Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Aik Khalis Farmaishi Column

Aik Khalis Farmaishi Column

ایک "خالص" فرمائشی کالم

سیاست کے گرما گرم موسم میں کتابیں پڑھ رہا ہوں اور مزے میں ہوں البتہ پچھلی شب ایک دوست کہہ رہے تھے یہ کتابوں پر کالموں کا سلسلہ اب کیوں، بعد میں لکھ لینا، ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔

عرض کیا نصف صدی سے یہی سن رہے ہیں، اسلام خطرے میں ہے، ملک کے خلاف بیرونی سازشیں ہورہی ہیں، سیاستدان چور ہیں، ملکی دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے، گھاس کھاکر بنائے گئے ایٹم بم کے ہوتے کسی کی جرات نہیں وہ میلی نظر سے دیکھے۔

دوست بات کاٹ کر کچھ کہنا چاہتے تھے کہ، فقیر راحموں نے اپنی بے سُری آواز میں"رام تیری گنگا میلی ہوگئی" الاپنا شروع کردیا۔

دوست نے پوچھا، یہ بے سُرا کون ہے؟ عرض کیا وہی فقیر راحموں، بولے اللہ تمہارے حال پر رحم کرے۔ واہ کیا بات کہی۔ انہیں کیا معلوم کہ یہ "مصیبت" خود اختیاری ہے۔ اس سے جان چھڑانا بہت مشکل ہے۔

میں اپنے دوست کے ٹیلیفون کےبارے کچھ بتارہا تھا۔ ملک شفیق علی سادہ سے کاروباری شخص ہیں دن بھر حساب کتاب میں الجھے رہتے ہیں۔ موبائل فون پر دنیا گھومتے ہیں۔ عطاء الحق قاسمی اور جاوید چودھری کے وڈے عاشق ہیں۔ قاسمی کی عاشقی (ن) لیگی ہونے کی وجہ سے ہے۔ جاوید چودھری کی عاشقی انہیں خودبھی عجیب لگتی ہے لیکن اس کا کالم روز پڑھتے ہیں۔

ان کا دعویٰ یہ ہے کہ شاہ میں تمہیں تب سے پڑھ رہا ہوں جب مساوات میں لکھا کرتے تھے۔ ایک دن میں نے حیران ہوکر پوچھا یار ملک تم بھی ہمارے جتنے ہی پرانے ہو، قبل اس کے کہ وہ جواب دیتے فقیر راحموں بولا، شاہ جی، " ایندے کولوں پچھ کے لاہور دا نقشہ بنایا گیا سی "، پھر ہم تینوں خوب اور دیر تک ہنستے رہے

ملک صاحب کل سے بڑے خوش ہیں۔ (ن) لیگی ہو اور جمعہ والے دن منہ بسورنے کی بجائے خوش ہو تو سمجھ لیجئے "دشمناں دے گھر وین پے گئے نے"۔ اب بھی اگر آپ بات نہیں سمجھے تو دعائیں لیجئے۔

کبھی کبھی میں حیران ہوتا ہوں کہ سارا دن دو جمع دو سے چھ بنانے کے گُر آزمانے والا ملک دن میں دو تین اخبار اور آٹھ دس کالم نگاروں کو کیسے پڑھ لیتا ہے۔ خیر اس کا کہنا تھا کہ سیاسی موضوعات کو چھوڑ کر کتابوں پر لکھنے کی کیا ضرورت پڑ گئی۔ ہم نے بہت مشکل سے اسے سمجھابجھاکر وعدہ کیا کہ کل ان کی فرمائش پر کالم لکھوں گا۔

سو پیارے قارئین! یہ "خالص" فرمائشی کالم ہے جس کے بالائی الفاظ کے علاوہ کسی بھی لفظ، ذکر اور دیگرات سے تحریر نویس کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

وجہ یہ ہے کہ آجکل بنی گالہ کے متاثرین لمبی چوڑی بحث کرنے کی بجائے صرف اتنا کہتے ہیں"شاہ جی تہانوں اللہ پچھے گا"۔ خیر کوئی بات نہیں اللہ سائیں نے سب کو پوچھنا ہے واری واری۔ کھاتے سب کے کھلیں گے۔ ہمارے ساتھ کوئی خصوصی تفتیشی پروگرام تو ہونا نہیں۔

اب سوچ رہا ہوں فرمائشی کالم کی ابتداء کہاں سے کی جائے۔ الیکشن کمیشن سے عمران خان کی نااہلی کے فیصلے سے لالہ قمر جاوید باجوہ کے اس اعلان سے کہ میں پانچ ہفتے بعد ریٹائر ہوجائوں گا یا پھر فیٹف کی گرے لسٹ سے نکال دیئے جانے سے؟

لالہ جی سچ پوچھیں تو آپ کو ایکسٹینشن ہی نہیں لینی چاہیے تھی کیونکہ بندے ناگزیر نہیں ہوتے۔ بعض زندہ معاشروں میں حالت جنگ میں بھی انتخابات ہوتے ہیں، حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں دوران جنگ سپہ سالار بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ایک سپہ سالار کی عین جنگ میں تبدیلی کا واقعہ عمران خان اکثر سناتے بھی رہتے ہیں لیکن شاید وہ بھی فقیر راحموں کی طرح یہ جان گئے ہیں کہ کتابوں میں لکھی باتوں پر سو فیصد عمل ضروری نہیں ہوتا۔

لالہ جی کی ایکسٹینشن بارے سب کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں۔ تحریک انصاف کہتی ہے سپریم کورٹ نے گیند قومی اسمبلی کی ڈی میں پھینک دی تھی اب گول کراتے یا "میچ" بچاتے۔

پیپلزپارٹی والے کہتے ہیں ہم تو ایکسٹینشن کے خلاف ووٹ دینے کی تیار "پھڑ" چکے تھے۔ وہ تو (ن) لیگ نے قانون سازی کی حمایت کردی پھر ہم کیا کرتے۔

(ن) لیگ والے کہتے ہیں ہم کون سا کسی جزیرہ میں رہتے ہیں سیاست کے سمندر میں رہنا اور مگر مچھ سے بگاڑ لینا کون سا عقل مندی ہے۔

خیر چھوڑیں لالہ جی اب پانچ ہفتوں کے بعد ریٹائر ہونے جارہے ہیں۔ انہیں ہنسی خوشی رخصت کریں، شکوے شکایتیں کیا کرنیں۔ جو ہوگیا سو ہوگیا۔

ہمیں امید ہے کہ اپنے عقیدے پر حرف گیری کرنے پر جس طرح انہوں نے پروفیسر ساجد میر کو معاف کردیا تھا بالکل اسی طرح وہ عمرانی جماعت کے لوگوں کی جانب سے اپنے اور اپنے خاندان کے خلاف چلائی گئی مہم کو بھی بھول بھال ہی جائیں گے۔ بلجیم کے فارم ہاوس اور مکان کی کوئی حقیقت ہے تو یہ ان کا اور اللہ سائیں کا معاملہ ہے۔ نہیں ہے تو وہ بھی کیانی کی طرح رہیں گے پنڈی میں لیکن سوشل میڈیا پر بلجیئم میں۔ خیر جہاں رہیں خوش رہیں ہماری اور فقیر راحموں کی "خاص دعائیں" ان کے ساتھ ہیں۔

فیٹف والوں نے بھی جمعہ کو (جمعہ پاکستان میں تھا ہم اپنے حساب اور ایام کے حوالے سے ہی بات کریں گے) منعقدہ اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا ہے۔ میری اور فقیر راحموں کی طرف سے جنرل محمد ضیاء الحق کی روح، جنرل پرویز مشرف اور دیگر تمام حاضرین ناظرین، سول و عسکری حکام کو دلی مبارک ہو۔

اب کوئی یہ نہ پوچھنے لگ جائے کہ اس سارے معاملے میں تیسرے اور چوتھے فوجی آمروں کا کیا تعلق ہے ایک کو دنیا سے رخصت ہوئے 36سال ہوگئے دوسرے کو اقتدار سے نکلے چودہ سال۔

آپ نہیں سمجھنا چاہتے تو تفصیل لکھنے کا بھی کوئی "فیدہ" نہیں ویسے جانتے آپ بھی ہیں کہ اندھی کمائی ان دونوں فوجی آمروں کے دور میں شروع ہوئی تھی۔ لوگ ککھ پتی سے کروڑ اور ارب پتی بن گئے۔

سائیکل سوار مولوی چالیس چالیس لاکھ کی گاڑیوں میں گھومنے لگے۔ کسی نے دونوں صاحبان کے دور کی ترقی دیکھنی ہو تو نوشہرہ میں ریلوے پھاٹک سے اگلے چوک تک بنے پلازوں کو دیکھ لے۔

اچھا یہ چالیس چالیس لاکھ روپے کی گاڑیاں پرانی باتاں ہیں اب تو گاڑیوں کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں ویسے بھی مولوی جہادی تاجروں اور منشیات فروشوں (ایک مخصوص دور کے منشیات فروش پڑھا سمجھا جائے) نے کون سا پلے سے خریدنا ہوتی ہیں۔

اب آپ کہیں گے شاہ جی آپ نے سیاستدانوں کی بات نہیں کی۔ کرتے ہیں بھائی لیکن کیا آپ نے کبھی "اُن" کے بارے میں بات کی جو مولوی، جہادی تاجر، منشیات فروش اور سیاستدانوں سے بھی بڑے "کاریگر" ہیں۔

22میں سے 30کروڑ پاکستانی ان کی استادی اور کاریگری سے واقف ہیں لیکن مجال ہے کہ کچھ بولیں۔ بولنا بھی نہیں چاہیے، جان ہے تو جہان ہے۔ زیادہ ہی شوق ہورہا ہو کسی کو بولنے کا تو وہ عمران خان کے چیف آف سٹاف ڈاکٹر شہباز گل سے رابطہ کرکے تسلی کرلے۔

عمران خان پر یاد آیا، گزرے جمعہ (21اکتوبر والے) کو الیکشن کمیشن نے انہیں توشہ خانہ ریفرنس میں نااہل کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی اس نشست سے بھی محروم کردیا ہے جس سے وہ تقریباً ساڑھے چھ ماہ قبل مستعفی ہوچکے ہیں۔

فقیر راحموں کل سے کہہ رہا ہے شاہ جی جس شخص نے 26سال کرپشن کے خلاف جدوجہد کی اسے ہی کرپٹ پریکٹس کے الزام میں نااہل کردیا گیا۔ بات یہ بھی سُٹنے والی ہرگز نہیں، مگر کیا کیجئے کرپشن کا بیانیہ گھڑ کر دینے والوں نے اپنی ڈکیتیوں سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے پہلے ہر دور میں بھرپور پروپیگنڈہ کروایا پھر انصاف کے جھنڈے تھماکر پارٹی میدان میں اتروادی۔

عمران خان کی نااہلی کے فیصلے پر مختلف الخیال قانون دانوں، دانشوروں اور سیاسی لوگوں کے ساتھ سوشل میڈیائی مجاہدین کی بحث سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔ خان نے بھی جمعہ کی شام شکوہ کیا کہ ظالموں نے مجھے نوازشریف سے ملادیا۔ حالانکہ " کہاں میں کہاں نوازشریف"۔

ان کی پارٹی کے لوگ اس فیصلے پر بہت تپے ہوئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف جس طرح لوگوں نے سیلاب کی طرح گھروں سے نکل کر ملک بھر میں عموماً اور صوبہ پنجاب میں خصوصاً سڑکیں، چوک، موٹرویز اور ریلوے لائن کو بند کیا وہ "حیران کن" تھا۔

خیر عمران خان صاحب امت مسلمہ کے عظیم رہنما ہیں تین چار ویڈیوز نظر سے گزری ہیں ٹریفک جام ہے ٹائر جل رہے ہیں دھواں ہی دھواں ہے، بندہ نہ بشر۔ یقیناً یہ وارداتیں"موکلوں" نے کی ہوں گی۔

ان کے حامی کل سے کہہ رہے ہیں کہ " خان صاحب توشہ خانہ سے کچھ سامان لے گئے تو کیا ہوا ان سے پہلے والے بھی تو لیتے (خریدتے) رہے۔ انصافی دوست چونکہ بھوترے ہوئے ہیں اس لئے ان کے زخموں پر نمک پاشی سے اجتناب بہتر ہے۔

ویسے بھی یہاں ہر شخص اپنے لیڈروں کو محبوب کا درجہ دیتا ہے اور مجنوں کی طرح لیلیٰ کے کتے سے بھی پیار کرتا ہے۔ خان صاحب کی 26سالہ جدوجہد کے ساتھ الیکشن کمیشن نے کچھ اچھا نہیں کیا البتہ خود خان کو سوچنا چاہیے کہ جن کے کاندھوں پر بیٹھ کر انہوں نے سب کو اوئے توئے کہا گالی دی "وہ کہاں ہیں؟"

ان کے مخالف بقول ان کے کرپٹ ہیں تو اب الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد وہ بھی کرپٹ ہی ہیں۔

آگے عدالتیں کیا کہتی کرتی ہیں وہ بعد کی باتیں ہیں۔ جب تک عدالت سے وہ اس فیصلے کو غلط قرار نہیں"دلوالیتے" اس وقت تک کیا کہا جائے گا؟ یہی کہ

"سارے سوار دہلی جارہے ہیں"

Check Also

Peshawarana Taleem Aur Larkiyan

By Mubashir Aziz