Maftooha Qaum Ka Fateh Aadmi
مفتوحہ قوم کا فاتح آدمی
سعید اختر سیال بھی رخصت ہوئے۔ کچھ عرصہ سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے، دنیاسرائے سے پڑاو اٹھانے کی وجہ بھی یہی ہے۔ صاف سیدھے، شعور کی دولت سے مالامال، انسانی اقدار کے علمبردا، ڈیرہ اسماعیل خان کا روشن اور اُجلا چہرہ، شاعر ادیب، دانشور، ایک سچے زمین زادے سعید اختر سیال کے سانحہ ارتحال کی خبر نے تقسیم شدہ سرائیکی وسیب کے دونوں حصوں میں آباد وسیب زادوں کو دُکھی کردیا۔ ہمارے دوست رانا محبوب اختر نے اپنی کتاب "مونجھ سے مزاحمت تک" میں سعید اختر سیال کے تعارف میں ہزار خان کی ایک تحریر کا اقتباس پڑھنے والوں تک پہنچایا۔
ہزار خان نے سعید اختر سیال کی کتاب "دریا سندھ کے کنارے" کے حوالہ سے لکھا تھا "مونجھ اگر آنکھ کے گھرمیں بچے دینا شروع کردے تو آدمی اندھا ہوجاتا ہے۔ مونجھ تو آنکھوں کو اشکوں سے دھونے کا حیلہ ہے اور مستقبل مونجھ اندھیرا ہے۔ یہ اندھیرا روشنی سے مرتا ہے۔ امید کی روشی میں لمبے راستے سرنگ کے آخری سرے تک روشن ہوجاتے ہیں۔ سعید کی آنکھوں میں مونجھ کے ساتھ وسیب کے مستقبل کی تاریخ کی روشنی ہے"۔
رانا محبوب اختر کہتے ہیں "لفظ، معنی اور اسلوب کا سیلاب شاعری کے چاند کو روشن کرتا ہے"۔ سچ یہی ہے کہ سعید امیدوں کے چراغ روشن کرتا ہوا وسیب زادوں کے دلوں کو طلوعِ صبح آزادی کے نور سے منور کرتا سفر حیات طے کرگیا۔ سعید اختر سے ہماری دوستی کا تعلق چار دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ زندہ شعور کے ساتھ اس نے زندگی اور فہم کے بھرم کو ہمیشہ قائم رکھا۔ اس کی نثر بھی شاعری کی طرح اُجلی اور روشن تھی۔
اپنے وسیب کی تقسیم پر رنجیدہ شخص نے اپنی وسوں کے لوگوں کو ہمیشہ یہ سمجھایا کہ "اپنے اصل کی سمت کا سفر ہی اصلِ زندگی ہے"۔ سعید کہتے تھے " جیسے روشنی کی پہلی کرن، تمہارا چہرہ دیکھ کر مسکرااُٹھتی ہے بالکل ایسے ہی تم بھی روشنی کی پہلی کرن کو دیکم کر، مسکرادو تو دل باغ باغ ہوجائے گا"۔
سعید سرائیکی زبان کا قادرالکلام شاعر اور نثرنگار ہے۔ اپنی مادری اور وسوں (وسیب) کی زبان کو اظہار کا ذریعہ بنانے کے پیچھے تقسیم شدہ وسیب سے اس کی بے کراں محبت موجزن رہی۔ اس نے ہمیشہ ترقی پسندوں کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالا۔ رجعت پسندی کو دور سے تین سلام کئے اور آگے بڑھ گیا وہ ڈیرہ اسماعیل خان کی سماجی رونق کا ایسا روشن چراغ تھا جو دیرے والوں کے درمیان سے جسمانی طور پر تو اٹھ گیا لیکن اس کی فکر، نثر، شاعری اور سب سے بڑھ کر اپنے وسیب کے لئے بے حساب محبت اسے ہمیشہ زندہ رکھے گی۔
سعید کا معاملہ مرشد بلھے شاہؒ والاہی ہے۔ " بلھے شاہ اساں مرنا نا ہیں، گور پیا کوئی ہور"۔ زندہ انسان بھی بھلا کبھی مرتے ہیں؟ سادہ سا جواب یہی ہے زندہ انسان ہی تو نہیں مرتے اور مُردے جب مرتے ہیں تو قبرستان کی خاموشی جوں کی توں برقرار رہتی ہے۔ آدمیوں کے جنگل میں ایک درخت کے کم ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے لیکن زندہ انسان کے رخصت ہونے سے چراغوں کی لوئیں تھرتھرانے لگتی ہیں، چراغ ہی بین کرتے ہیں وہی نوحہ پڑھتے ہیں۔
سعید اختر کی نثر اور شاعری یا پھر مکالمے میں موجود دلیل اور مطالعے کی طاقت ان سب سے لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ بینکار ہے۔ کہاں دو جمع تین اور پھر اسے سات پر تقسیم کرنے کی بینکاری اور کہاں فہمیدہ سوچ کے ساتھ چار اور کے لوگوں کی رہنمائی۔ کم ہی کم ایسا ہوتا ہے کہ آدمی غم روزگار اور شعوری ارتقاکے ساتھ انصاف کرسکے۔ رانا محبوب اختر سوفیصد نہیں ہزارہا فیصد درست کہتے ہیں کہ "سعید کی شاعری میں محبت حسد سے نہیں مرتی، کشادہ دلی سے جلا پاتی ہے"۔
محبت اور فکرودانش کے چراغ روشن کرتا آدمی قدامت پسندی کے تعصب کے ساتھ پاپائیت کو بھی فکری استقامت کے ساتھ رد کرتاہے۔ اس نے بھی ساری زندگی یہی کیا۔ اس کی شاعری فقط اس کے عہد کی شاعری نہیں تھی قدیم رتوں، لمحہ موجود کے دکھوں اور روشن مستقبل کی نوید سے عبارت شاعری نے سرائیکی وسیب میں دھوم مچادی۔
اس نے ہمیشہ وسیب کے اجڑے موسموں اور فاتحین کے لگائے گھاووں کا ذکر کیا مگراس ذکر میں مایوسی رتی برابر بھی نہیں تھی۔ فقیر راحموں نے ایک دن سندھ دریاکے کنارے سجی محفل میں سعید سے کہا تھا "یار تم مفتوحہ قوم کے فاتح آدمی ہو" یہی سچ ہے وہ مفتوحہ قوم کے فاتح آدمی کے طور پر جیا اور اپنی بات کی۔ اس کی شاعری اس کی فتح مند سوچ کا زندہ اور ہمیشہ رہنے والا ثبوت ہے۔
سعید ہمیشہ طبقاتی ناہمواری کے خلاف کچلے ہوئے طبقات کے ساتھ کھڑا دیکھائی دیا۔ قومی جمہوریت پر اسے یقین کامل تھا۔ سعید نے ہمیشہ اس طبقاتی ناہمواری کی کوکھ سے جنم لینے ولے تعصبات کو رد کیا اور پوری قوت کے ساتھ "سرمدی گیت الاپا"۔ اس کے لہجے میں سرمدؒ جیسی گھن گرج، بلھے شاہؒ جیسی تپتی بغاوت اور خواجہ غلام فریدؒ جیسی حلیمی بھی تھی۔ کیسی عجیب بات ہے نا ایک آدمی میں۔ ان تینوں چیزوں کا یکجا ہونا۔ لیکن سعید میں یہ تینوں خوبیاں تھیں۔
چند دن قبل اس نے ٹیلیفون پر دریافت کیا، سنا ہے دیرہ آرہے ہو؟ جی پروگرام یہی ہے دعا کرو صحت سفر کی اجازت دے۔ مجھے اس کا ہلکا سا قہقہ سنائی دیا اور پھر اس نے کہا چلو ٹھیک ہے ہم تمہاری پسندیدہ جگہ (سندھ دریا کے کنارے) اکٹھے ہوں گے تم کسی دوست کو بلانا چاہو تو خوشی سے بلالینا، تم ہی تو میزبان ہوگے"۔
پچھلے چالیس بیالیس برسوں کے دوران ہم درجنوں بار ملے۔ میرے قیام پشاور کے ماہ و سال میں اس کا جب بھی پشاور کا چکر لگا ملاقات لازمی ہوئی۔ ہم دیرہ جائیں اور اس سے نہ ملیں یہ کفر کبھی نہیں کمایا۔ لگ بھگ تین برس قبل سعید سے دیرہ میں سیدی عمار یاسر کاظمی کے ہاں ملاقات ہوئی تھی۔ ظفر درانی اورایک دو دوست اور بھی تھے۔ ہم نے مل کر گزرے ماہ و سال کی یادوں کے اوراق الٹے۔ سعید کہنے لگے "شاہ جی یار تم بڑے خوش قسمت ہو دیرے والے تجھے ہمیشہ اپنا سمجھتے ہیں "۔
سندھ دریا کنارے صدیوں سے آباد اس شہر سے ہماری محبت بھی بہت انوکھی ہے محبت کی پہلی وجہ سندھ دریا ہے پھر دیرے وال سنگت، سلیم شہزاد مرحوم بھی اسی سنگت کا حصہ تھے۔ سعید دنیا سرائے سے پڑاو اُٹھاکر چل دیئے۔ بڑی دیر تک تو اس خبر پر یقین ہی نہیں آیا۔ اس کا مسکراتا ہوا چہرہ آنکھوں میں روشنی کے ساتھ نمی بھرنے لگا۔
روشنی اور نمی دونوں کا سیلاب، اس سیلاب نے ہی یقین دلوایا کہ وہ شخص رخصت ہوا جس نے کہا تھا "دھرتی۔ کبھی شاعری کرتی ہے، کبھی نظم لکھتی ہے، موسموں کی بہار ہے، رنگے برنگے پھول کھلتے ہیں، پیٹ بھرنے کو گندم اور چنے بھی اگاتی ہے، دھرتی ہی ہمارا چہرہ ہے روشن چہرہ"۔
ہائے وہ زندہ شعور انسان رخصت ہوا جو کہتا تھا "میرا جی چاہتا ہے، میں دیرے سے پھول چنتے چنتے، ملتان کو بوسہ دے آوں۔ ملتان، جس نے شاہ شمس، غوث بہاوالحق اور شاہ رکنِ عالم کو سینے سے لگارکھا ہے۔ ملتان، رفعت (رفعت عباس) والا ملتان؟ "
دوست بچھڑ رہے ہیں جدائیوں کا موسم لالے زمان جعفری سے شروع ہوا تھا، سعید اختر سیال تک آن پہنچا۔ مجھ بدنصیب کے حصے میں بچھڑنے والے دوستوں کا نوحہ لکھنا رہ گیا ہے۔ پچھلے کئی گھنٹوں سے خود سے ہی تعزیت کررہا ہوں۔ سعید اختر سیال ہمارے تقسیم شدہ وسیب کا عہد ساز شاعر اور دیرہ اسماعیل خان کا روشن چہرہ تھا۔ "تھا" لکھتے ہوئے اندر عجیب سی ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
ہمارے بس میں اور کچھ نہیں تھا بس دیرہ کی سمت منہ کرکے اتنا کہا "سعید یار ایسے تو نہیں کرتے"۔