Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Kuch Nastay Shahtay

Kuch Nastay Shahtay

کچھ ناشتے شاستے

کالم لکھنے کی بجائے حسین حقانی کی کتاب "عالی شان واہمے" پڑھنے کا ارادہ تھا۔ دفتر سے حکم صادر ہوا کالم ضرور لکھنا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس حکم کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور رہی ہوگی ورنہ ایک آدھ رخصت سے کون سا قیامت برپا ہوجانی تھی۔

مسئلہ بھی کوئی نہیں بس پڑھنے کو جی چاہ رہا تھا۔

ویسے جی تو چاہ رہاہے کہ ساڑھے چار گھنٹے کا سفر کرکے راولپنڈی کے راجہ بازار کے اس ہوٹل پر جاوں جہاں سے گزشتہ صبح "اُمیدِ امت مسلمہ" کے لئے ناشتہ لے جایا گیا۔ یہ کوئی بری بات بھی نہیں آدمی زندہ ہو صحت ہو تو کھانے کو جی کرتا ہی ہے۔

فقیر راحموں کئی دن سے ایک ناشتے والی دکان کی ویڈیو دیکھاکر اکسارہا ہے شاہ جی چلو اس دکان پر کسی دن صبح ناشتہ کرتے ہیں۔ میں جواباً کہتا ہوں یار اس طرح کے ناشتے لاہور بھر میں درجنوں مقامات پر ملتے ہیں وہ "آنکھ بھینچ کے کہتا ہے لیکن مغلپورہ کی بات ہی اور ہے"۔

اللہ بخشے چاچے مودی دال مونگ والے کو ہمارے بچپن میں ان کے دال مونگ خونی برج اور ملحقہ محلوں میں مشہور تھے۔ صاف ستھرے ذائقہ دار تب لوگ گھر سے برتن لے جایا کرتے تھے اور بچہ لوگ پیپل کے پتوں سے فوری بنائی کٹوری میں چاچے مودی سے دال مونگ خریدتے۔

ان میں سے زیادہ تر تو گھر جاتے ہوئے راستے میں انگلیوں کو چمچ بناکر دال مونگ کھاجاتے کچھ پتے کا ایک کنارہ توڑ کر چمچ بنالیتے۔ کیا زمانے تھے جب دکاندار سے گھر کی چیز خریدنے کے بعد جھونگا بھی طلب کیا جاتا تھا۔

یہ راجہ بازار سے پایوں کا ناشتہ لے جانے اور کھیلانے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ اعتراض سرکاری گاڑی کے استعمال پر ہے اور مجھے یقین ہے کہ اگر امید امت مسلمہ کو پتہ ہوتا کہ ناشتہ لانے کے لئے سرکاری گاڑی استعمال ہوئی ہے تو وہ ناشتے سے پہلے سرکاری گاڑی کے اس غیرقانونی استعمال پر احتجاج ضرور کرتے۔ ان جیسے بااصول آدمی سے بے اصولی کی توقع نہیں، کیونکہ وہ تو بطور وزیراعظم اپنے سیاسی مخالفین کی بیرکوں میں ایئرکنڈیشن لگانے اور گھر کا کھانا منگوانے پر کہا کرتے تھے، کیا سارے قیدی ایئرکنڈیشن میں رہتے ہیں سب کو گھر کا کھانا ملتا ہے؟

وہ اس سے آگے بھی کچھ کہا کرتے تھے مگر وہ یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔

خیر کوئی بات نہیں آج 7 اکتوبر ہے 14 دن بعد قائد انقلاب میاں محمد نوازشریف صحت و تندرستی کی دولت سے مالامال بلکہ جھولیاں بھر کر لندن سے واپس آرہے ہیں۔

میاں صاحب جب علاج کے لئے جیل سے لندن گئے تھے تو عالمگیر شہرت کے حامل صحافی دانشور ادیب اور تجزیہ نگار ہارون الرشید المعروف چاچا کُپی نے اپنے ٹی وی پروگرام میں میز پر مکہ مارتے ہوئے جذباتی انداز میں کہا تھا نوازشریف "9 ارب ڈالر دے کر ملک سے باہر گیا ہے آصف زرداری بھی 14 ارب ڈالر دینے پر تیار ہے بات چیت جاری ہے"۔

ہمزاد فقیر راحموں نے تب مطالبہ کیا تھا کہ چاچے کپی کو فوراً تحویل میں لے کر ان سے 9 ارب ڈالر کی وہ رقم برآمد کی جائے جو نوازشریف ادا کرکے علاج کرانے گئے ہیں۔ یہ مطالبہ کسی نے نہیں ماناچلیں اب نوازشریف 14دن بعد آہی رہے ہیں وہ خود بتادیں گے کہ 9 ارب ڈالر کس کو دیئے تھے۔ باجوہ کو عمران کو یا سٹیٹ بینک آف پاکستان کو۔

فقیر راحموں کے چاچا کُپی بڑے تاریخی اور دلچسپ "چیز" ہیں ایک عرصہ تک انہیں تحریک انصاف کا لینن بھی کہا جاتا رہا اسی عرصہ میں مرحوم لینن نے اللہ سائیں کو ایک مختصر احتجاجی خط میں لکھا تھا

"ڈیئر گاڈ، میرے اتنے گناہ نہیں ہیں جتنی کڑی سزا یہ کہہ کر دی جارہی ہے کہ کوئی پاکستانی صحافی پاکستان کی ایک جماعت تحریک انصاف کا لینن ہے۔

یہ کیسا لینن ہے جو اپنی مادری زبان کے علاوہ کسی زبان میں بول رہا ہو تو لگتا ہے جھوٹ بول رہا ہے"۔

ہمیں نہیں معلوم کہ لینن صاحب کو اس مختصر خط کے جواب میں واپسی خط ملا کہ نہیں البتہ ان کی یہ بات درست ہے کہ فقیر راحموں کے چاچا کپی مادری زبان کے علاوہ کسی زبان میں اظہار خیال کریں تو اس زبان کے بانیان قبروں میں تڑپنے لگتے ہیں۔

معاف کیجئے بلکہ اس عجیب و غریب کالم کی بُنت پر معاف ہی کیجئے گا۔

میں ابتدائی سطور میں صاف سیدھے الفاظ میں عرض کرچکا کہ آج اداریہ وغیرہ لکھ کر پڑھنے کا موڈ تھا۔ دفتر والے یہ کالم زبردستی لکھوارہے ہیں اس لئے ہمارے قارئین سکون کے ساتھ بھگتیں۔ کوئی بات نہیں کبھی کبھی ایسا بھی ہوجاتا ہے۔

ہم بات کرہے تھے ناشتوں کی تو اس معاملے میں قائد انقلاب میاں نوازشریف کے حُسنِ انتخاب کی بھی داد دینی چاہیے کہ انہیں پرانے لاہور کی مشہور زمانہ ناشتوں والی دکانوں کے "جائے وقوعہ" تک ازبر ہیں۔

میاں صاحب سے بہتر کون جانتا ہے کہ ہریسہ کہاں ملتا ہے کھد کہاں، سری پائے سری کہاں، کلچہ وغیرہ اور لسی کہاں ملتی ہے وہ بھی پیڑوں والی۔

اللہ انہیں صحت و تندرسی کے ساتھ وطن واپس لائے، لائے کیا بس اب وہ آئے ہی آئے، 14 دن تو باقی ہیں اس دن میں جب وہ اپنے متوالوں کو دیدار عام کرانے کے لئے پاکستان میں قدم رنجہ فرمائیں گے۔

میاں صاحب تین بار وزیراعظم رہے اور انہوں نے جمعہ اور اتوار کی صبح کا ناشتہ ہمیشہ لاہور کے معروف ناشتہ فروشوں سے منگواکر کیا۔ چند بار تو ان کا ناشتہ ہیلی کاپٹر سے مری بھی لے جایا گیا۔

خوش خوراکی بھی بڑی نعمت ہے شرط یہ ہے کہ صحت ہو اور خرچہ دوسرے کا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ میاں صاحب خود خرچہ نہیں کرتے ان کا ذاتی دستر خوان ہمیشہ بہت وسیع رہا۔ لاہور کے اخبار نویسوں کو دی گئی ایک دو دعوتوں میں تو ہم بھی فقیر راحموں کے ہمراہ شریک ہوئے۔

میاں صاحب وسیع دسترخوان کے ساتھ کھلے ہاتھ والے بھی ہیں۔ متوالوں پیاروں اور منشیوں کو نوازنے میں رتی برابر بخیلی نہیں کرتے۔ اتنے شاہ خرچ ہیں کہ بیماری کی خبر بھی اشتہار کے طور پر چلواچھپوالیتے ہیں۔

ایک بار پھر معاف کیجئے گا راجہ بازار سے لے جائے گئے ناشتہ سے بات شروع ہوئی اور قائد انقلاب کی مدحت پر پہنچ گئی۔

ہمارے ایک دوست تھے حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے نصراللہ خٹک مرحوم، ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس وقت کے صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) کے وزیراعلیٰ رہے، سفید پوشی کے ماہ و سال میں بھی ان کا دسترخوان شکم سیری کی نعمتوں سے بھرا ہوتا تھا۔

میزبان کے طورپر ان کی شہرت یہ تھی کہ وہ خود کم کھاتے اور مہمانوں کو کھانے پر اکساتے رہتے تھے۔ یہ خوبی اپنے قائد انقلاب میں بھی ہے۔

امید امت مسلمہ کو تو یہ خوبی چھوکر بھی نہیں گزری۔

بہرحال قائد انقلاب آج سے 14ویں دن تشریف لارہے ہیں ان کی آمد سے اچھا رونق میلہ لگے گا۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب آئوٹ آف ڈیٹ ہوگئے وہ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ انکی آمد کا سن کر اسلام آباد میں صحافیوں کے ہیلی کاپٹر گروپ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے دوڑنی بھی چاہیے اس ہیلی کاپٹر گروپ کو جتنا میاں صاحب نے نوازا اتنا تو ان کے والدین نے نہیں نوازا۔

یہ سطور لکھتے ہوئے ہیلی کاپٹر گروپ کے اسمائے گرامی ذہن میں گونج رہے ہیں اور ان کی پرمسرت شکلیں آنکھوں میں ناچ رہی ہیں۔

آجکل پاکستان میں کچھ لوگ پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ میاں نوازشریف آخری وقت پر پاکستان آنے کا پروگرام کینسل کردیں گے۔ یہ پروپیگنڈہ باز منہ کی اس وقت کھائیں گے جب میاں صاحب ملک میں قدم رنجہ فرمائیں گے۔

میاں صاحب نے اگر واقعی وطن واپس نہ آنا ہوتا تو ہمارے ایک دوست حفاظ صفوان ان دنوں دو دھاری تلواریں سونتے پپلیوں کے کشتوں پہ پشتے نہ لگارہے ہوتے۔

گزشتہ روز تو ان (میاں صاحب) کے برادر خورد میاں شہباز شریف نے بھی کہہ دیا ہے کہ "اب یہ سوال غیرضروری ہے کہ میاں نوازشریف کب وطن واپس آرہے ہیں"۔

ایک بار پھر معاف کیجئے گا وہ راجہ بازار والے ناشتہ کی بات ادھوری رہ گئی۔

میاں صاحب کا ذکر خیر کالم کا بڑا حصہ لے گیا چلیں کوئی بات نہیں تین بار وزیراعظم رہنے والے کا اتنا تو حق بنتا ہے۔ ویسے اس ملک میں" حق " اپنا اپنا ہوتا ہے۔

Check Also

Roos, Nuclear Doctrine Aur Teesri Aalmi Jang

By Muhammad Aamir Iqbal