Amri Sain Ke Shehar Mein
امڑی سینڑ کے شہر میں
امڑی سینڑ کے شہر (ملتان) میں پہلا پڑاو عزیزم سید سجاول عباس نقوی کا دفتر "اے کے مارکیٹنگ" تھا۔ عزیزم سجاول نقوی اُن دنوں اپنے والدین کی قد بوسی کے لئے کوٹ مٹھن گئے ہوئے تھے البتہ سرائیکی وسیب کے محنت کشوں کے رہنما اور پاکستان ورکرز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری لیبر کامریڈ دلاور عباس صدیقی مسافروں کے منتظر تھے۔
ہمارے دوست کامریڈ دلاور عباس صدیقی کی والدہ محترمہ مہینہ بھر قبل سفر حیات طے کرکے خالق حقیقی سے ملاقات کے لئے رخصت ہوچکیں۔ ان کے سانحہ ارتحال پر بوجہ علالت ملتان حاضری نہیں ہوسکی تھی۔ وسیب یاترا کے لئے روانگی کے وقت واپسی کے سفر میں امڑی سینڑ کے شہر حاضری لازم سمجھی اس حاضری کے بغیر تو وسیب یاترا ہی نامکمل رہتی۔
کامریڈ دلاور عباس صدیقی سرائیکی وسیب اور پاکستان کے محنت کشوں کی پرعزم جدوجہد کا روشن کردار ہیں۔ حال ہی میں الائیڈ بینک میں مدت ملازمت پوری کرچکنے پر ریٹائر ہوئے ہیں۔ ان کی اپنی والدہ ماجدہ سے محبت و الفت مثالی رہی۔ ہر ماں کو اپنی اولاد اور اولاد کو اپنی ماں کُل جہان سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔
کامریڈ روایتی ملتانیوں کی طرح مادر گرامی کی ذات کو اپنا کعبہ قبلہ سمجھتے اور خدمت کو عبادت جان کر جیئے۔ امڑی سینڑ سے محروم ہر شخص اس دوست اور عزیز کے دکھ کو بخوبی سمجھ سکتا ہے جو اس سانحہ سے تازہ دوچار ہوا ہو۔
فقیر راحموں کے بقول "مائیں تو اولاد کے لئے ہوتی ہی آٹھواں آسمان ہیں"۔
ان سے والدہ محترمہ کے سانحہ ارتحال پر تعزیت کی اور کچھ حال احوال ہوا۔ ملتانی سنگت کے فعال رکن استاد منیرالحسینی ابھی معلمی کے فرائض ادا کرکے واپس نہیں آئے تھے سو ان کی زیارت سے محروم ہی رہے۔
ملتانی منڈلی کے مستقل عزیزی سئیں طارق شیراز بھی کامریڈ سے تعزیت کے لئے آگئے۔ بعد ازاں ان کی قیادت میں دو عدد مسافروں (تحریر نویس اور عابد راو) کا قافلہ ملتانی منڈلی کے تاحیات قائد ملک خاور شفقت حسنین بھٹہ کے دفتر کی جانب رواں دواں ہوا جہاں میزبان کے ہمراہ وکیل بابو ملک ساجد رضا تھہیم ایڈووکیٹ منتظر تھے۔
ملتانی منڈلی مختلف الخیال دوستوں کا کٹھ ہے۔ اس میں حافظ رضوان کی طرح کے عاشق جاتی امرا ہیں تو برادر عزیز کاشف سندھو کی طرح کے پنجابی قوم پرست بھی۔ ملک خاور شفقت حسنین بھٹہ اب کاروباری مصروفیات کے ساتھ اپنے مرحوم والد بزرگوار حاجی ملک شفقت بھٹہ کے سیاسی سماجی و فقہی جانشین بھی ہیں۔
پہلے سال کے 365 دنوں میں صبح شام دوستوں کو دستیاب ہوتے تھے اب چند برسوں سے سماجی و فقہی خدمات کی وجہ سے مصروفیات میں سے وہ دوستوں کے لئے وقت نکال ہی لیتے ہیں۔
وکیل بابو ملک ساجد رضا تھہیم ایڈووکیٹ ہمارے وسیب کی جواں عزم اور ثاقب قدم سیاسی شخصیت نواب احمد بخش تھہیم مرحوم کے پوتے ہیں۔ نواب صاحب مرحوم نے اپنے بچوں اور دیگر عزیزوں کے ساتھ جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم میں ریاستی جبروتشدد کا جس ہمت سے سامنا کیا وہ سیاسی کارکنوں کے لئے اپنی مثال آپ ہے۔
مستقل عزیزی طارق شیراز حساباتی امور کے ماہر کے طور پر فرائض ادا کرتے ہیں۔ راوی کہتا ہے کہ جس محفل میں وکیل بابو اور عزیزی موجود ہوں وہاں تاریخی واقعات کے ساتھ تاریخی چٹکلے بھی وقفے وقفے سے چلتے رہتے ہیں۔
منڈلی کے ایک اور سنگتی پروفیسر ڈاکٹر یاسر سیال ہیں ان سے تاریخ کے موضوع پر گفتگو بڑی شاندار اور روشن فکر رہتی ہے۔ تاریخ میں ہی پی ایچ ڈی ہیں۔ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں تدریسی فرائض ادا کرتے ہیں۔
ملتانی منڈلی کے ایک نگینے ملک محمود مہے ہیں۔ محمود مہے اپنا تعارف خود ہیں مل جائیں تو قربانی کا زندہ ثبوت ہوتے ہیں نہ ملنا چاہیں تو اکثر خود سے بھی نہیں ملتے۔ برادر عزیز کاشف حسین اور سئیں ملک شاہد بھی ملتانی منڈلی کے ارکان میں شامل ہیں۔
ان دونوں اور حافظ صفوان سے ملاقات نہ ہوپائی البتہ ملک محمود مہے کی جھلکی نما زیارت ایک کانفرنس ہال میں ضرور ہوئی۔
ملتانی منڈلی کے کٹھ میں ان کی غیرحاضری کی وجہ "قومی راز" ہے۔ اب یاروں کے قومی راز کالم کلامی میں کھولنا کوئی اچھی بات نہیں البتہ "ان کی جانب سے بھجوایا گیا ماحضرخوب ذائقہ دار تھا"۔ مہمانوں اور منڈلی والوں نے خوب سیر ہوکر شکم سیری کی اور لنچ کے لئے ماحضر بھجوانے پر محمود مہے کے لئے "دستِ دعا" بلند کئے۔
ملتانی منڈلی کے کٹھ میں ہمیشہ کی طرح مختلف امور پر گفتگو رہی۔ سیاست، مذہب، مذاہب کی کوکھ سے نکلے عقائد، مقامیت و کلچر سے رنگے عقیدوں کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایٹمی پاکستان کے ماضی حال اور مستقبل پر دھماچوکڑی قسم کی گفتگو کے دوران وکیل بابو اور عزیزی کے چٹکلوں سے بھی حظہ اٹھایا۔
ہم نے جاتی امرا کے عاشق صادق حافظ صفوان کی جی بھر کے غیبتیں ہوا کے دوش پر رکھیں۔ کبھی نہ کبھی تو ان تک پہنچ ہی جائیں گی۔
عزیزم کاشف سندھو سے ملاقات نہ ہوسکنے کا ملال ہے خیر یاد زندہ محفلیں آباد۔ اگلی ملتان یاترا پر ان سے ملاقات ہوگی۔ ملتانی منڈلی کے کٹھ میں اس امر پر کامل اتفاق تھا کہ سیاسی عمل کو بہرصورت آگے بڑھنا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کو اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کا کھلے دل سے تجزیہ کرنے کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ سے تعاون پر عوام سے معذرت کرنا چاہیے۔
کٹھ میں ملتان اور باقی ماندہ سرائیکی وسیب میں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد میں موجودگی اور اسے مقامی پشتون کے طور پر پیش کرنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ دوستوں کا خیال ہی نہیں بلکہ اتفاق تھا کہ افغان مہاجرین کو واپس کیمپوں میں بھجوایا جائے انڈس ہائی وے سمیت پورے وسیب میں ان کے کاروباری مراکز کا نوٹس لیا جائے۔
ملتانی منڈلی کے کٹھ کی شام ہمارے لائق احترام دوست منڈلی کے سنگتی پروفیسر ڈاکٹر یاسر سیال نے بچ ولاز کے ایک ریسٹورنٹ میں پرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا۔ عشائیہ کے دوران مختلف موضوعات کے ساتھ بی زیڈ یو کی بعض شاگردات کے چند اساتذہ پر الزامات اس کے پس منظر اور دیگر امور پر بھی تفصیل سے بات ہوئی۔
میں نے عرض کیا اولاً تو میں ملتان میں رہتا ہی نہیں اس لئے مقامی سیاست، عصری سیاست ہو، سماجی یا پروفیشنل، مجھے اس سے دلچسپی ہے نہ اس میں کسی فریق سے ہمدردی و ذاتی عناد سو ہم نے صرف یہ عرض کیا تھا (وہ بھی نام لئے بغیر) کہ طالبات کی شکایات کی تحقیقات کے لئے کمیٹی بننی چاہیے۔
یار لوگوں نے ایک خاص ذات شریف کے لئے ہفتہ مدحت شروع کردیا تو تب وضاحت کے ساتھ معروضات پیش کرنا پڑیں۔
گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ وکیل بابو ساجد رضا تھہیم اپنے صاحبزادے کو ایران روانہ کرکے عشائیہ میں پہنچ گئے ان کے صاحبزادے ایران میں طب کے طالب علم ہیں۔ ملتانی منڈلی کے کٹھ اور پروفیسر ڈاکٹر یاسر سیال کے پرتکلف عشائیہ کے درمیانی وقت میں حضرت شاہ شمس سبزواریؒ کانفرنس میں بھی شرکت کی اس کا احوال الگ سے پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کروں گا۔
اس مختصر ملتان یاترا کے دوران آمدورفت کی اطلاع نہ دینے پر سب سے زیادہ ہمارے محترم دوست پروفیسر تنویر خان ناراض ہیں۔ شکوہ تو ہمارے بہن بھائیوں اور دیگر دوستوں کو بھی ہے جن کی زیارت کے لئے وقت نہ نکال سکا۔ پروفیسر تنویر خان کا شکوہ بھی اپنی جگہ بجا ہے اطلاع تو دی جاسکتی تھی لیکن ہم نے سوچا کہ مصروفیات میں سے اتنا وقت نہیں ملنا کہ ان سے محفل جم سکے۔
اسی شب شہزاد شفیع، دانیال گھلو، صہیب گورمانی اور دیگر نوجوان عزیزان ہمارے مقام قیام پر ملنے کے لئے تشریف لائے ان سے یہ ملاقات گو مختصر رہی مگر مختصر وقت میں بھی خوب گپ شپ ہوئی۔
امڑی کے شہر میں ایک شب اور چند گھنٹوں کے قیام کے دوران بہت سارے دوستوں سے ملاقات نہ ہوپائی ان کی ناراضگی اپنی جگہ بجا ہے لیکن مسافروں کی مجبوریاں بھی "حق باہو" ہیں۔ حضرت شاہ شمسؒ کانفرنس کا احوال اگلے کالم میں پڑھنے والوں کی خدمت میں عرض کروں گا۔