Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Kahani Ka Ant Baqi Hai

Kahani Ka Ant Baqi Hai

کہانی کا انت "باقی" ہے

اللہ ہی جانے کہ " وہ "خوش اور مطمئن کیوں نہیں ہوتے۔ دو لخت ہوئے پاکستان کا اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو ہنگامی طور پر بیرون ملک سے بُلا کر اس لئے دیا گیا کہ مسلح افواج کے جونیئر افسران بغاوت پر تلے ہوئے تھے۔ ان افسروں نے جی ایچ کیو کے ہال میں کمانڈر انچیف یحییٰ خان اور جنرل ملک کی موجودگی میں جونعرے بازی کی اور رویہ اپنایا اس سے طالع آزماؤں کو جان کے لالے پڑ گئے۔بھٹو بیرون ملک مقیم تھے انہیں بلوایا گیا اور اقتدار دیا گیا۔ انہوں نے ملک کی تعمیر نوکی۔ اپنی پارٹی کے ترقی پسند دھڑے کی مخالفت کے باوجود فوج کو ضرورت سے زیادہ فنڈز دئیے۔

1973ء کا دستور تو بنایا ہی ایٹمی پروگرام کی بنیاد بھی رکھی(یہ بحث الگ ہے کہ اس کی ضرورت تھی یا نہیں) لیکن جب "اُن" کا دل بھر گیا اور عالمی آقا بھی بھٹو سے نجات چاہتا تھا تو ان کے اقتدار کا دھڑن تختہ کردیا گیا پھر ایک دن نظریہ ضرورت نے بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا۔ جنرل ضیاء گیارہ سال سے ایک ماہ اور بارہ دن اوپر اقتدار پر قابض رہے ایک سی ون تھرٹی اور درجن بھر افراد کی "بلی" لے کر دنیا سے رخصت ہوئے۔

ان کے گیارہ سالہ دور اقتدار میں اسلام کے نام پر نفرتوں کا جو سودا بیچا گیا اس کا خمیازہ 33 سال بعد بھی ہم بھگت رہے ہیں۔ 1988ء کے عام انتخاب میں پیپلزپارٹی کو دیوار سے لگانے اور پاکستان کا "اسلامی تشخص" بچانے کے لئے اسلامی جمہوری اتحاد کا ٹیسٹ ٹیوب بے بی تخلیق ہوا۔ پیپلزپارٹی پھر بھی سنگل لارجسٹ پارٹی کے طور پر انتخابات جیت گئی لیکن اقتدار منتقل کرنے میں ٹال مٹول ہوئی۔

جنرل حمید گل نے ولی باغ میں خان عبدالولی خان سے ملاقات کی نصف گھنٹے کا پُر مغز خطاب سننے کے بعد خان عبدالولی خان نے کہا "حمید گل صاحب 45سال کے سکہ بند غدار کو زیب نہیں دیتا کہ جمہور کے فیصلے کے خلاف آپ کے ساتھ کھڑا ہوکرحب الوطنی کی سند حاصل کرے۔ پیپلزپارٹی کو اقتدار دیجئے کہ یہی عوام کا فیصلہ ہے"۔

فاتح جلال آباد ولی باغ سے نامراد لوٹا۔ سازشیں جاری رہیں اور پھر ایک سمجھوتے کے تحت پیپلزپارٹی کو اقتدار مل گیا۔ وزیر خارجہ مالکوں کا تھا۔ خزانے کا مشیر بھی۔ پیپلزپارٹی نے سمجھوتے کے مطابق غلام اسحٰق خان کو صدر منتخب کروایا۔ اسحٰق خان والے صدارتی انتخابات سے قبل خان عبدالوالی خان اور چند دیگر بزرگوں نے محترمہ بے نظیر بھٹوکو مشورہ دیا کہ "مالکان"سے سمجھوتہ توڑ دیں۔ محترمہ نے کہا۔ خان صاحب وعدہ خلافی نہیں کروں گی چاہے جو بھی قیمت چکانا پڑے۔

18ماہ بعد قیمت چکائی اور بدترین الزامات کے تحت ان کی حکومت برطرف کردی گئی۔ حمید گل مافیا پوری ریاستی قوت سے 1990ء میں نوازشریف کو اقتدار میں لے آیا۔ اپنے تخلیق کردہ نوازشریف سے بھی نہ نبھی صدر غلام اسحٰق خان نے ان کی حکومت برطرف کردی اور پھر سپریم کورٹ نے ان کی حکومت بحال کردی۔ پھر کاکڑ فارمولہ اسحٰق اور نوازشریف دونوں کی رخصتی کا ذریعہ بن گیا۔

1993ء میں پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی اس دور اقتدار میں بے نظیربھٹو نے اپنا بھائی مرتضیٰ بھٹو بھی گنوایا اور اپنے ہی منتخب کروائے صدر مملکت فاروق لغاری کے ہاتھوں پرانے الزامات کے تحت اقتدار بھی۔ 1997ء میں ایک بار پھر نوازشریف اقتدار میں آئے۔ جنرل کرامت جہانگیر۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کرانے کی سازش میں شریک صدر فاروق لغاری کا گھونٹ بھرا۔

اتفاق گروپ کے ملازم جسٹس(ر)رفیق تارڑ "ابا جی اینڈ کمپنی" کی خواہش پر صدر مملکت بنے۔ مشرف کو آرمی چیف بنایا تو ابا جی نے اسے چوتھا بیٹا بنالیا۔ چوتھا بیٹا ابا جی کے پہلے بیٹے کے اقتدار کو کھاگیا۔ مشرف نے اپنی لگائی پنیری اور سپریم کورٹ سے ملے دستوری ترامیم کے حق اور تحفظ پر اقتدار خوب نبھایا اور کمایا بھی۔

دسمبر 2007ء میں بے نظیر بھٹو قتل کردی گئیں 2008ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو اقتدار ملانوازشریف پہلے پیپلزپارٹی کے ساتھ پھر جنرل کیانی کے گروپ میں چلے گئے۔ 5سالوں کے دوران خوب تماشے ہوئے۔

2013ء میں اقتدار نوازشریف کو عطا ہوا۔ نمدہ کسنے کا پروگرام ساتھ ساتھ چلا سی پیک کا انتظام سول حکومت نے "خوشی" کے ساتھ فوج کو دے دیا۔ مگر نوازشریف پھر بھی پانامہ کے کیس میں اقامہ پر نااہل ہوئے اگلے کیس میں سزا یافتہ بھی جیل کاٹی پھر ایک انتظام کے تحت لندن پہنچے اور اپنے فلیٹس میں مقیم ہیں۔ "وہ لڑنا چاہتے" تھے۔ شہبازشریف نے "لڑنے نہیں دیا" زرداری مقدمات بھگت رہےہیں ہمارے شیرانِ سول سپر میسی کا خیال ہے زرداری کرپٹ آدمی ہے اس نے اسٹیبلشمنٹ سے " ڈیل " کرلی ہے

لیکن فقیر راحموں کا کہنا ہے کہ زرداری نوازشریف بننے سے اس لئے بچ گئے تھے کہ انہوں نے چند فائلیں محفوظ مقام پر پہنچادی تھیں۔ لیکن یہ کہانی کا انت نہیں ہے۔"کہانی" یہ ہے کہ انہوں نے جو انتظامات کیئے اب وہ اُس سے بھی مطمئن نہیں "اُن" کا کسی سے گزارا نہیں۔ "وہ" کسی پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ کڑوا سچ یہ کہ وہ خود بھی کسی کے نہیں سوائے اپنی "صفات" کے۔

Check Also

Qasoor To Hamara Hai?

By Javed Ayaz Khan