Kitabon Ki Dunya
کتابوں کی دنیا
ہمارے ایک استاد محترم فضل ادیب مرحوم اپنے شاگردوں کو مطالعے کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا کرتے تھے "ارے میاں اگر صحافت کے شعبہ میں رہنا بسنا ہے تو مطالعہ کیا کیجئے تاکہ حرف جوڑنے میں شرمندگی نہ ہو"۔ فضل ادیب صاحب کی ایک خوبصورت عادت یہ بھی تھی کہ وہ کسی دن اچانک دریافت کرتے میاں تمہاری جیب میں کتنے روپے ہیں؟
ہم عرض کرتے سات روپے، وہ تین روپے جیب سے نکالتے اور فرماتے فلاں کتاب چار روپے کی ہے ایک روپیہ پلے سے ڈالو اور کتاب خرید لو۔ ہفتہ دس دن بعد دوپہر کے کھانے کی نشست پر اچانک دریافت کرتے، میاں کتاب خریدی، پڑھی یا سگریٹ پی لئے؟ اثبات میں جواب ملتے ہی وہ اس کتاب کے مندرجات پر سوال کرتے۔ سوال و جواب کی ہہ نشست بہت دلچسپ ہوتی۔ استاد محترم یہ جان لیتے کہ نالائق شاگرد نے کتاب خریدی اور پڑھی بھی ہے۔ شاگرد کو فائدہ یہ ہوتا کہ کتاب اور صاحب کتاب کے حوالے سے جو سوالات ذہن میں ہوتے ان کے سامنے رکھ کر جواب پالیتے۔
مطالعے کے شوق کو ہماری آپا سیدہ فیروزہ خاتون نقویؒ نے بھی پروان چڑھایا۔ ان کا انداز تربیت الگ تھا۔ وہ کبھی کسی کتاب کا کوئی حصہ پڑھ کر سناتیں کبھی پڑھنے کو کہتیں پھر پوچھتی صاحبزادے، کیا سمجھ میں آیا۔ نہج البلاغہ، صحیفہ کاملہ، دیوان ابو طالبؑ اور دوسری بہت ساری کتابوں سے شناسائی ان کے ذریعہ ہی ہوئی۔ حیدر آباد دکن سے خاندان کے ہمراہ ہجرت کرکے کراچی آن بسی تھیں اول اول پیر الٰہی بخش کالونی میں مقیم تھیں پھر محمود آباد اٹھ آئیں۔ اردو میں نہج البلاغہ اور دیوان ابو طالبؑ کا اولین ترجمہ ہماری آپا کے نانا مرحوم سید فیض عالم نقوی دکنیؒ نے کیا تھا یہ انیسویں صدی کی آٹھویں دہائی کے وسط کی بات ہے۔
اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں ایک نام نہاد دانشور اور لبرل آیت اللہ نے (یہ صاحب عامر لیاقت کے بھائی عمران لیاقت تھے) مرحوم سید فیض عالم نقوی دکنیؒ کی محنت پر ہاتھ صاف کرکے خود کو مترجم دیوانِ ابو طالبؑ کے طورپر پیش کیا۔ لاہور میں ان سے اس تحریر نویس کا سرقہ بازی پر ملاکھڑا بھی ہوا اور خوب رہا۔ اب موصوف اس دنیا میں نہیں رہے خود حساب دیتے پھریں گے ۔کتابوں سے دوستی ورثے میں بھی ملی اور تربیت میں بھی۔ اس معاملے میں خوش قسمت ہوں دوستوں کی اکثریت مطالعہ کاذوق رکھتی ہے۔ اچھے برے جیسے بھی دن ہوں کتابیں خریدتا پڑھتا ہوں۔ استاد محترم سیدی عالی رضوی مرحوم کہا کرتے تھے "گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا؟ "۔
پڑھتے رہنا عادت بھی ہے اور ضرورت بھی۔ بسا اوقات مہربان دوست کتاب بھجوادیتے ہیں چند دن قبل سئیں نذیر لغاری نے ارشاد امین کے توسط سے اپنا سرائیکی ناول "وساخ" بھجوایا ہے۔ نذیر لغاری سینئر صحافی ہیں ان سے تعلق کے ماہ و سال کی یادیں زندگی کا سرمایہ ہیں تب ہر دو آتش جوان تھے، کچھ کر گزرنے اور بننے کی جدوجہد کے ابتدائی دن تھے۔ کیا شاندار دن تھے۔ روٹی پر کتاب کو ترجیح دی جاتی تھی۔ نذیر لغاری قبل ازیں معروف سیاسی شخصیات کے انٹرویو پر مشتمل کتاب "تاریخ ساز لوگ" عرب دنیا کی نامور شاعرات کے کلام کا اردو ترجمہ "صحرا کا رقص" اور منتخب خطوط پر مشتمل "تاریخی خطوط" کے علاوہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔"وساخ" ان کا سرائیکی ناول ہے۔ نذیرلغاری نے کبھی مادری زبان اور وسیب کو فراموش نہیں کیا۔
پچھلے دنوں محمد عثمان جامعی کا ناول "سرسید سینتالیس سیکٹر انچارج" (نوشابہ کی ڈائری) موصول ہوا۔ موصول اس لئے لکھا کہ طالب علم نے ناول کے لئے آرڈر بک کروایا تھا۔"دوستی بکس" اسلام آباد کے مبشر اکرم نے خریداری کے "تقاضے پورے کرکے" ناول بھجوادیا۔ نوشابہ کی ڈائری کہنے کو ناول ہے لیکن ہے ایک پورے عہد کی داستان اورہجرت کا نوحہ ہے۔ نسلی بنیادوں پر جنم لیتا تعصب اور پھر اس تعصب سے جنم لی نفرت جس نے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ نقصان کس کا ہوا، طالب علم کی رائے میں اردو بولنے والوں کا، ناول پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
اس کا مطالعہ ہمیں سندھ کی اردو بولنے والی آبادی کے مزاج، برہمی، مایوسی اور پھر نسلی بنیادوں پر سیاست کے پھریرے، لہرانے اوراگلے ماہ و سال میں جنم لینے والی رنج و الم سے بھری ان داستانوں سے بھی واقف کراتا ہے جس نے مہاجر ماوں کی کوکھیں اجاڑیں، سہاگنوں کو زندہ درگور کیا۔ محمد عثمان جامعی ان لکھنے والوں میں سے ہیں جو لکھنے پر کمال کی قدرت رکھتے ہیں۔ انہیں پڑھتے ہوئے قاری خود کو تحریر کا کردار سمجھنے لگتا ہے۔ نوشابہ کی ڈائری کو ناقد کے طور پر پڑھنے کی بجائے کردار کے طور پر پڑھنے کی ضرورت ہے تب اپنے اصل سے کٹے میر پور خاص سے کراچی اور سکھر سے حیدر آباد تک آن بسے اردو بولنے والوں کے مسائل سمجھ میں آتے ہیں۔
یہ ناول پڑھ کر ایک بات باردیگر سمجھ میں آجاتی ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اور یہ بھی کہ ایک ہی جگہ بسنے والوں میں نفرت کے بیج کس نے بوئے۔ ہمارے بہت سارے دوست اس صورتحال کا ذمہ دار جنرل ضیاء الحق کو ٹھہراتے ہیں لیکن میری رائے اس کے ذمہ دار لیاقت علی خان اور پھر پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان ہیں۔ ایوب خان کے صدارتی الیکشن میں ان کے صاحبزادے کیپٹن (ر) گوہر ایوب خان نے لیاقت آباد کراچی میں جو خون کی ہولی کھیلی اسے نظرانداز کرنے کا مطلب ایوبی آمریت کی درندگی کی پردہ پوشی ہوگا۔
"نوشابہ کی ڈائری" کے عنوان سے لکھا گیا 180 صفحات کا ناول گو اپنی جگہ ایک مکمل کہانی ہے لیکن کہانی کے بیچوں بیچ کئی اور کہانیاں بھی ہیں، طالب علم نے گزشتہ دنوں ہی چند اور کتب مطالعے کے لئے منگوائی ہیں ان میں افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر سید ابرار حسین کی تصنیف "افغانستان ملا عمر سے اشرف غنی تک" اور راشد اشرف کی مرتب کردہ "ماضی کے جھروکوں سے" بھی شامل ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہمارے دوست حافظ صفوان نے بھی ایک کتاب "سفرزندگی" عنایت کی تھی۔ یہ متحدہ ہندوستان کے ایک پرعزم کردار بابو غلام محمد مظفر پوری مرحوم کی داستان حیات ہے۔ اسے ڈاکٹر ساجد علی نے کتابی صورت دی ہے۔
کتابیں اور بھی ہیں پڑھ لیں پھر حاصل مطالعہ میں سے آپ کا حصہ پیش کریں گے۔ یہاں ایک محبت بھرا شکوہ سن لیجئے۔
دو نوجوان طالب علم پچھلے دنوں اس تحریر نویس سے ملاقات کے لئے تشریف لائے۔ اسد جوتہ اورعزیزم امجد مہدی۔ دونوں کا تعلق تقسیم شدہ سرائیکی وسیب سے ہے۔ اسد جوتہ لیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور امجد مہدی دیرہ اسماعیل خان سے۔ خاصے ذہین طالب علم ہیں دونوں قدامت پسندی کے منکر اور ترقی پسند شعور کے حامل ہیں اڑھائی دو گھنٹے کی نشست کے بعد یہ رخصت ہوئے۔ اسد جوتہ نے فیس بک پوسٹ میں لکھا "کتابوں کی صرف زیارت پر ہی اکتفا کیا گیا"۔ اس پوسٹ پر دلچسپ کمنٹس کئے ان کے دوستوں نے تب مجھے لکھنا پڑا "عزیزواگر ہر صاحب ملاقات کو تحفتاً کتاب پیش کرتا رہوں تو میں خود خالی ریکوں کے درمیان ہی جلوہ افروز ہوا کروں جیسے ڈربے میں مرغا جو اپنے کٹنے کا انتظار کررہا ہو"۔
خیر یہ جملہ معترضہ ہے۔ ذاتی کتب میں سے 2کتابیں امید ہے دسمبر کے آخر یا جنوری کے شروع میں دوبارہ شائع ہوں گی پھر جو ہوگا اللہ مالک ہے۔ فی الوقت یہ ہے کہ کتابیں خاصی مہنگی ہوتی جارہی ہیں۔ تقریباً 300صفحات کی کتاب کی قیمت 900روپے ہوتی ہے یعنی 3روپے صفحہ کے حساب سے۔ پھر بھی اچھی بات ہے کتابیں شائع ہوتی ہیں لوگ خریدتے پڑھتے ہیں۔
مطالعہ محض ذوق اور ضرورت کی تسکین نہیں آگہی میں معاون ہوتا ہے۔