Kitab Dosti Se Itmenan e Qalb Tak
کتاب دوستی سے اطمینان قلب تک
ایک کالم میں کہیں یہ عرض کرچکا کہ کتاب دوستی کے آغاز پر شورش کاشمیری کا سفر نامہ حج "شب جائے کہ من بودم" اور میکسم گورکی کا ناول "ماں" وہ دو کتابیں ہیں جو پہلی بار خریدیں ایک آدھ کتاب اور بھی تھی اس وقت نام ذہن میں نہیں آرہا۔
ڈائجسٹ پڑھنے کا آغاز دہم میں کیا اس سے قبل بچوں کے لئے شائع ہونے والے رسالے اور "جنگ اور حریت"مطالعے میں رہتے تھے۔ مرحومہ آپا اماں سیدہ فیروزہ خاتون نقوی کی لائبریری پر بیٹھنے کے عرصہ میں ابن صفی کی عمران سیریز سے تعارف ہوا تھا۔ برسوں بعد ابن صفی نے "دھماکہ" کے نام سے ایک فلم کی کہانی بھی لکھی تھی افسوس کہ فلم ان کے ناولوں کی طرح کامیاب نہ ہوسکی۔
موسیقی شروع سے ہی اچھی لگتی ہے۔ آج بھی وقت ملے تو جگجیت سنگھ اور چترا کے علاوہ غلام علی، بھپندرا متالی اور چند دوسرے گلوکاروں کے ساتھ استاد نصرت فتح علی خان کو سنتا ہوں۔ بھارتی چینلز پر نوجوانوں اور بچوں کے لئے ہونے والے گائیکی کے مقابلہ والے پروگراموں کے لئے خاص پسندیدگی ہے۔ قلم مزدوری سے جو وقت بچ رہتاہے اس کا زیادہ حصہ اب بھی لائبریری میں بسر کرنا پسند کرتا ہوں۔
کرائے کے گھر میں رہنے کا یہ دوسرا تجربہ ہے۔ پہلے گھر میں ڈرائنگ روم خاصا بڑا تھا اس میں لگی الماریوں اور اپنے ریکوں میں کتابیں تقریباً رکھ لی تھیں البتہ انہیں موضوعات کے حساب سے ترتیب دینے میں پانچ چھ ماہ لگ گئے۔ اس نئے گھر میں ستمبر میں منتقل ہوا۔ اپر پورشن کے اوپر بھی ایک کمرہ ہے یہی میرے حصے میں آیا۔
یہاں ڈرائنگ روم نہیں ہے سو اب یہی بالائی منزل والا کمرہ ہمارے لکھنے پڑھنے کے ساتھ گاہے بگاہے تشریف لاتے احباب کی نشستوں کے لئے بھی ہے۔ دوستوں سے مذاق کرتا رہتا ہوں کہ "اللہ سائیں کے کچھ قریب ہوگیا ہوں"۔
کسی زمانے میں فلمیں بہت دیکھتا تھا جب سے کتابیں پڑھنے کا چسکہ لگا سینما جانا چھوڑدیا۔ کتابیں خریدنا شروع کردیں۔ کتابوں کی خریداری اہلیہ پر بہت گراں گزرتی ہے۔ حال ہی میں جب ہمیں مکان کی تبدیلی کا مرحلہ درپیش تھا تو دن میں دو تین مرتبہ مشورہ ملتا، "کتابوں کو فروخت کیوں نہیں کردیتے آپ"۔ کہاں لئے پھریں گے ہم انہیں۔
ایک دن کہہ دیا، آپ مجھے بھی تو لئے پھر رہی ہیں کتابوں کو بھی برداشت کرلیجئے۔ اس مرحلہ پر بیٹی نے مداخلت کی اور معاملہ رفع دفع ہوگیا۔
کبھی کبھی مجھے مرحوم نصراللہ خان سیال سمیت وہ دوست بہت یاد آتے ہیں جن کے سانحہ ارتحال کےبعد ان کے اہلخانہ نے کباڑیئے بلاکر لائبریریاں ردی کے بھائو فروخت کردیں۔ ان لمحوں میں پتہ نہیں آنکھیں کیوں بھیگ جاتی ہیں۔ وہ کتاب دوست بہت خوش نصیب ہیں جن کے بچوں میں علم دوستی کی شمع روشن رہی اور ہے ان کے بچوں نے کتابوں کی حفاظت جی جان سے کی۔
کتاب دوستی کے سفر کو نصف صدی ہوگئی درمیانی ماہ و سال میں بہت ساری کتابیں ضائع بھی ہوئیں۔ کچھ مہربانوں کی وجہ سے جو لے گئے اور واپسی کو غیر ضروری سمجھا۔ دو ایک بار جب سرکار نے مہمان بنایا تو کتابیں پولیس والے لے گئے حالانکہ ان کے لئے ردی ہی تھیں وہ۔
اب بھی کتابیں خریدنے کو جی بہت کرتا ہے خریدتا تو ہوں لیکن اب ہر کتاب خرید نہیں پاتا، مہنگائی اور دوسرے مسائل سے میں بھی دوسروں لوگوں کی طرح ہی متاثر ہوا ہوں۔ اسی لئے اکثر ادویات خریدنے میں بھی "ناغہ" کرلیتا ہوں۔
معاف کیجئے گا آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیا باتیں چھیڑدیں حالانکہ چٹ پٹی خبریں اور موضوعات کا انبار لگا ہوا ہے۔ یقیناً دلچسپ خبریں اور موضوعات ہیں ایک دو کیا کالموں کی پوری سیریز لکھی جاسکتی ہے۔ کچھ "خبریں" بھی ہیں لیکن انہیں کیا لکھنا اور تجزیہ کرنا۔
جو فروخت ہوتا ہے اس مال کا خوانچہ لگانے کو جی کبھی آمادہ نہیں ہوا۔ دادوتحسین کے لئے لکھنے سے بہتر ہے آدمی اپنے اطمینان کے لئے لکھے۔ میرے لئے تو اطمینان ہی اصل ہے۔ ہم کتابوں کی باتیں کررہے تھے۔
شوکت صدیقی صاحب کا ناول جانگلوس سب رنگ ڈائجسٹ میں قسط وار پڑھنا شروع کیا تھا۔ بعدازاں یہ تین جلدوں میں شائع ہوا۔ میں اسے سات آٹھ بار پڑھ چکا۔ خدا کی بستی بھی پڑھا یقیناً وہ ایک بڑا ناول ہے لیکن جانگلوس کے لئے زیادہ پسندیدگی کی وجہ یہی ہے کہ لکھنے والا لکھنو کے خمیر سے گندھا ہوا تھا اور کہاں ساہیوال سے راجن پور اور اُدھر میانوالی بھکر کی ان درمیانی بستیوں شہروں کی دنیا، زبان، تہذیب، رویے، کلچر، عادات و اطوار۔
مجھ طالب علم کو آج بھی اسے پڑھ کر حیرانی ہوتی ہے۔ اسلوب تو ہے ہی موضوع اور پھر اسے نبھانا یہ زیادہ اہم ہے۔
ہماری جوانی کے دنوں میں خلیل جبران خلیل نئی نسل کو محبوب تھے۔ ہم سے پہلی دو نسلوں اور بعد کی نسلوں کو بھی محبوب ہوئے۔ 1970ء کی دہائی میں تو حرف جوڑنے کی اچھی بری کاریگری رکھنے والا ہر نوجوان خلیل جبران کے انداز میں لکھنے کی سعی کرتا تھا۔ ہمرازوں اور دوستوں کے علاوہ پیاروں کو خطوط اس انداز میں لکھے جاتے تھے۔
بعد کے برسوں میں مجھ طالب علم کو خلیل جبران پر کام کرنے کی سعادت بھی ملی۔ اپنے اس کام پر آخری سانس تک خوش رہوں گا۔ یہ خوشی اس بات کی ہے کہ "کلیات خلیل جبران" میں ان کی شاید ہی کوئی تحریر شامل کرنے سے رہ گئی ہو ورنہ انگریزی یا عربی کی وہ تحریریں جن کا قبل ازیں ترجمہ نہیں ہوا تھا ترجمہ کرواکر کلیات کا حصہ بنائیں۔
بعدازاں تو بھیڑچال چلی ایسی کہ طالب علم کی ہی مرتب کردہ کلیات کو آگے پیچھے کرکے کئی اداروں نے شائع کیا۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے مجھے سید علی عباس جلالپوری اور سید سبط حسن بہت پسند ہیں۔ جلالپوری صاحب کی زیارت نہیں ہوسکی البتہ سید سبط حسن کی قدم بوسی اور ان کی مجلس میں شرکت کی سعادتیں اب بھی سرمایہ حیات سمجھتا ہوں۔
اکثر نوجوان دوست اور طلباء پوچھتے ہیں شاہ جی آپ سب سے زیادہ کس موضوع کی کتب پڑھتے ہیں۔ ان سے عرض کرتا رہتا ہوں جو کتاب پڑھنے کو مل جائے وہ پڑھ لیتا ہوں۔ سوانح عمریاں، تاریخ، تقابل ادیان اور سیاست یہ پسندیدہ موضوعات ہیں۔ شاعری بھری جوانی میں بہت پڑھی اب گزرے ماہ و سال والا شوق نہیں رہا پھر بھی جب کوئی دوست اپنا مجموعہ کلام بھجوادے تو پڑھتا ہوں اور حسب توفیق اس پر عرض بھی کرتا ہوں۔
دو اڑھائی برس ہوتے ہیں جب ایک طالب علم نے سوال کیا، شاہ جی زیادہ کتابیں خریدتے ہیں یا دوست بھجواتے ہیں؟ عرض کیا اٹھانویں فیصد کتب خود خریدتا ہوں دو فیصد دوست بھی بھجوادیتے ہیں۔
کتاب خرید کر پڑھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کتاب کے بارے میں آزادانہ رائے دے سکتے ہیں حالانکہ اس آزاد روی کا نقصان بھی ہے۔ آپ جس کتاب کا پوسٹ مارٹم کریں گے اس کا مصنف اور ان کا حلقہ احباب آپ کو رگیدنے میں کسر نہیں چھوڑتا۔
پچھلی دو دہائیوں میں اس طرح کے بہت تجربے بلکہ تلخ تجربے ہوئے۔ ایک دو مصنف اور ان کے محبین تو اب بھی موقع ملتے ہی ڈانگ سوٹا شروع کردیتے ہیں۔ مسئلہ یہی ہے کہ ہم بھی (خصوصاً لکھنے والے) اپنے لکھے کو کامل و افضل سمجھتے ہیں۔ بعض کو تو یہ دعویٰ بھی ہوتاہے کہ فلاں صاحب نے ڈنڈی ماری حوالوں کے طور پر عبارتوں کے درمیانی جملے اٹھائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود انہوں نے بھی ویسی ہی فنکاری دیکھائی ہوتی ہے۔ یہی لوگ زیادہ ناراض ہوتے ہیں جبکہ طالب علم کتاب خریدنے پر اٹھنے والی رقم وصول کررہا ہوتا ہے۔
دیگر موضوعات کے ساتھ مجھے صوفی شعراء کو پڑھنا نہ صرف اچھا لگتا ہے بلکہ جب میں ان بزرگوں کو پڑھتا ہوں تو ہر بار ان کے کلام کے نئے نئے معنی عیاں ہوتے ہیں دوسرا یہ کہ ذہن و دل سے غبار چھٹ جاتا ہے۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب مختلف موضوعات پڑھتے پڑھتے اکتاہٹ ہونے لگے اور غم دنیا جان کو آجائیں تو بزرگ صوفی شعراء کے کلاموں میں پناہ حاصل کرلیتا ہوں۔
حلاجؒ سے سرمد اور بلھے شاہؒ سے سچل سرمستؒ یا پھر شاہ حسینؒ سے شاہ لطیف بھٹائیؒ تک اور دوسرے صوفی شعراء مضبوط پناہ گاہیں ہیں انہیں پڑھتے ہوئے ہمیشہ ایسا لگتا ہے کہ ان سے گفتگو ہورہی ہے۔ طالب علم سوال کرتا جاتاہے وہ جواب عنایت کرتے جاتے ہیں۔
حسب حال گزرتے ہوئے شب و روز میں اگر دوست ہاتھ چڑھ جائیں تو ان سے تبادلہ خیال کرلیتا ہوں۔ صاحبان مطالعہ کی زیارت ہو تو مکالمے کی مجلس جم جاتی ہے۔ زندگی اسی ڈھب سے بے ڈھب گزرگئی۔
چھ دہائیوں سے چار برس اوپر ہوگئے سفر حیات میں قدم قدم چلتے اور کتنا سفر باقی ہے یہ تو کوئی نہیں جانتا پھر اس طالب علم کو کیونکر علم ہوسکتا ہے۔ کچھ کام ادھورے ہیں وہ مکمل کرنے کی خواہش ہے اس خواہش کی تکمیل کے لئے جینے کی آرزو ہے۔
اس کے سوا کوئی آرزو نہیں ہاں یہ خیال کچوکے لگاتا رہتاہے کہ سفر تمام ہونے کے بعد کیا ہوگا۔ پھر خود کو تسلی دیتا ہوں ہم کون سا ناگزیر ہیں۔ جواب ہورہا ہے ویسا ہی بعد میں ہوگا ہوتا رہے ہماری بلا سے۔
بیٹیوں، دوستوں اور بہن بھائیوں کو ہمیں یاد کر کے ندامت نہیں ہوگی یہی اطمینان اصل سرمایہ ہے۔