Hamas Israel Jang
حماس اسرائیل جنگ
پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ کے طور پر مشہور ہمارے انقلابی جنہیں کبھی اپنی فیڈریشن کی قومیتوں کے حقوق کی پامالی پر لب کشائی کی توفیق نہیں ہوئی گزشتہ صبح سے پھولے نہیں سمارہے۔ انقلابیوں کا ایران نواز حصہ تو حماس کی فتح مندی اور اسرائیل کی نابودی کے گھڑے گھڑائے اقوال آگے بڑھارہا ہے۔ لائی لگ قوم معاف کیجئے گا قوم نہیں ہجوم ہے۔
آگے بڑھنے سے قبل ہمیں یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ کیا حماس فلسطینی جدوجہد آزادی کی کامل نمائندہ ہے؟ ایسا ہے تو پھر فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کون ہیں کیا وہ نائجیریا سے آئے ہیں؟ محمود عباس یاسر عرفات کی الفتح کے نمائندے ہیں۔ الفتح نے اپنے ہم خیال گروپوں کے ساتھ مل کر کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو سمجھوتوں کو تسلیم کیا تھا ان سمجھوتوں کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی معرض وجود میں آئی تھی۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ اسرائیل نے کیمپ ڈیوڈ اور اوسلوں سمجھوتوں سے مسلسل انحراف کیا۔ یہ انحراف کی پالیسی بھی ان بڑی طاقتوں کی پشت پناہی کی وجہ سے ہے جو ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ کھڑی رہیں اور جمعہ کی صبح حماس کے اسرائیل پر عام حملے کےبعد بھی ان طاقتوں نے ایک بار پھر اسرائیل کے ساتھ کھڑا رہنے کا اعلان کیا ہے۔
فی الوقت دنیا کا سیاسی اور معاشی توازن ان کے قبضہ میں ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اگر سیاسی، معاشی اور عسکری توازن میں کسی کا پلڑا بھاری ہو تو اسے حقیقت حال کی طرف متوجہ نہ کیاجائے۔
ہفتہ کی صبح حماس نے اسرائیل پر پانچ ہزار راکٹ برسانے کا دعویٰ کیا۔ جنوبی اسرائیل میں حماس کو زمینی اور فضائی حملوں میں کامیابی ملی۔ ابتداً اسرائیل نے تین اہم فوجی بیس کیمپ اور ایک ایئرپورٹ خالی کردیا۔
حماس کے ذرائع 300 اسرائیلیوں ان میں فوجی، پولیس والے اور عام شہری شامل ہیں مارنے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ جواباً اسرائیل نے غزہ پر ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب جو طوفانی بمباری کی اس میں 200 فلسطینی جاں بحق اور 1800 زخمی ہوئے۔
حماس کے حملوں اور اسرائیلی بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ حماس کے حملے کی ابتدائی ویڈیوز میں ایک ہلاک ہونے والی خاتون بارے دعویٰ کیا گیا کہ وہ اسرائیلی فوجی ہے لیکن اب یہ دعویٰ منہ کے بل آ گرا ہے۔ مرنے والی خاتون جرمنی کی شہری Shani Louk(شانی لُک) اس کا نام ہے اور وہ اسرائیل میں منعقد ہونے والے کنسرٹ "فیسٹیول فار پیس" میں شرکت کے لئے آئی تھی۔ اس خاتون کی نعش کا جلوس فتح نکالے جانے کی تائید میں ہمارے ہاں کے ذہنی مریض اور ایک خاص فہم کے زود رنج انقلابی پیش پیش رہے۔
دنیا بھر میں البتہ خاتون کی نیم برہنہ نعش کے ساتھ جلوس فتح نکالنے کو مثبت طور پر نہیں لیا گیا۔ البتہ اسرائیلی فوج کے حماس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے میجر جنرل نمرود کا غزہ میں جلوس نکالے جانے پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔
حیران کن امر یہ ہے کہ لوگ یہ بھول گئے کہ دولت اسلامیہ عراق والشام نامی دہشت گرد تنظیم کے علاوہ بشارالاسد کے خلاف عسکری مزاحمت کرنے والی النصرہ فرنٹ کے کارکنوں کو ابتدائی تربیتی سہولتیں اور عسکری وسائل کس کس نے فراہم کئے۔ حماس کی اعلیٰ قیادت لگ بھگ 15 برس تک شام میں مقیم رہی بالخصوص اس کے سیاسی شعبہ کے سربراہ خالد مشعل دمشق سے ہی دنیا بھر سے رابطے میں رہتے تھے۔
بشارالاسد کے خلاف النصرہ فرنٹ اور جہاد اسلامی الشام کی کارروائیوں میں حماس النصرہ فرنٹ اور جہاد اسلامی الشام کی پشت بان رہی۔
ایک رائے یہ ہے کہ اسرائیل روزانہ کی بنیاد پر فلسطینیوں کی نسل کشی کرتاہے حماس کا حملہ بلاجواز نہیں۔ ان کے بقول ذلت سے مرنے کی بجائے لڑ کر مرنے کا راستہ زیادہ بہتر ہے۔ پاکستان سمیت اسلامی دنیا کے اکثر ممالک کے جذباتی سوشل میڈیا مجاہدین اسی نکتہ پر جہاد اٹھارہے ہیں۔
ادھر فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے اسرائیلی حملے کی تو مذمت کی ہے لیکن الفتح کی قیادت نے حماس کی حمایت کا اعلان نہیں کیا۔ جن لوگوں کا خیال ہے کہ فلسطینی اتھارٹی سامراجی پٹھو اور غزہ پر بالادستی رکھنے والی حماس فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کی حقیقی شناخت ہے وہ تھوڑی سی ہمت سے کام لیں اپنے اپنے ملکوں کی حکومتوں سے کہیں کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کی بجائے حماس کو فلسطینی عوام کا نمائندہ تسلیم کرلیں۔
مسلم دنیا میں پچھتر سالوں سے فلسطینی باشندوں کے لئے ہمدردی کا جذبہ موجود ہے۔ یاسر عرفات مرحوم کی الفتح میں 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں دنیا بھر کے مسلمان نوجوان شامل ہوکر اسرائیل کے خلاف داد شجاعت دیتے رہے۔ ہمارے معروف و محبوب شاعر فیض احمد فیض فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لئے شائع ہونے والے ایک جریدے کے ایڈیٹر رہے۔ یہ جریدہ بیروت سے شائع ہوتا تھا۔
ایک دوسری رائے بھی ہے وہ یہ کہ حماس نے ایک ایسے وقت میں اسرائیل پر حملہ کیا جب اسرائیلی وفد اپنی تاریخ میں پہلی بار سعودی عرب کے سرکاری دورہ پر تھا۔
عالمی سیاست و خارجہ پالیسیوں کے ماہرین یہ کہہ رہے تھے کہ ایک نیا کیمپ ڈیوڈ سمجھوتہ ہونے جارہا ہے۔ ماضی کے کیمپ ڈیوڈ اور اوسلوں سمجھوتوں میں جو کردار مصر کا تھا اب مجوزہ کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے میں وہ مقام سعودی عرب کو حاصل ہونا تھا۔
حماس کے حملے سے شروع ہونے والی حماس اسرائیل جنگ سے نئے کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے کی راہیں مسدود ہوگئیں۔ بعض حلقے اس جنگ کے پیچھے مشرق وسطیٰ میں ایرانی مفادات کو بھی تلاش کررہے ہیں غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران دنیا بھر کے اہل تشیع سے القدس کی آزادی کی تحریک کو ایک مذہبی فریضے کے طور پر منواچکا ہے۔
بالفرض اگر ایرانی مفادات کو تلاش کرنے کی مہم "اثبات" میں نتیجہ دیتی ہے تو پھر یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ایران محض اپنے مفادات کو دیکھ رہا ہے یا وہ شام کی طرح اب پورے مشرق وسطیٰ میں اپنے دو بڑے اتحادیوں روس اور چین کے مفادات کا امین بھی ہے؟
یہاں ایک ضمنی سوال یہ ہوگا کہ کیا حماس اسرائیل جنگ یوکرائن کے حوالے سے امریکہ برطانیہ اور یورپی یونین کی پالیسی کا جواب ہے؟
سوال اندر سوال پوشیدہ ہیں۔ یہ درست ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس کی برتری کا ہوا پاش پاش ہوا۔ پہلی بار اسرائیل کو مختصر وقت میں فلسطینیوں کے ہاتھوں بھاری نقصان اٹھانا پڑا لیکن گزشتہ سے پیوستہ شب سے غزہ پر جاری اسرائیلی بمباری کی تباہ کاریاں اور پھر اسرائیلی وزیراعظم کی طرف سے 12 گھنٹے میں غزہ کی پٹی سے انسانی آبادی نکال کر اسے خالی کرنے کا نوٹس کیا حماس تنہا اس صورتحال سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ کیا مصر پچھلی حماس اسرائیلی جنگ کے دنوں کی طرح غزہ مصر سرحد بند تو نہیں کردے گا؟
کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے کے حساب سے مصر پابند ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف فلسطینی مزاحمت کا نہ صرف ساتھ نہ دے بلکہ اپنی سرحدوں سے غزہ کی حدود میں ایسی اشیاء بھی نہ جانے دے جس سے غزہ کے محصورین کو ریلیف مل سکے۔
قومی آزادی کی مزاحمتی تحریک سے لوگوں کی ہمدردی فطری امر ہے۔ باردیگر عرض کردوں کہ حماس فلسطینی قومی مزاحمت کا ایک دھڑا ہے مکمل قومی مزاحمت نہیں۔ حماس کے پروگرام سے خود فلسطینی اتھارٹی اتفاق نہیں کرتی کیا اس عدم اتفاق سے فلسطین سے باہر کے جذباتی انقلابی فتوئوں کی چاند ماری کا حق رکھتے ہیں؟
یہ بجا ہے کہ سعودی عرب اور قطر نے حماس کے اقدام کو اسرائیلی کارروائیوں کا جواب قرار دیا ہے۔ ایران، شام، یمن اور افغان عبوری حکومت نے حماس کو مبارکباد دی ہے۔ مگر کیا یہ بیانات اسرائیل کی جوابی جارحیت کا راستہ بند کرنے میں معاون ثابت ہوں گے؟
معاف کیجئے گا مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہودی بھی یروشلم میں 75 برس قبل آکر آباد نہیں ہوئے۔ ان کی مصر سے ملحقہ فلسطینی علاقوں (ان میں اکثر قدیم تاریخ میں مصر کا حصہ تھے) آبادکاری کی تاریخ تین سے ساڑھے تین ہزار سال یا اس سے کچھ زیادہ پرانی ہے۔
اسی طرح بزور قوت نکالے جانے اور دانیالؑ نبی سمیت قیدی بناکر بابل لے جانے وغیرہ کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے۔
آج کی ضرورت یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے حق مملکت کو تسلیم کرے اور فلسطینی بھی اسرائیلی ریاست کو تسلیم کریں اس کے سوا پائیدار اور دیرپا امن کا قیام ممکن نہیں۔