Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hafiz Safwan
  4. Janoobi Asia Mein Mazhabi Shanakhton Ki Tashkeel

Janoobi Asia Mein Mazhabi Shanakhton Ki Tashkeel

جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل

میں سمجھتا ہوں کہ قبائلی اور جمہوری حکومتوں میں جوہری فرق یہ ہے کہ جمہوری حکومت سلطنت کے اندر صرف اپنے حامیوں کی ذمہ دار نہیں ہوتی بلکہ اُسے اپنے مخالفین کو بھی برابر کے انسانی حقوق اور ترقی کے یکساں مواقع دینا ہوتے ہیں۔ چنانچہ جن لوگوں کے رسوم و رواج میں، مقاصد و اعتقادات میں، اور افعال و کردار میں زمین آسمان جیسا فرق ہو یا آب و آتش جیسا فرق ہو اُن کو بھی باہم متفق اور راضی رکھنا اور ایک کو دوسرے پر غالب نہ آنے دینا ہر جمہوری حکومت کا بنیادی فرض ہوتا ہے۔ بہت تھوڑی افرادی قوت کے ساتھ انگریز نے برِصغیر پر کامیابی سے حکومت کی جس کے اسباب پر بہت کچھ پڑھنے کو ملتا رہا ہے۔

میں اِس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ انگریز کی اِس کامیابی کے پیچھے سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اُس نے برِصغیر میں اپنے زیرِ نگیں رعایا میں سے کسی مذہب یا مسلک کو "ختم" کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ یہاں موجود سبھی کو زندہ اور برقرار رکھنے کی پالیسی پہ عمل کیا۔ جتنے مسالک و مذاہب آج یہاں موجود ہیں، وہ انگریز دور سے پہلے بھی تھے گو کسی کو اُس نام سے شناخت نہ کیا جاتا ہو جس سے وہ آج معروف ہے۔ بریلوی اور دیوبندی بھی ایسے ہی شناختی نام ہیں۔

ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب Defending Muhammad in Modernity کا اردو ترجمہ "جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل: بریلوی دیوبندی نزاع کا تاریخی مطالعہ" چند دن پہلے ادارۂ فکرِ جدید لاہور سے شائع ہوا ہے۔ یہ کتاب برِصغیر میں بریلوی دیوبندی نزاع کی ایک تفہیم ہے جس میں کسی مسلک کی نہ تو تائید و حمایت کی گئی ہے اور نہ کسی کی حقانیت کو ثابت اور دوسرے کا ابطال کیا گیا ہے۔

بریلویت اور دیوبندیت میں اختلاف بنیادی طور پر برِصغیر میں اسلام کی صوفیانہ روایت اور فقہی روایت کا اختلاف ہے حالانکہ اِس نزاع کے دونوں فریق فقۂ حنفی اور صوفیانہ روحانیت کے مشترک علمی مآخذ اور روایات سے وابستہ ہیں۔ برِصغیر میں پچھلے تقریبًا 200 سال میں تشکیل پانے والی مذہبی شناختوں کو، جو رفتہ رفتہ بریلوی و دیوبندی ناموں سے واضح ہوتی گئیں، ڈاکٹر ترین نے اپنی اِس کتاب میں پاکستان میں ماضی قریب کے بعض واقعات اور حکومتی اقدامات کے تناظر میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔

اہلِ علم سے مخفی نہیں ہے کہ مدرسہ فوبیا کو بڑھاوا دینے والے عناصر انتہا پسندوں کی بھونڈی تصویر کشی کرکے اسلامی روایات کی پرتشدد اور غلط تفہیمات کو طاقت فراہم کرتے ہیں۔ مدرسہ فوبیا کے مظاہر یقینًا پاکستان یا انگریزی ذرائع ابلاغ تک محدود نہیں بلکہ عالمگیر ہیں۔ یہ کتاب اِن مظاہر کا تفصیلی تجزیاتی مطالعہ پیش کرتی ہے۔

اِس اردو ترجمہ کی خوبیوں میں سے سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اِس کے آخر میں ایک ضمیمہ "کتاب ہٰذا کی تدریس کے لیے تجاویز" دیا گیا ہے۔ اِس میں کتاب کے مختلف حصوں کو مختلف قسم کے انڈرگریجویٹ کورسز کی تدریس کے لیے موزوں قرار دینے کے بعد کتاب کے 12 ابواب میں سے بحث و مباحثے کے لیے ممکنہ سوالات ترتیب دیے گئے ہیں۔ میں نے اِس قدر سنجیدگی سے کسی کتاب کا حاصلِ مطالعہ نکالنے اور اُسے طلبہ کے لیے قابلِ قبول انداز میں تقسیم کرکے پیش کیا ہوا نہیں دیکھا۔

تحلیلِ نفسی صرف فرد کی نہیں ہوتی بلکہ سماج اور مسائل کا بھی تحلیل و تجزیہ ہوتا ہے جس سے سماج آگے بڑھتا ہے اور لوگ وسعتِ نظر اور عقل و فہم جیسی خوبیوں سے متصف ہوتے ہیں۔ "ادارۂ فکرِ جدید" نے یہ کتاب شائع کرکے اِس مثبت سمت میں ایک بڑا قدم اٹھایا ہے جس کی تحسین کی جانی چاہیے۔

Check Also

Lucy

By Rauf Klasra