Saneha Murree
سانحہ مری
مری پاکستان کے ان سیاحتی علاقوں میں سے ایک ہے، جہاں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد چھٹیاں منانے اور ٹھنڈے موسم سے لطف اندوز ہونے کے لیے جاتی ہے۔ قبل ازیں تو صرف گرمیوں کے موسم میں مری جانے کا رواج ہوا کرتا تھا اور سردیوں کے موسم کاروبار کے اعتبار سے ٹھنڈے دن شمار کیے جاتے تھے۔ لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے برفباری دیکھنے کیلئے مری جانے کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
ان دنوں ملک کے طول و عرض سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد اپنی فیملیوں کے ہمراہ مری کی سیر کے لیے جاتے ہیں اور وہاں پر برفباری کے مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح مری میں بھی انتظامی صورتحال کو مثالی قرار نہیں دیا جاسکتا، اس طرح امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے مختلف واقعات سننے کو ملتے ہیں۔ انتظامی طور پر مری کی استعداد کار میں اضافے کا کوئی مناسب بندوبست نہیں کیا گیا لیکن سیاحوں کی آمد میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔
جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہاں پر انتظامیہ کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے اور اگر ہے بھی تو صرف ہوٹل مافیا کی ملی بھگت سے سیاحوں کو لوٹنے کے عمل کے سوا اور کچھ نہیں، انتظامیہ کسی بھی جگہ دکھائی نہیں دیتی۔ اور اسی نااہلی اور سنگین غفلت کے باعث ایک انسانی المیہ وقوع پزیر ہوا۔ جس میں آخری اطلاعات آنے تک 21 سے زیادہ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور عالمی سطح پر ملک کی جو بدنامی ہوئی وہ الگ سے ہے۔
انتظامیہ کو خوب اندازہ تھا کہ مری میں کتنی گاڑیاں داخل ہو چکی ہیں اور وہاں پر استعداد کتنی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ابتدائی طور پر گاڑیوں کے داخلے پر پابندی عائد کی گئی، لیکن ہوٹل مافیا نے اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے اعلیٰ افسران پر دباؤ ڈال کر راستے کھلوا دیے، اس کے بعد وہ ہوا جو نہ ہوتا تو اچھا ہوتا۔ مری کی صورت حال کو مانیٹر کرنے کے لیے قائم کنٹرول روم کے ذرائع کے مطابق شہر میں 1 لاکھ سے زائد گاڑیاں داخل ہوئیں اور لوگ گاڑیاں سڑکوں پر کھڑی کرکے چلے گئے۔
کنٹرول روم ذرائع کے مطابق مری میں رات سے بجلی کی فراہمی بند ہے، گاڑیاں سڑکوں پر ہونےکی وجہ سے امدادی سرگرمیوں میں مشکلات کا سامنا ہے، ہیوی مشینری سے برف کی کٹائی کا عمل جاری ہے۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ مری میں گاڑیوں میں لوگ چھوٹے بچوں کے ساتھ پھنسے ہوئے ہیں اور گاڑیوں میں لوگوں کے پاس کھانے پینے کے لیے سامان بھی نہیں ہے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ رات سے ایک ہزار گاڑیاں مری میں پھنسی ہوئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مری میں گاڑیوں میں 16 سے 19 افراد کی گاڑیوں میں اموات ہوئی ہیں۔
شیخ رشید کا کہنا ہے کہ مری میں ایف سی اور رینجرز کو بھی امدادی کارروائیوں کے لیے طلب کر لیا گیا ہے، اس کے علاوہ پاک فوج کے دستے بھی طلب کر لیے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مری جانے والے تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں، صرف کمبل، ادویات اور کھانے پینے کا سامان لے جانے والوں کو جانے کی اجازت ہو گی، پیدل جانے والوں کے لیے بھی راستے مری اور نتھیا گلی کے درمیانی راستے میں ہی برفباری کے باعث سیکڑوں گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں اور سرحدی علاقہ ہونے کی وجہ سے نا تو پنجاب اور نا ہی کے پی حکومت کی انتظامیہ موقع پر پہنچی ہے۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ مری اور نتھیا گلی کے مقام پر بھی گاڑیوں میں کئی افراد کی اموات کی اطلاعات ہیں اور اس وقت بھی بڑی تعداد میں لوگ گاڑیوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب ڈپٹی کمشنر ایبٹ آباد کیپٹن ندیم کا کہنا ہے کہ گلیات میں برفباری میں سیاحوں کے پھنسنے کے باعث کوئی اموات نہیں ہوئی، مقامی انتظامیہ سڑک کھولنے اور پھنسے سیاحوں کو ریلیف فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ مری آفت زدہ قرار، ایمرجنسی نافذوزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے مری کی صورت حال کا نوٹس لیتے ہوئے اعلیٰ حکام اور پی ڈی ایم اے کو طلب کر لیا ہے اور سرکاری دفاتر اور ریسٹ ہاؤسز کو عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے مری میں پھنسے افراد کو تمام تر سہولیات فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے اور ساتھ ہی انہوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ موجودہ صورت حال میں مری کا رُخ کرنے سے گریز کریں۔ حکومت پنجاب نے مری کو آفت زدہ قرار دیتے ہوئے ایمرجنسی نافذ کر دی ہے اور تمام متعلقہ محکموں کو ہر ممکن اقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ سڑکوں پر برف ہٹانے کیلئے نمک پاشی جاری ہے۔
دوسری جانب ذرائع کا بتانا ہے کہ 10 سے 12 گاڑیاں کلڈنہ کے مقام پر پھنسی اور ابتدائی معلومات کے مطابق ایک ہی خاندان کے 10 افراد کی اموات کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ مری میں اس سال ہونے والی برفباری کو 10 سالوں کی شدید برفباری قرار دیا جا رہا ہے اور اس دوران ہونے والی اموات کو مری کی تاریخ کا سب سے المناک واقعہ بتایا جا رہا ہے۔ مری اور گلیات میں سڑکوں پر جمی برف کو ہٹانے کے لیے نمک پاشی کی جا رہی ہے تاکہ برف پگھلے تو سڑکیں کھولی جا سکیں۔"حکومت کی سیاحوں سے مری اور بالائی علاقوں کو نہ جانے کی اپیل ہے"۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا کہ لاکھوں گاڑیاں مری اور دیگر بالائی علاقوں کی جانب جا رہی ہیں۔ فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو سہولیات پہنچانا ناممکن ہے، جن لوگوں نے بالائی علاقوں کی سیر کا پلان بنایا ہے ان سے درخواست ہے کہ اپنے پلان کچھ روز کے لیے مؤخر کر دیں۔ پاک فوج کی امدادی کارروائیاں، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق مری میں پاک فوج کے جوان امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
جھیکا گلی اور گھڑیال روڈ کو کھول دیا گیا ہے جبکہ ایف ڈبلیو او کے اہلکار دیگر بند راستوں کو کھولنے میں مصروف ہیں۔ پاک فوج کے جوان امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج کی جانب سے مری میں پھنسے سیاحوں کو کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات بھی فراہم کی جا رہی ہیں اور انہیں نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق مری میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 17 انچ تک برف پڑ چکی ہے اور 3 جنوری سے اب تک 32 انچ برفباری ریکارڈ کی جا چکی ہے۔
محکمہ موسمیات کے حکام کا کہنا ہے کہ مری میں 94 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی اور مری میں آج بھی پہاڑوں پر برفباری اور بارش کا سلسلہ جاری رہنےکا امکان ہے۔ سانحہ مری پر سیاسی جماعتوں کا رد عمل۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہبازشریف کا مری اور گلیات میں رش میں پھنسی گاڑیوں میں اموات پر رنج وغم اور افسوس کااظہارکیا ہے۔ مری اورگلیات میں ٹریفک رش میں پھنسی گاڑیوں میں شہریوں کی اموات انتظامی نااہلی اور مجرمانہ غفلت کا دردناک واقعہ ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ یہ اس حکومت کی انتظامی صلاحیت کا عالم ہے کہ مری اور گلیات میں ٹریفک انتظامات کرنے کے قابل بھی نہیں، جب حکومت کو پتا تھا کہ شہری اس قیامت خیز سردی میں پھنسے ہوئے ہیں، تو انہیں بچانے اور محفوظ مقامات تک پہنچانے کی کوشش کیوں نہ ہوئی؟ اگر حکومت ایک ہزار گاڑیوں کے انتظام کی بھی صلاحیت نہیں رکھتی، تو پھر اسے اقتدار میں رہنے کا کیا اور کیوں حق ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہبازشریف کا مری اور گلیات میں رش میں پھنسی گاڑیوں میں اموات پر رنج وغم اور افسوس کااظہارکیا ہے۔ مری اورگلیات میں ٹریفک رش میں پھنسی گاڑیوں میں شہریوں کی اموات انتظامی نااہلی اور مجرمانہ غفلت کا دردناک واقعہ ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ یہ اس حکومت کی انتظامی صلاحیت کا عالم ہے کہ مری اور گلیات میں ٹریفک انتظامات کرنے کے قابل بھی نہیں جب حکومت کو پتا تھا کہ شہری اس قیامت خیز سردی میں پھنسے ہوئے ہیں تو انہیں بچانے اور محفوظ مقامات تک پہنچانے کی کوشش کیوں نہ ہوئی؟
اگر حکومت ایک ہزار گاڑیوں کے انتظام کی بھی صلاحیت نہیں رکھتی تو پھر اسے اقتدار میں رہنے کا کیا اور کیوں حق ہے؟ قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ اگر سیاح اتنی بڑی تعداد میں جا رہے تھے تو حکومت کو کیوں پتہ نہ چلا؟ انتظامیہ کہاں سوئی ہوئی تھی؟ پیشگی انتظامات کیوں نہ کئے گئے؟ جو حکومت رش میں پھنسے اپنے شہریوں کو نہیں بچاسکتی وہ مہنگائی کی دلدل سانہوں نے کہا کہ جو حکومت ایک ہزار گاڑیوں کا مسئلہ حل نہیں کرسکتی وہ ملک کےبڑے اور سنگین مسائل سے کیونکر نمٹ سکتی ہے؟ انہوں نے مطالبہ کیا کہ کم ازکم اس سنگین مجرمانہ غفلت کے ذمہ داروزیراور ماتحتوں کو ہی برخاست کیاجائے۔
بلاول بھٹو زرداری کا رد عمل، مری میں مسافروں کے جاں بحق ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مری میں افسوسناک سانحے پر پورا ملک سوگوار ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے بیان میں کہا کہ بہتر ہوتا مری میں سیاحوں کو سنگین صورت حال سے آگاہ کیا جاتا تاکہ ایسا سانحہ رونما نہ ہوتا، انتظامیہ سیاحوں کی فی الفور مدد کے لیے ہنگامی اقدامات کرے۔ ادھر پاکستان مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ مری میں دردناک واقعہ نے دل دہلا کے رکھ دیا ہے، حکومت کو کوسنے کا کوئی فائدہ نہیں، یہ بہت پہلے مرچکی ہے، اللہ تعالیٰ مرحومین، ان کے ورثا اور پاکستان پر خصوصی رحم فرمائے۔
سانحہ مری کی وجہ سے پورا پاکستان شدید ذہنی کرب سے گزر رہا ہے۔ پاکستان کے طول و عرض سے تعلق رکھنے والے لوگ انتظامیہ کی غفلت پر شدید برہم ہیں۔ اس مشکل موقع پر ایک مرتبہ پھر پاک فوج نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ پاک فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں نے شدید موسمی حالات کی پرواہ کیے بغیر برف میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
جب کہ پاک فوج پر تنقید کرنے والے عناصر گرم بستر میں بیٹھ کر ٹویٹ کرنے میں مصروف ہیں جبکہ فوج کے بعد اور جوان اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر مسافروں کو اس مصیبت سے نکالنے کے لئے مصروف عمل ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہیں ہیں کہ آئندہ کے لئے مناسب پلاننگ کی جاے۔ سیاحوں کی آمدورفت کو مانیٹر کیا جائے۔ مری اور دیگر سیاحتی علاقوں میں آنے جانے کا ایک مقصد کیا کیا جائے۔
آئندہ اس نوعیت کے سانحات سے بچنے اور نمٹنے کیلے درج ذیل تجاویز پیش خدمت ہیں، ان پر عمل کرنے سے مستقبل میں انسانی جانوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ ریسکیو سنٹرز کا قیام، اسلام آباد سے مری تک ہر دس کلو میٹر پر ریسکیو سنٹر بناے جائیں، جہاں پر تمام طبی سہولیات موجود ہوں۔ ان جگہوں پر سڑک صاف کرنے والی مشینری اور دیگر آلات موجود ہوں۔ متبادل راستوں کی تعمیر، موجودہ حکومت سیاحت کے فروغ کے دعوے تو بہت کرتی ہے لیکن عمل درآمد صفر ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ اسلام آباد سے مری تک متبادل راستے تعمیر کئے جائیں۔ تاکہ مربع راستوں پر ٹریفک کا دباؤ کم ہو، اسلام آباد سے مری تک ون وے ٹریفک کے نظام کو لاگو کیا جاے۔ بڑے ہالوں کی تعمیر، اسلام آباد سے مری تک ہر دس کلو میٹر پر بڑے ہال تعمیر کیے جائیں، جن میں ایک ہزار افراد کے قیام کا بندوبست ہو۔ تاکہ اس نوعیت کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنا ممکن ہوسکے۔
مری سمیت تمام سیاحتی مراکز پر ہیلی کاپٹر سروس شروع کی جائے اور مختلف مقامات پر ہیلی کاپٹر کی لینڈنگ کیلئے مناسب انتظامات کیے جائیں۔ یہ انتظامات مری مری سوات کاغان ناران اور ملک کے دیگر سیاحتی علاقوں میں بھی کیے جایں۔ اس سانحہ کے موقع پر پوری قوم نے میاں شہباز شریف اور چودھری پرویز الٰہی کو خوب یاد کیا جن کے ادوار میں مناسب اقدامات کے باعث اس طرح کے سانحات وقوع پذیر نہ ہوئے۔
پاکستان کے تمام صوبوں میں مختلف سیاحتی مراکز موجود ہیں لیکن سہولتوں کے فقدان کے باعث وہاں سیاح جانے سے گریز کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ نئے سیاحتی مراکز پر بھی وہی سہولیات فراہم کرے جو مری اور دیگر معروف مراکز پر موجود ہیں۔ وہاں پر اچھے اور معیاری ہوٹلز تعمیر کیے جائیں۔ اور لوگوں کی جان ومال کے تحفظ کیلئے سیکیورٹی کے انتظامات ہو۔ عوام کو ہوٹل مافیا کی لوٹ مار سے بچانے کے لیے سخت ترین انتظامات موجود ہوں۔