر عقیدوں کے ذیلی عقائد، یہاں تک کہ ہر گلی محلہ میں موجود پیشوائیت بھی خاص اطاعت کی طلبگار ہوتی ہے۔ طلبگار اطاعت کی اس فرنچائزی سے فائدہ اور نقصان ہر دو کے تناسب پر غور کی ضرورت تو بہرطور ہوگی لیکن جب ریاست و حکومت کی بنیاد مذہب و عقیدہ ہوجائے پھراطاعت واجب قرار پاتی ہے اور غوروفکر یا عصری شعور کے ساتھ ایسے نظام کی بات جو ریاست کے وسائل اور اس پر حق حکمرانی دونوں کے لئے مساوات کی طلبگاری کے زمرے میں آئے غلط ہی کہے جاتے ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر تعمیر ہوئی ریاست میں مساوات ممکن ہے۔
اگر ہے تو کس حد تک۔ اس سوال کے جواب میں مذہبی پرچارک لاکھ کہیں کہ بنیادی اساس ایک ہے بس چند امور پر اختلافات ہیں لیکن یہ جان لیوا نہیں۔ عمل کی دنیا اس سے یکسر مختلف ہے۔ مطلق العنانی صرف مذہبی حاکمیت اور ملوکیت (بادشاہت) میں ہی نہیں ہوتی اس کی دیگر اقسام بھی متعارف ہوئیں۔ مثلاً ہمارے ہاں قرارداد مقاصد نے ریاست کے ہاتھوں میں مطلق العنانی کی دو دھاری تلوار تھمادی۔
مارشل لائوں نے مزید گل کھلائے۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء نے سب کچھ تلپٹ کرکے رکھ دیا۔ غیرریاستی لشکر پالنے اور انہیں اثاثے قرار دینے کی فہم نے زخموں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اس لئے اگر ہم سے طلباء یہ کہتے ہیں کہ ہماری ریاست کا ہر تجربہ نہ صرف عوام کو بھاری پڑا بلکہ خود ریاست کو بھی تو یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔
کس تجربے سے بات کا آغاز کیا جائے اور کہاں پر ختم؟ بٹوارہ تجربہ تھا، قرارداد مقاصد یا قرارداد مقاصد بٹوارے کے فارمولے کا حقیقی نتیجہ جس نے آگے چل کر انڈے بچے دیئے۔
بہرطور یہ حقیقت ہے کہ "تاج کی جگہ عمامہ" نامی کتاب میں ایران کی ساسانی شہنشائیت کے ایک تاجدار کی اپنے صاحبزادے کو کی گئی وصیت کا اقتباس اہمیت رکھتا ہے۔ ابتدائی نگاہ میں ایسا لگتا ہے کہ پروفیسر سعید امیر ارجمند (کتاب کے مصنف) نے اپنی تحقیق کی بنیاد اسی فہم پر اٹھائی۔
ایسا ہی ہے تو یہ غلط اس لئے نہیں کہ ایرانی ریاست کی ہر شکل میں مذہب کو بنیادی حیثیت حاصل رہی اور آج بھی ہے۔ بادشاہتوں اور مذہب کی ساجھے داری ہمیشہ رہی۔ اس ساجھے داری کا عرصہ اڑھائی ہزار سال پر محیط ہے یا تین ہزار سال پر اس کا اصل تو بہر طور مذہب ہی رہا ہر دور میں۔ تبدیلی مذہب کے عمل میں زیادہ حصہ بادشاہ کا دین ملوک کا دین ہے۔
مسلم فتوحات کے بعد فاتح کا دین مفتوحین کا دین ہوا۔ یقینآ آگے چل کر خلافت و امامت کے اداروں کی بنیاد پر ہوئی تقسیم میں ہمیں ایرانی ریاست 1501ء عیسوی کے بعد سے امامت کے ادارے کے ساتھ منسلک دیکھائی دیتی ہے۔
امامی فہم پر من حیث القوم اعتقاد کا زمانہ بھی یہی ہے۔ پروفیسر سعید امیر ارجمند کی تحقیق و تصنیف اور ایرانی تاریخ کے مختلف ادوار اور ریاستی مذہب پر مزید بات کریں گے فی الوقت کالم کے دامن کی گنجائش تمام ہوئی۔