Namoos e Risalat
ناموس رسالت
18 اپریل 2021 کو، رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کے دوران، جب شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے، حکومت نے ان مظاہرین پر ہتھیاروں کے ساتھ کریک ڈاؤن کیا جو فرانس کی جانب سے سرکاری طور پر رسول اللہ ﷺکی ناموس پر حملے کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے اور فرانسیسی سفیر کو نکالنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ 12 اپریل 2021 کو سعد حسین رضوی کی گرفتاری کے بعد سے حالات شدید حد تک خراب ہونے کے بعد وزیر اعظم عمران خان صاحب نے 19 اپریل 2021 کو قوم سے خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے سے فرانس کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن پاکستان کو بہت فرق پڑے گا۔ پاکستان کی معیشت جو کہ ان کے مطابق اوپر اٹھ رہی ہے، وہ بیٹھ جائے گی۔ یورپی ممالک سے تعلقات ٹوٹ جائیں گے۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری ختم ہو جائے گی، بیروزگاری بڑھے گی اور صنعتیں بند ہو جائیں گی۔ پاکستان آدھے سے زیادہ یورپ میں کپاس کی بر آمدات کرتا ہے جو کہ پاکستان کی معیشت کا ایک اہم حصہ ہے۔ اگر یہ برآمدات رک گئیں تو پاکستان کی معیشت کو بہت نقصان پہنچے گا۔ روپیہ اپنی قدر کھو دے گا۔ ان کا خیال ہے کہ ہمیں اہل مغرب کو سمجھانا ہو گا اور ایسا ان کے پلیٹ فارمز پر جا کر اس مسٔلہ پر گفتگو کرنے سے ہو گا جیسا کہ اقوام متحدہ میں اس مسٔلہ کو اٹھانا وغیرہ۔
جہاں تک وزیر اعظم صاحب کے اس بیان کی بات ہے تو انہیں یہ جاننا ہو گا کہ اگر اقوام متحدہ کی تقریروں سے اور اہل مغرب کو قائل کر نے سے ریاستیں اپنے حقوق حاصل کر سکتی ہوتیں تو کشمیر کب کا آزاد ہو چکا ہوتا اور بھارت کشمیر میں کیے گئے انسانیت سوز جرائم کے باعث ایف اے ٹی ایف FATF کی بلیک لسٹ black list میں شامل ہوتا۔ کیا فلسطین پر مظالم سے اہل مغرب واقف نہیں؟ تو کیا انہوں نے اسرائیل سے بائیکاٹ کر لیا ہے؟ کیا مختلف غیر جانب دار تنظیمیں چینی حکومت کی جانب سے سنکیانگ کے مسلمانوں پر کیے جانے والے مظالم کے بارے میں ناقابل تردید ثبوت پیش نہیں کر چکیں؟ کیا میانمار میں مسلمانوں پر بدھ مت کے پیروکاروں کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم سے دنیا اور امن کے لیے نوبل ایوارڈ یافتہ میانمار کی اپنی وزیر اعظم آنگ سان سو چی واقف نہ تھے؟ کیا شام میں بشار الاسد کی جانب سے لوگوں پر جلا دینے والے فاسفورس بموں سے گولا باری کسی پر آشکار نہ تھی؟ لیکن کیا مغرب پر جوں تک بھی رینگی؟ اگر مغرب کا اخلاقی ضمیر (moral conscience) ان اور ان جیسے شدید جرائم پر بھی نہیں جاگا تو پھر کیا لوگوں کو یہ امید دلانا درست ہو گا کہ مغرب کا اخلاقی ضمیر ناموس رسالت ﷺ کے مسٔلہ پر جاگ اٹھے گا؟ اور وہ بھی محض تقریروں کے ذریعے اور بغیر کوئی ٹھوس اقدام لیے؟
جہاں تک وزیر اعظم صاحب کا یہ کہنا ہے کہ فرانس سے تعلقات ختم کرنے سے پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچے گا تو یہاں پہلا سوال تو یہ ہے کہ پاکستان کی سودی معیشت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف بدستور اعلان جنگ جاری رکھتے ہوئے کون سا آسمان کو چھونا شروع ہو گئی ہے کہ وہ بے انتہا ترقی کی سطح سے نیچے آ گرے گی؟ ابھی بھی تو ہم پہلے کی مانند آئی ایم ایف IMFکے قرضوں ہی کے محتاج ہیں۔ بلکہ اس غلامی میں یہ اضافہ ہوا ہے کہ اب اس کے ساتھ ساتھ ایف اے ٹی ایف FATFکو بھی خوش کرنا ہے جس کے لئے پاکستان نے کشمیر میں مزاحمتی گروہوں کو کالعدم قرار دے کر بھارت کے لیے کشمیر کے الحاق کا کام آسان بنایا۔ اگر معاشی ترقی واقعی درکار ہے تو اس ناکام سرمایہ دارانہ معاشی نظام کی غلامی چھوڑ کر پاکستان کی معیشت کو خودمختار بنیادوں پر استوار کیا جانا چاہیئے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے خاتمے کی بجائے اس معاشی غلامی میں بدستور اضافہ ہی ہوا ہے۔
پھر شاید وزیر اعظم صاحب یہ بھی بھول رہے ہیں کہ رازق اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات اقدس ہے نہ کہ فرانس یا کوئی اور ملک۔ تو اگر رزق کے چلے جانے کا خدشہ ہے ہی تو اس کا حل اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجا آوری ہے نہ کہ انہیں مزید پس پشت ڈالنا جیسا کہ ناموس رسالت ﷺ کے مسٔلہ پر حکومت کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِىْ فَاِنَّ لَـهٝ مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّنَحْشُـرُهٝ يَوْمَ الْقِيَامَةِ اَعْمٰى (ترجمہ)"اور جو میرے ذکر سے منہ پھیرے گا تو اس کی معیشت (گزر بسر)بھی تنگ کر دی جائے گی اور اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھایا جائے گا" (سورۃ طہ: 124)۔ تو پھر ہم بھلا کیسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات سے منہ موڑ کر معیشت کی ترقی کی توقع کر سکتے ہیں۔
پھر اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ پاکستان معاشی طور پر کمزور ہو جائے گا تو وزیر اعظم صاحب کو یہ جاننا ہو گا کہ ہر ریاست کی اپنی چند آخری حدیں ہوتی ہیں جنہیں ریڈ لائنز (red lines) کہا جاتا ہے۔ یہ وہ حدیں ہوتی ہیں جن کے پار ہو جانے کے بعد ریاست یہ نہیں دیکھتی کہ اس کی معیشت اجازت دیتی ہے یا نہیں بلکہ وہ اقدام کر گزرتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر خدا نخواستہ پاکستان کے کسی شہر پر حملہ ہو جائے تو کیا پاکستان کے لیے یہ کہنا مناسب ہو گا کہ کیونکہ اس کی معیشت کمزور ہے اس لیے وہ یہ جنگ نہیں لڑ سکتا، لہٰذا بہتر یہ ہو گا کہ وہ شہر سلو ک اتفاق سے دشمن کے حوالے کر دے کیونکہ دشمن نے تو وہ شہر فتح کیے بغیر پیچھے نہیں ہٹنا جبکہ لڑائی کے نتیجہ میں ملکی معیشت ڈوب جانی ہے، تو بھلائی اسی میں ہے کہ شہر بغیر جنگ کے دشمن کے حوالے کر دیا جائے۔ کیا ایسا کہنا درست ہو گا؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ ریاست کی ریڈ لائن ہے یعنی اس کے علاقوں پر حملہ ہو جانا۔ تو اگر یہ آخری حد پار ہو جائے تو ریاست لازماً جنگ کرتی ہے چاہے اس کی معیشت اس کی اجازت دے یہ نہ دے۔ اور وہ یہ ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ اپنے علاقے کو دشمن کےچنگل سے آزاد کر الے۔ مسلمانوں کے لیے ناموس رسالت ﷺ کا مسٔلہ بھی وہ آخری حد ہے جس کے بعد صرف جنگ ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جنگ سے پہلے قطع تعلقی ہے۔ لہٰذا اگر کوئی ریاست سرکاری سطح پر گستاخیٔ رسول ﷺ کا ارتکاب کرتی ہے یا اس کی پشت پناہی کرتی ہے تو سب سے پہلے ایسی ریاست سے قطع تعلق کیا جاتا ہے۔ اور پھر اس کے بعد باقی اقدامات بھی۔
ایسا اس لیے بھی ہے کیونکہ مسلمانوں کے لیے رسول اللہ ﷺ ان کی جان، مال، عزت، والدین، اولاد، غرض یہ کہ سب سے بڑھ کر عزیز ہیں۔ تو اگر کوئی شخص ہمارے والدین کے ساتھ گالم گلوچ کا ارتکاب کرے اور اس پر پشیمان بھی نہ ہو بلکہ ایسا کرتے رہنے کا اعادہ بھی کرے اور اس سے باز بھی نہ آئے تو کیا ہم ایسے شخص کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کیے رکھیں گے؟ کیا تعلقات ختم کرنا وہ پہلا اقدام نہیں ہو گا جو ہم اس معاملہ میں اٹھائیں گے؟ اگر کوئی شخص اس بنیاد پر اپنے والدین کی بے جا تضحیک کا سامنا کیے جائے کہ اسے اس شخص سے کوئی مادی فائدہ حاصل ہو رہا ہے جس کے نقصان کا اسے ڈر ہے تو ایسے شخص کو بھلا کیا کہا جائے گا؟ پھر رسول اللہ ﷺ کا حق اس سے کہیں بڑھ کر ہے اور آپ ﷺ کی عزت و ناموس کا تعلق بلا واسطہ طور پر ایک مسلمان کے عقیدے سے ساتھ بھی ہے۔ انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:"تم میں سے کوئی مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے گھر والوں، اس کے مال اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں "(متفق علیہ)۔ تو پھر یہ کیسے درست ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کی ریاست ایسی جسارت کا ارتکاب کرنے والی کسی ریاست سے تعلقات تک قطع نہ کرے بلکہ بدستور اس سے تجارتی اور سفارتی تعلقات استوار رکھے؟ بلکہ اس کے بر عکس وہ ان مظاہرین پر کھلے عام گولیاں برسائے جو اس مطالبے کو لے کر اس وجہ سے سڑکوں پر آ نکلنے پر مجبور ہوئے ہوں کیونکہ حکومت اس سلسلہ میں کوئی ٹھوس اقدام نہیں لے رہی؟ حالانکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں ایک دوسرے کے ساتھ رحمدل جبکہ کفار کے ساتھ سخت ہونے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد ہے:
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ (ترجمہ)"محمدﷺ خدا کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں سخت ہیں اور آپس میں رحم دل"(الفتح 48:29)۔
لیکن اس کے باوجود حکومت نے سینکڑوں مسلمانوں کو شہید کر دیا جن کے بارے میں عبد اللہ ابن عمر ؓ سے ایک صحیح حدیث میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: "ایک مومن کا قتل اللہ کےنزدیک پوری دنیا کی تباہی سے زیادہ شدید ہے" (نسائی)۔
تاریخ سے ہمیں یہ نظر آتاہے کہ وہ سلطان عبد الحمید دوئم کی قیادت میں ریاست خلافت ہی تھی جس نے بیسویں صدی کے آغاز میں توہین رسالت پر آمادہ یورپی ریاستوں کو نبی ﷺکی حرمت پر حملوں سے باز رکھا۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا کی دو سپر طاقتوں، برطانیہ اور فرانس نے رسول اللہﷺ کی شانِ اقدس پر حملے کیے، لیکن خلیفہ عبدالحمید دوئم نے ان کی مشترکہ طاقت اور خلافت کی کمزوری کو بہانہ بنا کر صرف مذمتی بیانات جاری نہیں کیے تھے بلکہ ریاستِ خلافت کی افواج کے ذریعے جہاد کا اعلان کرنے کی دھمکی دی۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ صرف ایک دھمکی ہی صلیبیوں کو ان کے ناپاک عزائم سے باز رکھنے کے لیے کافی ثابت ہوئی اور دوبارہ انہیں یہ ناپاک اور شیطانی جسارت کرنے کی ہمت نہیں ہوئی جب تک خلافت موجود رہی۔ آج بھی مسلمانوں کو ایک ایسی ہی ریاست اور ایک ایسی ہی قیادت کی ضرورت ہے جو اسلام کے مقدسات کی ناموس کے لیے کفار کی آنکھوں میں آنکھوں ڈال کر انہیں للکارے تا کہ کفار کو ایسی ناپاک جسارت کے ارتکاب کی جرأت نہ ہو سکے۔