Zia Ul Haq Mindset Ka Khatma Kaise Ho
ضیاءالحق مائنڈسیٹ کا خاتمہ کیسے ہو
عام طور سے لوگ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جنرل ضیاءالحق کی آمد کا دن 5 جولائی 1977ء کو سمجھتے ہیں جب پورے ملک میں مارشل لاء لگایا گیا تھا۔ بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ جنرل ضیاءالحق ملکی سیاست میں یکم مارچ 1976ء کو داخل ہوا تھا۔ یہ وہ دن تھا جب اُسے 8 جرنیلوں پر سپرسیڈ کرکے آرمی چیف لگایا گیا تھا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔ اِس واقعہ کے پورے 53 ہفتوں کے بعد 7 مارچ 1977ء کو قومی انتخابات ہوئے تھے۔
جنرل صاحب نے یہ پورا سال اپنے محسن کی انتخابات میں کامیابی کے لیے راستے بنانے اور اُنھیں مستحکم کرنے کی کوششوں میں صرف فرمایا تھا۔ جنرل ضیاءالحق کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا کیونکہ وہ ملازم تھا، اور بہت فرمانبردار اور باصلاحیت ملازم تھا۔ جناب بھٹو بہت مقبول تھے اور اُنھوں نے الیکشن جیتنا ہی تھا لیکن ضرورت سے زیادہ اور بے وجہ دھاندلی کی وجہ سے 4 حلقوں میں شور مچ گیا۔ پھر جو کچھ ہوا وہ ہماری تاریخ ہے اور 5 جولائی 1977ء بھی اُس کا ایک سنگِ میل ہے۔ یہ تاریخ بھٹو جیسے سٹیٹسمین کی بلی لے کر شانت ہوئی۔
آج جنرل ضیاءالحق کی برسی ہے۔ ہر سال برسی پر لگنے والی پوسٹوں اور مضامین کالمز وغیرہ کی طرح اِس سال بھی ہر کوئی 5 جولائی 1977ء کو پیدا ہونے والے جنرل ضیاءالحق کو یاد کر رہا ہے، اور اِس یاد نگاری میں اُس کے والدین تک کو خراجِ تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔ جو لوگ زیادہ سمجھدار ہیں وہ ملک میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر اور مذہبی شدت پسندی پیدا کرنے کے مضمون باندھ کر ہر پوٹنسی کی گالی سے ضیاءالحق کے درجات بلند کر رہے ہیں۔ خدا مزید توفیق دے۔ آمین۔
عرض یہ کرنا ہے کہ ملک میں پہلی اور آخری اسلامی سربراہ کانفرنس بھٹو نے کرائی اور اپنے عالمِ اسلام کا لیڈر بننے کے نعرے لگوائے۔ ملک میں شراب کی کشید اور فروخت پہ پابندی بھٹو نے لگائی۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار جمعہ کی سرکاری چھٹی بھٹو نے کرائی اور تو اور، قومی اسمبلی کو دارالافتاء بھی بھٹو نے بنایا۔ یہی وہ سب چیزیں ہیں جن کو لے کر جنرل ضیاء آگے چلا۔ مجھے کبھی یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ ضیاءالحق نے وہ نیا کام کون سا کیا تھا جس کی وجہ سے اُسے ملک میں شدت پسندی پیدا کرنے کا والد محترم گردانا جاتا ہے اور گالی دی جاتی ہے؟
میں سمجھتا ہوں کہ وہ مائنڈسیٹ جو جنرل ضیاءالحق سے منسوب کرکے اُسے گالی دی جاتی ہے، وہ اِسی لیے ختم نہیں ہو رہا کہ ہم غلط بندے کو گالی دے رہے ہیں۔ وہ مائنڈسیٹ اُس شخص کا پیدا کردہ ہے ہی نہیں جس کے سر اِسے مڑھا جا رہا ہے۔ ہم چارپائی بے شک نہ دیں، ترتیب تو ٹھیک کرلیں۔ ملک میں مذہبی منافرت اور شدت پسندی پیدا کرنے والے کو کھل کے برا کہنے کا حوصلہ نہیں ہے تو نہ سہی، کم سے کم اُسے دل میں ہی برا سمجھیں اور غلط آدمی کو گالی دینا چھوڑیں۔ ہم اگر کچھ سال یہ کرلیں تو امکان ہے کہ کبھی نہ کبھی ہم اِس غلیظ مائنڈسیٹ کو ختم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔