Kuch Karvi Kaseeli Maroozat
کچھ کڑوی کسیلی معروضات
اس ملک میں سیاست اور مذہب کے نام پر جو کچھ ہوتا ہے اور ہوتا آیا ہے دونوں پر بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جاتا رہے گا۔ قلم مزدوری کے کوچے میں نصف صدی بیتانے کے ماہ و سال میں سیاسی جماعتوں، مذہب و عقیدے کے نام پر سیاست کرنے والوں، ماضی کےسیاسی کارکنوں (ان کی بچی کھچی نشانیاں اب بھی دستیاب ہیں) سیاسی کارکنوں کی جگہ لینے والے نالی موری کے ٹھیکیداروں سمیت سیاسی مہاجرین کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا رہا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں ایک عدد ذہنی غلام دوسرے پر غلام ہونے کی پھبتی کستا ہے۔ سیاسی مہاجر خود کو بااصول قرار دیتا ہے، اپنے اپنے لیڈر کو پیشوا کا درجہ دینے والے گلے پڑتے ہیں۔
اس سے زیادہ دلچسپ لوگ وہ ہیں جو کسی ایک شخص، محکمے اور جماعت کی محبت میں دودھاری تلواریں سونتے کشتوں کے پشتے لگاتے ہیں۔ فریق مخالف پر سوقیانہ جملے اچھالتے ہیں۔
ہر شخص اس امر کا خواہش مند ہے کہ جس دیوتا کی وہ پوجا کررہا ہے سارے گھٹنوں کے بل جھک کر اس کی عظمت کے گیت گائیں۔
سیاسی مخالف کو غدار قرار دینے کی رسمِ بد مسلم لیگ نے ڈالی تھی۔ فکری مخالف کو کافر کہنے کی عادتِ بد کو فرقہ پرست جماعتوں کے حامیوں نے رواج دیا۔
ایک وقت تھا جب صالحین کے خیال میں ان کی فہم اسلامی سے مختلف رائے رکھنے والے گمراہ اور یہودوہنود کے پروردہ تھے۔ ترقی پسندوں کے دونوں کیمپ (سوویت یونین اور چین) کے حامی ایک دوسرے کے مخالف تو تھے ہی لیکن اس پر اتفاق تھا کہ جو ان سے اختلاف کرے وہ سامراجی ایجنٹ ہے۔
اسی نصف صدی کے عرصہ میں طالبعلم نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد سکہ بند ترقی پسندوں نے سامراجی قوتوں کے اداروں میں ملازمتیں کرلیں۔ درجنوں زندہ و مرحومین کے اسمائے گرامی تحریر کئے جاسکتے ہیں یہی حال اسلام پسندوں کا ہے۔
افغان انقلاب ثور کے بعد ان کی اکثریت لادین سوویت یونین کے خلاف اہل کتاب کے اتحاد میں نہ صرف مذہبی جوش و جذبہ سے شامل ہوئی بلکہ جہادی کاروبار کو رواج دیا۔
بہرحال سب سے دلچسپ مخلوق سیاسی مہاجروں کی ہے۔ پچھلے تیس برسوں کے دوران پارٹیاں بدلنے والی اس مخلوق نے نئی محبت کی سچائی ثابت کرنے کے لئے پرانے عشق کو "رج کر جوتے مارے"۔
آپ صرف فواد چودھری کی مثال ہی سامنے رکھ لیجئے۔ جنرل مشرف ق لیگ، پیپلزپارٹی اور اب تحریک انصاف انہوں نے جس کی بھی ترجمانی کی پھٹے توڑ ترجمانی ہی فرمائی۔ جدید مواصلاتی نظام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ "بولتے ثبوت" مل جاتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) والے رانا ثناء اللہ کو لے لیجئے۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے انہیں پیپلزپارٹی سے نوازشریف کی صاحبزادی کے خلاف غلیظ زبان استعمال کرنے پر نکالا تھا۔ انہیں (ن) لیگ نے گلے لگالیا پھر وہ سابقہ جماعت اور لیڈر شپ بارے جو کہتے رہے وہ ریکارڈ پر ہے۔
سابق فرزند لال حویلی شیخ رشید کبھی نوازشریف کو جناح صاحب سے بھی بڑا لیڈر کہتے تھے بعد میں مشرف کو اسلامی دنیا کا سب سے عظیم رہنما کہتے رہے آجکل بنی گالہ کے مجاور ہیں۔ جنرل اختر عبدالرحمن جالندھری کے صاحبزادوں کو دیکھ لیجئے کیا سے کیا ہوگئے۔
بھٹو صاحب کی پھانسی پر ہارون مینشن کراچی میں مٹھائی تقسیم کرنے والے اقبال حیدر پھر پیپلزپارٹی کے وزیر قانون و پارلیمانی امور بھی بنے۔ بھٹو جیل میں تھے بیگم نصرت بھٹو کی سربراہی کو فرد واحد کا فیصلہ قرار دے کر پاکستان پروگریسو پیپلزپارٹی بنانے والے کوثر نیازی پھر ایک دن اسی پیپلزپارٹی کی بدولت اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ بن گئے۔
آصف علی زرداری کے والد میر حاکم علی زرداری 1970ء میں پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی بنے۔ نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگی، سردار شیرباز مزاری۔ ہاشم کاکڑ اور راو مہروز اختر کی کوششوں سے بننے والی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی میں شامل ہوکر سندھ کے چیف آرگنائزر بن گئے۔
محمد حنیف رامے نے پیپلزپارٹی سے الگ ہوکر مساوات پارٹی بنائی پھر پیر پگاڑا کی مسلم لیگ کے چیف آرگنائزر ہوئے۔ غلام مصطفی کھر تو خیر سیاسی جماعتیں بدلنے اور شادیاں کرنے کا عالمی ریکارڈ رکھتے ہیں۔
ہمارے مرحوم دوست نصراللہ خٹک کے عم زاد پرویز خٹک آج کل تحریک انصاف میں ہیں یہ ان کی ترتیب کے حساب سے چھٹی پارٹی ہے۔
بالائی سطور میں جن زندہ و مرحوم احباب سیاست کا ذکر کیا آپ ان کی بدلتی سیاست کے دنوں کے بیانات تلاش کرکے دیکھ لیں تو کان سرخ ہوجائیں گے۔
سیاسی جماعت اگر نظریاتی ارتقا کے باعث تبدیل ہو تو یہ برائی ہرگز نہیں۔ برائی یہ ہے کہ آپ پچھلے دور کو جبروستم اور جہالت کا دور قرار دیں اور پھر جہل سے بھری بونگیاں مارنا شروع کردیں۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ کوئی مرحوم و زندہ سیاستدان ولی کامل ہرگز نہیں سبھی انسان ہیں خامیاں خوبیاں ان میں دوسروں جیسی ہی ہیں کم یا زیادہ یہ الگ حساب ہے۔
ہمارے محمدعلی جناح صاحب کبھی کانگریس میں ہوا کرتے تھے۔ پھر ایک عرصہ تک کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کے رکن رہے۔ ایک دن صرف مسلم لیگی ہوگئے اس کے بعد انہوں نے اپنی سابق جماعت کانگریس اور اس کے بعض رہنمائوں کے جو جملہ بازی کی وہ تاریخ میں محفوظ ہے۔
ہمارے ہاں 14اگست کے سالانہ میلے کے موقع پر ان کے محبین ان کے جملوں کو بطور تبرک تقسیم کرتے چباتے ہیں۔
بھٹو صاحب کنونشن مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل رہے۔ البتہ یہ جھوٹ ہے کہ وہ ایوب کی بدولت سیاست میں آئے سچ یہ ہے کہ وہ سکندر مرزا کے دور حکومت میں سیاسی عمل کا حصہ بنے۔ انہوں نے اگلے مرحلہ میں ایوب کا ساتھ دیا غلط کیا لیکن کیا یہ غلطی صرف بھٹو نے کی؟
سیاسی جماعت اور نظریہ تبدیل کرنا کسی بھی طرح غلط نہیں، غلط سیاسی مہاجر بننا ہے۔ اس سے بھی زیادہ غلط یہ ہے کہ سیاسی ہجرت کے ثمرات پر سانپ بن کر بیٹھ رہا جائے اور پچھلوں کو کوسا جائے۔
اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ سب سے ظالم اور سفاک ہے۔ دوقومی نظریہ، اسلامی قلعہ، امہ کی آخری امید، جہادی تجارت، امریکہ نوازی اس کے ساتھ ساتھ سکیورٹی سٹیٹ کا تصور اجاگر کرنا سیاسی مینجمنٹ، سیاسی جماعتیں بنوانا اور ان میں توڑ پھوڑ کروانا، اتحاد بنوانا، غیر ریاستی لشکر پالنا، یہ اسٹیبلشمنٹ کے ناقابل معافی جرائم ہیں۔
کل تک جو لوگ ان جرائم کو اسلام اور پاکستان کی خدمت قرار دیتے تھے آجکل وہ بھی اسٹیبلشمنٹ مخالف ہیں ان کے خیال میں جو ان کے ساتھ نہیں وہ اسٹیبلشمنٹ کا ہمنوا ہے۔ یہ سوچ غلط ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی نظریاتی مخالفت اور عاق کئے جانے پر مخالفت کے نام پر نفرت دو الگ الگ معاملے ہیں۔
پچھلے برس 9اپریل سے قبل یہی ہمیں بتاتے سمجھاتے تھے کہ اگر پاک فوج نہ ہوتی تو یہ ملک کب کا لبنان، عراق اور شام بن گیا ہوتا۔ اب سمجھارہے ہیں کہ اگر فوج نہ ہوتی تو یہ ملک سوئٹزرلینڈ، سویڈن اور ناروے بن چکا ہوتا۔
یہ دوست کل بھی غلط تھے آج بھی غلط ہیں کیونکہ ان کی گزشتہ اور حاضر و ناظر سوچ دونوں سیاسی فہم پر نہیں نفرت سے عبارت ہے۔
اس ملک می مذہبی سیاسی جماعتوں کا حال سیاسی جماعتوں سے بھی برا بلکہ بدتر ہے۔ مذہبی جماعتوں کے حامی اپنے رہنما کے لئے ہر کس و ناکس سے اطاعت کے طلبگار رہتے ہیں۔ گریزاں لوگ ان کے خیال میں زندیق سے بھی برے ہیں۔
کیا یہ عدم برداشت نصف صدی یا پون صدی کی دین ہے؟ طالب علم کا خیال ہے کہ یہ عدم برداشت اصل میں مسلم تاریخ کا ثمر ہے۔ آپ مسلم تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے۔
غالباً 1996ء کے سال میں۔ میں نے مشرق پشاور میں شائع ہوئے ایک کالم میں شیخ احمد سرہندیؒ کے ایک مکتوب کا حوالہ دیا۔ اس مکتوب کا اقتباس جناب سید سبط حسن مرحوم اور دیگر بزرگوں نے بھی اپنی کتب میں دیا تھا۔ انجمن فروغ فکر شیخ احمد سرہندیؒ پشاور والے جاوید اقبال صاحب نے میرے خلاف سول عدالت میں دعویٰ دائر کردیا۔ دعویٰ خیر دوسری پیشی پر ہماری جانب سے تاریخی کتب اور حوالہ جات کا ریکارڈ پیش کرنے پر خارج ہوگیا لیکن یہ سمجھ میں آگیا کہ یہ واحد ملک ہے جہاں تاریخ سے حوالہ دینا بھی جرم ہے۔
خیر یہ قصہ ذہن میں تازہ ہوا عرض کردیا۔ بنیادی بات جو عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں قدیم زمانوں کی اسٹیبلشمنٹ کے پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر برصغیر کے مختلف حصوں میں تشریف لانے والے بزرگ بھی تاریخ کا حصہ ہیں لیکن ان پر بات نہیں کی جاسکتی۔
سیاستدانوں کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، ہر شخص کو جو لیڈر پسند ہے وہ دیوتا اور باقی چور دکھتے ہیں حالانکہ دیوتائوں کے دامن بھی داغوں سے بھرے ہیں۔
کچھ عزیز تقاضا کرتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے خلاف لکھا جائے ان میں زیادہ تر سیاسی مہاجر ہیں۔ اچھا ویسے کبھی انہوں نے عمران خان کے حق میں زمین آسمان ایک کرتے تحریر نویسوں سے بھی کہا ہے کہ جانبداری ترک کرکے غیرجانبدار ہونے کا ثبوت دیں؟ سیاسی و مذہبی جماعتیں اور ان کے لیڈران و مولوی صاحبان خدائی اوتار نہیں، ہم نے تو کبھی اسٹیبلشمنٹ کو کعبہ کی کڑی نہیں سمجھا۔ جو سیاست کرے گا وہ تنقید برداشت کرے۔