Muashi Ishariye Ya Awam Ki Zarooriat?
معاشی اشاریے یا عوام کی ضروریات؟
پچھلے کچھ عرصے سےحکومت کی جانب سے کرنٹ اکاونٹ خسارے (current account deficit) میں مسلسل زبردست کمی کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ حکومتی ٹیم تجارتی خسارے میں کمی، زرمبادلہ کے ذخائر اور بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم یعنی ترسیلات زر میں اضافے اور ٹیکسٹائل، سیمنٹ اور لارج اسکیل مینوفیکچرنگ (large-scale manufacturing) کے شعبے میں تیزی کو معاشی استحکام اور ترقی کی نشانی کے طور پر عوام کے سامنے پیش کر رہی ہے۔ اسی سلسلہ میں 18 فروری 2021ء کو وزیر اعظم عمران خان صاحب نے بیان دیا کہ ملک کے معاشی اشاریوں میں بہتری واقع ہوئی ہے اور یہ کہ ملک کی برآمدات میں خطے کے باقی معاشی حریفوں مثلاً بھارت اور بنگلہ دیش کے مقابلہ میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح انہوں نے ترسیلات زر (remittance) میں اضافے کا بھی ذکر کیا۔
اس سے پہلے مسلم لیگ-نون بھی اپنے دورِ حکومت میں کُل ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں مسلسل اضافے کے دعوے کرتی رہی تھی، اور سی پیک کے ماتحت میگا پراجیکٹس اور مہنگائی کی شرح میں کمی کو ملک کی معاشی ترقی اور اپنی کامیابی کی نشانی کے طور پر پیش کرتی رہی۔ لیکن پاکستان کےلوگوں نے یہ اس وقت بھی دیکھا اورا ٓج بھی دیکھ رہے ہیں کہ ان نام نہاد اعدادوشمار سے نہ تو ان کا پیٹ بھرتا ہے اور نہ ہی ان کے معاشی مسائل میں کوئی کمی آتی ہے کیونکہ ہر دورِ حکومت میں بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ، روپے کی قدر میں کمی اور اندرونی و بیرونی قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے جس کا نتیجہ عوام کمر توڑ مہنگائی کی صورت میں بھگتتے ہیں۔
درحقیقت یہ تمام معاشی اعدادوشمار عوام کی حقیقی معاشی صورتحال کی عکاسی ہی نہیں کرتے، لہٰذا ان میں آنے والے کسی بھی اتار چڑھاؤ سے عوام کی اکثریت کی زندگیوں پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑتا، بلکہ ان کی معاشی بدحالی اور مسائل میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔ ایسا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام دولت کی پیداوار کو تو بڑھانے پر بھر پور توجہ دیتا ہے لیکن اس کی منصفانہ تقسیم اس کا ہدف ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا میں 61 فیصد افراد یہ رائے رکھتے ہیں کہ آج امریکا میں معاشی عدم مساوات بہت زیادہ ہے جبکہ امریکا دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے جبکہ اس کی آبادی بھی کوئی بہت زیادہ نہیں بلکہ صرف 33 کروڑ ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت اور جمہوری نظام حکومت ہی ہے جس کی وجہ سے حکومت کی جیب میں آنے والے محصول کا صرف 4 فیصد امیر افراد کی دولت سے آتا ہے اور دنیا میں امیر و غریب کی دولت میں فرق اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اس وقت دنیا کے ایک فیصد امیر ترین افراد کی دولت 6.9ارب لوگوں کی کُل دولت سے دوگنی ہوچکی ہے۔ لہٰذا اگر سرمایہ دارانہ نظام میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن کر بھی امریکی قوم کی ایک بہت بڑی تعداد معاشی عدم مساوات کی شکایت کرتی نظر آتی ہے اور نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا میں امیر سے کم اور غریب سے زیادہ ٹیکس لیا جاتا ہے اور امیر و غریب کا فرق اتنا بڑھ گیا ہے تو پاکستان کتنا ہی کرنٹ اکاونٹ خسارا کم کرلے یا جی ڈی پی، زرمبادلہ کے ذخائر اور ترسیلات زرمیں اضافہ کرلے یا بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے ہی کیوں نہ لگالے، عوام کی ایک بہت بڑی تعداد کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی آ سکتی ہی نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ایسے بہت سے لوگ بھی آج موجودہ حکومت سے مایوس ہو چکے ہیں جو پہلے اس کے حمایتی تھے اور اس سے بے پناہ امیدیں استوار کیے ہوئے تھے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اپوزیشن پران کا اعتماد بڑھ گیا ہے بلکہ ایسا موجودہ حکومت کے استعماری اداروں کے مطالبات کو پورا کرنے کی وجہ سے ہے۔ حکومت نے عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے ہِٹ مین (hitmen) کو تعینات کیا، جنہوں نے واشنگٹن اتفاقِ رائے(Washington Consensus) کی شرائط کو نافذ کیا۔ انہیں استعماری معاشی اداروں کے ساتھ وابستگی کا خمیازہ ہم مقامی کرنسی کی قدر میں کمی، غریب اور کمزور کے لیے بھی ہر چیز پر کمر توڑ ٹیکس اور مزید سودی قرضوں کے جال کی صورت میں ادا کررہے ہیں۔ کاروبار بند ہورہے ہیں، بے روزگاری اور مہنگائی بڑھ رہی ہے اور تعلیم و صحت کی سہولیات اورتوانائی کا حصول عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوچکا ہے۔
اصل تبدیلی اس وقت تک نہیں آسکتی جب تک کہ وہ بنیاد سے نہ لائی جائے اور جب تک کہ وہ ہمہ گیر نہ ہو۔ اس حوالے سے حقیقی معاشی انقلاب کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس حکم کو نافذ کرنا انتہائی ضروری ہے: كَىۡ لَا يَكُوۡنَ دُوۡلَةًۢ بَيۡنَ الۡاَغۡنِيَآءِ مِنۡكُمۡؕ یعنی "تا کہ دولت تمہارے دولت مندوں کے ہاتھوں میں ہی نہ گھومتی رہے"(الحشر، 59:7)۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے معیشت کے حوالے سے تفصیلی احکامات دیے ہیں جس میں مویشیوں، فصلوں اور پھلوں، کرنسی اور تمام اقسام کے تجارتی مال پر زکوۃ اور زرعی زمین پر خراج اور فصل پر عشر کی وصولی، تیل وگیس اور معدنیات کے ذخائر کو عوامی ملکیت اور سونے و چاندی کو کرنسی قرار دینا، سود کی مکمل ممانعت، انکم ٹیکس و جنرل سیلز ٹیکس جیسے غیر شرعی ٹیکسوں کی ممانعت، تجارتی و مینیوفیکچرنگ کمپنی کا اسلامی ڈھانچہ اور ریاست کا کثیر سرمایے سے چلنے والی انڈسٹری کو خود چلانا شامل ہیں۔ ان اور ان جیسے دیگر تمام احکامات پر مبنی اسلام کا مکمل اور ہمہ گیر معاشی نظام اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس ذکر کردہ حکم پر عملدرآمد کو یقینی بناتا ہے جس کے نتیجہ میں دولت چند ہاتھوں میں مرکوز ہونے کی بجائے لوگوں میں منصفانہ طور پر تقسیم ہو جاتی ہے، جو لوگوں کی ضروریات کو پورا کر دیتی ہے۔
لہٰذا ایک اسلامی ریاست ہی تمام شہریوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی گارنٹی دیتی ہے، اس سے قطع نظر کہ معاشی اشاریے کیا منظر کشی کر رہے ہوں، کیونکہ ایک اسلامی ریاست کا مطمہ ٔ نظر عوام کی ضروریات کو پورا کرنا ہوتا ہے، نہ کہ ایسے معاشی اشاریوں کو بہتر بنانا جن کا عوام کی اصل معاشی حالت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا صرف ایک اسلامی ریاست ہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کو معیشت کے میدان میں نافذ کر تی ہے، غریب عوام پر کسی بھی قسم کا کوئی بھی بوجھ ڈالے بغیر محصولات جمع کرتی ہے اور ایک مضبوط و سرگرم معیشت کو یقینی بناتی ہے جیسا کہ اس سے قبل کئی صدیوں تک کیا جاتا رہا۔ معاشی محاذ پر مسلمانوں کی ریاست خلافت ایک زبردست معیشت ہوا کرتی تھی اور دنیا اسے رشک کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ اس کی کرنسی سونا اور چاندی تھی جس کی وجہ سے قیمتیں مستحکم رہتی تھیں۔
آج جب مسلمان خلافت کے خاتمے کے ایک سو ہجری سال مکمل ہونے کی یاد میں اظہارِ افسوس کر رہے ہیں، جسے رجب 1342 ہجری بمطابق مارچ 1924 میں ختم کیا گیا تھا، یہ بات تیزی سے واضح ہوتی جارہی ہے کہ تبدیلی کا صرف ایک ہی راستہ ہے، جو کہ مسلمانوں کا اپنا نظام یعنی خلافت کا نظام ہے۔ یہی نظام دراصل موجودہ سیاسی و معاشی آڈر میں حقیقی تبدیلی برپا کرنے کا نام ہے۔