Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hafiz Safwan
  4. Urdu Adab Mein Roohaniyat O Maadiyat Ki Kashmakash

Urdu Adab Mein Roohaniyat O Maadiyat Ki Kashmakash

اردو ادب میں روحانیت و مادّیت کی کشمکش

روحانیت اور مادّیت جیسے دو متوازی رجحانات کی کشمکش آفرینش سے چلی آتی ہے۔ وحی و تنزیل کا سلسلہ بھی اِسی لیے تھا کہ انسان کو آنے والے کل کے لیے متفکر کیا جائے تاکہ وہ دنیا میں جی کم لگائے اور آخرت کی زندگی کے لیے توشہ کرے۔ صنعتی دور شروع ہوا تو یہ کشمکش صرف فکری نہ رہی بلکہ کشاکش کے مناظر کھلی آنکھوں سے دیکھے جانے لگے۔

انیسویں صدی میں ڈیکارٹ نے روایت کی کلّی تردید کرتے ہوئے کشف و الہام اور وحی کو ناقابلِ قبول قرار دے کر صرف عقلِ انسانی کو قابلِ اعتماد بتایا اور مادّیت (Materialism) کا نظریہ ساز اور علم بردار کہلایا۔ انگریز کے آدھی سے زیادہ دنیا پر حاکم ہونے کی وجہ اِس نظریۂ مادّیت پرستی کے اثرات دنیا بھر میں پھیل گئے۔ انگریز جب ہندوستان میں آیا تو اُسے مادّیت کی نظری بحثوں سے نکل کر مادّیت کے عملی دور میں داخل ہوئے بہت وقت ہوچکا تھا۔

لارڈ میکالے جب ہندوستانیوں میں گائے کے سینگ پہ دھری دنیا اور بکری کے چھو جانے سے ہونے والی ناپاکی کا ذکر کرکے نئی اور کارآمد تعلیم جاری کرنے کا کہتا ہے تو اُس وقت کے پڑھے لکھے ہندوستانیوں سے دو صدی آگے کا بیدار مغز انسان محسوس ہوتا ہے۔ عیسائی دنیا اُس وقت قرنِ مظلمہ سے گزر چکی تھی اور جنابِ عیسیٰؑ پر وحی اترنے پر ایمان رکھنے والوں کو قدیم خیال کا انسان سمجھنا عام ہوچکا تھا۔ عربوں میں وحی کے بارے ایسے خیال کے لوگوں کا وجود قرآن سے ثابت ہے تاہم ہندوستان میں اِس خیال کے مسلمان اگر تھے بھی تو اُن کی تعداد اور حیثیت قابلِ ذکر نہ تھی۔

یہ وہ موقع تھا جب تاجِ برطانیہ کا اقتدار قائم ہوجانے کے بعد سر سید احمد خاں نے نئے حکمرانوں کو یہ باور کرانے کی باقاعدہ سنجیدہ کوششوں کا آغاز کیا کہ عیسائیت اور اسلام وحی آور مذاہب ہیں جب کہ سناتن دھرم شروتیوں والا مذہب ہے، چنانچہ ہندوؤوں کے علی الرغم مسلمان اور عیسائی فطری اتحادی ہیں۔ سر سید کی تین کالمی سہ لسانی تفسیرِ قرآن "تبیین الکلام فی تفسیر التوراۃ و الانجیل علیٰ ملۃ الاسلام" بھی اِسی فکر کی ترویج کی ایک عملی کوشش تھی کہ تنزیلِ وحی پر ایمان رکھنے والی قومیں نبیوں کے ایک ہی سلسلے اور روایت کا حامل ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کا احترام کریں نہ کہ آپس میں لڑیں۔

یہ جدید اور غیر روایتی خیالات جب ہندوستانی رعایا میں پھیلنے لگے تو یہاں روحانیت اور مادّیت کی کشمکش ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔ دیومالائی تصورات پر سوالات اٹھنے لگے اور رفتہ رفتہ یہاں موجود سبھی مذاہب کو اپنے دعووں کا ثبوت پیش کرنا لازم ہوتا گیا۔ دیکھتے دیکھتے تمام مذاہب کے مطاع اور سرکردہ لوگ اپنے اپنے مذہب کی حفاظت و اشاعت کی خاطر قدیم و جدید اور روح و مادّہ کی بحثوں میں اترتے چلے گئے۔ ادب چونکہ انسانی زندگی سے عبارت ہے اِس لیے یہی بحثیں ادب کی مختلف اصناف میں بھی اپنا راستہ بناتی گئیں۔ ہندو اور مسلم دونوں لٹریچروں میں یہ روایت خاصی مضبوط ہے۔

اردو ادب میں روحانیت و مادّیت کی کشمکش کا آغاز تصوف، داخلیت اور خارجیت کی مخصوص اصطلاحات کے تناظر میں ابتدا ہی سے نظر آتا ہے اور یہ کشمکش انیسویں صدی میں مستحکم محسوس ہوتی ہے۔ انیسویں صدی ہی میں فلسفے کے نظریۂ مادیت پرستی کے اثرات کا ردِعمل بھی سامنے آیا اور اِسی کشمکش کا نتیجہ تھا کہ مغربی ادب میں کئی مذہبی تصورات نے جگہ بنائی۔ بیشتر مشہور مغربی ادیب اور نقاد فکراً اور عملًا نہایت بنیاد پرست مذہبی تھے۔ اِسی لہر کے زیرِ اثر اردو ادب کی کئی اصناف میں بھی قرآنی آیات و تلمیحات، ارشاداتِ ربانی اور ارشاداتِ رسول اللہ کا شاعرانہ استعمال دیکھا جانے لگا۔

تاہم جیسے ہر عمل کا ردِعمل ہوتا ہے، صنعتی دور والی مادّی ترقی کے نتیجے میں مذہب سے لاتعلقی اور مذہب بیزاری بھی دنیا بھر میں ایک نمایاں سماجی رجحان کی شکل میں ظاہر ہوئی اور رفتہ رفتہ سکہ رائج الوقت بن گئی۔ اہلِ عرب و فارس کی طرح اردو والوں کے فکر و عمل پر بھی یہ اثرات ظاہر ہونے لگے۔

ڈاکٹر تہمینہ عباس کی کتاب "اردو ادب میں روحانیت و مادّیت کی کشمکش (انیسویں صدی میں)" اُن کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جو پچھلے دنوں میں انجمنِ ترقیِ اردو کراچی سے شائع ہوا ہے۔ یہ کتاب برِعظیم پاک و ہند کی سماجی، معاشرتی اور ادبی تاریخ کے تناظر میں اردو کے نمائندہ تخلیق کاروں اور اصنافِ ادب کے ایسے مطالعے پر مشتمل ہے جس میں روحانیت و مادّیت کی اِس کشمکش کا تاریخی، تحقیقی و تقابلی جائزہ لیا گیا ہے۔

یہ کتاب 7 ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد اور روحانیت کی ابتدائی صورتوں نیز مسلم تصوف اور ہندو تصوف کے ایک دوسرے پر اثرات کا تحقیقی جائزہ لیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں تصوف، مادّیت، داخلیت اور خارجیت کی کتابی تعریف (Definition) کی گئی ہے تاکہ قاری کو کتاب کے آئندہ مباحث کی تفہیم میں سہولت رہے۔ تیسرے باب میں ہندو تصوف کے اثرات لے کر کھڑی ہونے والی بھگتی تحریک اور کبیر داس سے بات شروع کرکے مسلمانوں میں موجود راسخ الاعتقاد طبقے کا تفصیلی ذکر ہے جو مذہب میں کسی قسم کی بدعت کو برداشت نہیں کرتا اور حضرت مجدد الفِ ثانی، شاہ ولی اللہ، اور شہنشاہِ ہند حضرت اورنگزیب عالمگیر رحمۃاللہ علیہ کی خدمات کا ذکر مذکور ہے۔

مذہب میں پیدا ہونے والی نئی باتوں کے حوالے سے مہدوی تحریک، اکبر اور دین الٰہی، اور داراشکوہ کا ذکر کرنے کے بعد دکنی دور کی مذہبی اور روحانی تصانیف، دکنی دور کی مذہبی شاعری، شمالی ہند میں مذہبی نثر کا آغاز اور شمالی ہند میں اردو شاعری کی ابتدا کے عنوانات قائم کرکے مقالے اور تحقیق کا ٹھاٹھر پھیلایا گیا ہے۔

چوتھے باب میں ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی و سماجی زوال اور اردو ادب پر اِس کے اثرات کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے اور ولی دکنی، سراج اورنگ آبادی، مرزا مظہر جانِ جاناں، خواجہ میر درد، میر تقی میر اور مرزا رفیع سودا کی غزلیات میں روحانیت اور مادّیت کے تحت داخلیت اور خارجیت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ پانچویں باب میں تاجِ برطانیہ کے دور میں اردو ادب پر مغرب کے اثرات کا مطالعہ ہے اور آتش، ناسخ، ذوق، غالب اور مومن کی غزل میں داخلیت اور خارجیت یعنی روحانیت اور مادّیت کے عناصر کی نشان دِہی کی گئی ہے۔

اِسی کے ساتھ ساتھ سر سید احمد خاں، حالی، ڈپٹی نذیر احمد، شبلی اور محمد حسین آزاد کی تخلیقات کا جائزہ روحانیت اور مادّیت کے عنوانات کے تحت لیا گیا ہے۔ چھٹا باب اردو ادب کی اصناف میں سے مثنوی، مرثیہ، رباعی، داستان، خطوط، سفرنامہ، سوانح، تنقید اور ناول میں روحانیت و مادّیت کی بحثوں کے نفوذ کا تحقیقی مطالعہ ہے۔ ساتویں باب میں اردو ادب میں روحانیت و مادّیت کی کشمکش کا مجموعی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

تقریبًا پونے پانچ سو کتابیاتی مآخذ (پرائمری ریسورسز) کی بنیاد پر استوار یہ تحقیق کتابی صورت میں پیش کرتے وقت ڈاکٹر تہمینہ نے لمبے اقتباسات کے بجائے حتی الامکان اختصار سے کام لے کر ایک مشاق محقق ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ مجھے خوشی ہوئی کہ جہاں اقتباسات ضروری تھے وہاں بھی صرف نمائندہ تخلیق کاروں کی منتخب تخلیقات سے اقتباس کیا گیا ہے جس سے کتاب کی ضخامت کم رکھنے میں کامیابی ہوئی ہے۔

کتاب کے آغاز میں کئی تعارفی تحریریں ہیں جن کا گلِ سرسبد پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین کا "پیش لفظ" ہے۔ خواجہ صاحب جواہر لعل نہرو یونیورسٹی نئی دہلی کے ہندوستانی زبانوں کے مرکز سے منسلک ہیں۔ باقی تحریریں بھی ایک سے بڑھ کر ایک ہیں اور اِس اہم تحقیقی کام کی تحسینِ سخن شناس ہیں۔

انتہائی حساس موضوع پر نہایت متوازن تحقیقی مقالہ لکھنے اور اُس کی اشاعت پر ڈاکٹر تہمینہ عباس کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد۔ یہ اُن کی دوسری کتاب ہے جو انجمنِ ترقیِ اردو کراچی نے شائع کی ہے۔ امید ہے کہ یہ کتاب اہلِ علم اور اہلِ ذوق میں ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی۔

Check Also

Hikmat e Amli Ko Tabdeel Kijye

By Rao Manzar Hayat