Wiladat e Hazrat Ali
ولادت حضرت علیؑ
شیروں کے شیر، اللہ کے شیر مو لا علی مرتضٰی شیرِ خدا کی ولادت باسعادت 31 رجب المرجب کوجمعہ کے دن اللہ تعالیٰ کے گھر خانہ کعبہ میں ہوئی۔ آپ ؑکی والدہ حضرت فاطمہ بنتِ اسد کعبہ شریف میں داخل ہوئیں او ر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا فرمائی کہ اومی و محافظ میرے درد کو آسان فرما دے۔ اچانک ہی کعبہ کی دیوار کھل گئی۔ اور وہ گویا کسی غیبی قوت کے ذریعہ اندر گئیں اور دیوار بند ہو گئی۔ آپ تین دن تک اندر رہیں اور تین دن کے بعد جب باہر آئیں تو آپ کی گود میں حضرت علی ؑ تھے۔
آ پ ؑ کی کنیت ابو تراب، ابو الحسن اور حسین تھی۔ حضرت علی ؑ کی ولادت کے بعد جب آپ نے آنکھ کھولی تو رسول اللہ ﷺ کی آغوش میں تھے۔ حضرت علی ؑ کی پرورش اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول حضر ت محمد مصطفی ٰﷺ نے خود فرمائی۔ اور جس کی پرورش کرنے والا خود اللہ کا رسول ؐہو ان کی شان کتنی نرالی ہو گی؟
آپ ؑ کے والد ماجد کا نام حضرت ابو طالب ؑ ہے اور حضرت ابو طالب ؑ کی شان اتنی بلند ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول ﷺ کی پرورش علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے والد، حضرت ابو طالب ؑ نے فرمائی۔ اور ہمیشہ حق کا ساتھ دیا۔ اپنی پوری زندگی رسول اللہ ﷺ کی حفاظت میں گزار دی۔ دشمنوں کے طعنے سہ لیے مگر اپنے بھتیجے کا ساتھ نہ چھوڑا اور اس وقت میں حق کا ساتھ دیا جب ہر طرف کفر ہی کفر تھا۔
امیر المومنین سیدنا علی ا بنِ ابی طالب ؑ ایک ایسی نادر روزگار شخصیت ہیں جو اپنی خصوصیات اور خصائل کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہیں۔ حضرت علی علیہ الصلاۃ والسلام، داماد ِمصطفیٰ ؐبھی ہیں اور شیر خدا بھی۔ عبادت و ریاضت میں یکتا ہیں اور فصاحت و بلاغت میں بے مثال بھی۔ وہ علم کی دولت سے مالا مال ہیں اور حلم آپ کی طبیعت کا خاصہ۔ فاتح خیبر بھی ہیں اور شہنشاہِ خطابت بھی۔ آپ حیدر ِکرار بھی ہیں اور صاحب ِذوالفقار بھی۔ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے شوہرِ نامدار بھی ہیں اور حسنین کریمین ؑکے والدِ بزرگوار بھی۔
آپ میں بہت سے ایسے کمالات اور خوبیاں جمع ہیں جو آپ کو دیگر تمام صحابہ کرام سے ممتاز کرتی ہیں، اس لیے آپ کو مظہر العجائب والغرائب بھی کہا جاتا ہے۔ امیر المومنین سیدنا علی ؑ کی فضیلت میں اتنی احادیث موجود ہیں کہ شاید ہی کسی اور صحابی کی شان میں وارد ہوئی ہوں۔ شاگرد امام اعظم امام محمد فرماتے ہیں، جتنی حدیثیں آپ کی فضیلت میں ہیں اتنی احادیث کسی اور صحابی کی شان میں وارد نہیں ہوئیں۔
حضور اکرم ﷺ نے حضرت علی ؑ کو حضرت ہارون کی طرح اپنا بھائی قرار دیا۔ بخاری و مسلم میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی کو مدینہ طیبہ میں رہنے کا حکم ارشاد فرمایا، تو حضرت علیؑ نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ آپ مجھے عورتوں اور بچوں پر اپنا خلیفہ بناکر کر چھوڑے جا رہے ہیں، گویا حضرت علیؑ کی خواہش تھی کہ وہ مدینہ منورہ میں رہنے کی بجائے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر دادِ شجاعت دیتے اور اپنی شمشیرِ خاراشگاف سے دشمنوں کے سر قلم کرتے۔
جس پر حضور ﷺ نے فرمایاکہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میں تمہیں اس طرح چھوڑے جارہا ہوں جس طرح حضرت موسیٰؑ حضرت ہارونؑ کو چھوڑ کر گئے تھے، فرق صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔ ترمذی میں حضرت امِ سلمیٰ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ منافق علی سے محبت نہیں کرتا اور مومن علی سے بغض و عداوت نہیں رکھتا۔ جبکہ مشکوٰۃ شریف میں حضرت ام ِسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، جس نے علی ؑکو برا بھلا کہا اس نے مجھے برا بھلا کہا۔
تاریخ الخلفاء میں حضرت ابو طفیلؓ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت علی ؑ نے ایک کھلے میدان میں بہت سے لوگوں کو جمع کرکے پوچھا، کہ میں تمہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے یومِ غدیرِخُم کے موقع پر میرے متعلق کیا ارشاد فرمایا تھا؟ اس مجمع میں سے کم و بیش تیس افراد کھڑے ہوئے اور انہوں نے گواہی دی کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا تھا جس کا میں مولا، علیؑ اس کا مولا۔ یااللہ جو شخص علی ؑسے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ اور جو شخص علیؑ سے عداوت رکھے تو بھی اس سے عداوت رکھ۔ لیکن حضرت علیؑ کی علمی شان سب سے جداتھی۔
حضرت امام علی ؑ کو 19 رمضان المبارک میں ضرب لگی اور آپ ؑ نے بروز 21 رمضان المبارک کو شہادت نوش فرمائی۔
حضرت عمر بن میمون رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس حاضر تھا کہ 9 افراد پر مشتمل ایک وفد آیا اور حضرت ابن ِعباس سے الگ ہوکر کچھ باتیں کیں۔ کہ جب وہ چلے گئے تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ اس شخص کی غیبت کر رہے تھے جس کو دس خصوصیات حاصل ہیں۔ پھر آپ نے وہ خصوصیات بیان فرمائیں۔
فرمایا کہ قلعہ خیبر کو فتح کرنے کے لیے یہ جھنڈا دیتے وقت رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں یہ پرچم اس شخص کو دوں گاجو اللہ اور اس کے رسول ؐسے محبت کرتا ہے اور اللہ تعالی ٰکبھی بھی اس کو شرمندہ نہیں فرمائے گا۔
ایک غزوہ سے واپسی پر سورۃ توبہ کی برات کی آیات نازل ہوئیں۔ تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو وہ آیات طیبات دے کر روانہ فرمایا ساتھ ہی حضرت علی ؑکو ان کے پیچھے روانہ کیا اور ارشاد فرمایا کہ اعلانِ برات کے ساتھ فقط وہ شخص جائیگا جو مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔
حضرت علی ؑ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے سیدنا امام حسنؑ، سیدنا امام حسینؑ، سیدہ فاطمۃ الزہراؑ، اور سیدنا علیؑ کو بلا کر ان پر چادر پھیلائی اور یہ دعا فرمائی یا اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے ہر طرح کی ناپاکی دور فرما دے اور خوب پاک فرما دے۔ حضرت علی ؑ وہ شخص ہیں جو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بعد اسلام لائے۔
حضرت علیؑ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ شبِ ہجرت رسول اللہ ﷺ کی چادر اوڑھ کر آپ کے بستر پر سو گئے تھے۔ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے پکارا یا رسول اللہ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ تشریف لے گئے ہیں۔ یوں ساری رات بسترِ رسالت پر آرام فرما رہے اور سرکارِ دو عالم ﷺ ہجرت کر کے مدینہ پاک تشریف لے گئے۔
غزوہ تبوک کی طرف روانگی کے موقع پر حضور اکرم ﷺ نے حضرت علی ؑکو موسیٰؑ کے بھائی ہارون کی مانند اپنا بھائی قرار دیا۔ ساتویں خصوصیت یہ ہے کہ مسجد نبویؐ میں کھلنے والے تمام حجروں کے دروازے بند کردیئے گئے لیکن حضرت علیؑ کا دروازہ کھلا رہا۔
حضرت علیؑ واحد صحابی ہیں جن کے متعلق سرکارِ دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کا میں ولی، اس کا علیؑ ولی۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اللہ نے ہمیں قرآن میں خبر دی کہ وہ درخت تلے بیعت کرنے والوں سے راضی ہوگیا۔
فرمایا کہ حضرت علیؑ اصحابِ بدر میں سے تھے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالی نے اہلِ بدر کے متعلق فرما دیا کہ تم جو چاہو کرو میں نے تمہاری مغفرت کردی۔ (السنن الکبری النسائی۔ حدیث نمبر 8355)۔