Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Farooq Bahaul Haq
  4. Qaum Ya Hajoom

Qaum Ya Hajoom

قوم یا ہجوم

یوں لگتا ہے جیسے ہمارے معاشرے میں انسانیت سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے، حیوانیت انسانیت پر حاوی ہو رہی ہے، عدم برداشت کا جذبہ برداشت کی طاقت پر غالب آ چکا ہے، دلیل کی جگہ گالی نے لے لی ہے، تحمل کو بزدلی، برداشت کو بے غیرتی کہا جانے لگا ہے۔ رحمت عالم ﷺ کے دین کو عام آدمی کے لیے زحمت کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ محبت اور نفرت کے معیار بدل رہے ہیں۔ نعروں کا محل اور مفہوم بدل گیا ہے۔ جو نعرے اپنے ایمان کی پہچان کیلے لگاے جاتے تھے اب معصوم لوگوں کی جان لینے کیلے بلند کیے جاتے ہیں۔

مذہبی طبقے کو تو ایک طرف چھوڑ دیں۔ یہاں اعلیٰ ترین عدالت بھی اپنے فیصلوں کا آغاز من پسند افسانوں کے اقتباسات سے کرتی ہیں۔ فیصلوں کے درمیان ایسی ضرب الامثال کا استعمال کیا جاتا ہے جو ضرب المثل کے بجائے طنز لگتی ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ اسلام کی نمائندگی وہ لوگ کر رہے جو دین کی مبادیات سے آگاہ نہیں، رسول اللہ ﷺکے فرامین کے مفہوم سے وہ بے خبر ہیں، ان نیم خواندہ لوگوں نے پورے ملک کو ایک ایسی کھائی میں دھکیل دیا ہے جہاں سے نکلنا بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔

جس صورتحال سے ہم دوچار ہیں سینکڑوں سال پہلے یورپ بھی اسی صورت حال سے گزرا تھا۔ وہاں کے مذہبی طبقات اور حکومت کے مابین اختیار اور اقتدار کی جنگ جاری رہی۔ اس جنگ میں کبھی بادشاہت غالب رہی تو کبھی چرچ۔ پھر عوام نے اس باہمی آویزش سے تنگ آ کر جمہوریت کا راستہ اختیار کیا۔ اب بادشاہت بے اختیار اور مذہب بے اثر ہے۔ وہاں کے چرچ قابل فروخت اور مذہب کا عمل داخل واجبی سا رہ گیا ہے۔

اگر یہی حالات رہے تو میں پاکستان کی دہلیز پر ایک ایسے ہی انقلاب کی دستک سن رہا ہوں۔ یہ انقلاب نہ مذہب کی سنے گا اور معاشرتی اقدار کی پروا کرے گا۔ مذہب بیزاری کے اس انقلاب سے مساجد، مدارس اور آستانوں کو جو خطرات لاحق ہوں گے (خاکم بدہن)انکا تصور ہی لرزا دینے کیلے کافی ہے۔ انتہا پسندی، جھالت کے نتیجے میں وقوع پزیر ہونے والے سانحہ سیالکوٹ نے انسانیت کو شرمندہ کردیا ہے۔ تاہم یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل ستمبر 2010 سیالکوٹ میں ہی دوحافظ قرآن بھائیوں حافظ مغیث اور حافظ منیب کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ ان کی لاشوں کی سڑکوں پر بے حرمتی کی گئی۔ لوگ گرفتار ہوئے۔

گوجرانوالہ کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزمان کو سزائے موت دی اور کچھ کو دس سال قید بامشقت۔ لاہور ہائی کورٹ نے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔ اور جسٹس کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے عمر قید کو10 سال میں تبدیل کر دیا۔ قاتلوں کے ساتھ عدالتوں کے اس رویے نے دہشت پسندوں کو اور شہ دی۔ دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ 2010میں ہی سری لنکن شہری پریانتھا کمآرا سیالکوٹ آیا۔ کسے پتا تھا کہ جس مقتل میں دو حافظ قرآن قتل ہوے وہی شہر اس کی قتل گاہ بنے گا۔ پھر کوٹ رادھا کشن میں مزدوروں کو جلتے ہوے بھٹے میں جلا دیا گیا اور انسانیت سسکتی رہی، درندگی کا یہ رویہ صرف جھلا میں نہیں بلکہ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ افراد کسی سے پیچھے نہ رہے اور مشال خان کو یونیورسٹی کے طلبہ نے اجتماعی طور پر قتل کردیا۔

ملزمان اس شان سے رہا ہوے کہ ایک سیاسی جماعت نے ہزاروں لوگوں کے ہمراہ انکا استقبال کیا۔ یہ محض تین مثالیں ہیں۔ اب تک 100سے زائد بے گناہ افراد اس اجتماعی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ سانحہ سیالکوٹ نے ہر دل دکھی کردیا ہے پوری قوم شدید صدمے کے عالم میں ہے۔ ایک انسان میں اتنی وحشت کیسے آ سکتی ہے کہ ایک بے گناہ شخص کی چیخیں اسکے دل کو نرم نہ کر سکیں۔ کوئی ہجوم اتنا بے رحم کیسے ہو سکتا ہے کہ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے ہوئے بے بس شخص کو جلا کر کوئلہ کردیں۔ سفاکیت، بربریت، اور وحشت جیسے استعارے کم لگنے لگے ہیں۔ میں تو خود سے آنکھیں نہیں ملا سکا کہ میں ایسے معاشرے میں رہتا ہوں جو انسانوں کو جلا کر راکھ کر دیتا ہے؟

میں اپنے ہم جماعت سری لنکن دوستوں کو تعزیتی فون نہیں کر سکا کہ ان سے کیسے اظہار افسوس کروں گا۔ اس شرمندگی سے دوچار کرنے میں ہماری سیاسی جماعتوں کا بھی بنیادی کردار ہے۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جمیعت علماء سلام، عوامی نیشنل پارٹی نے عوام اور کارکنان کی تربیت میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔ ان جماعتوں کے لیڈران نے زاتی تشہیر کیلے پورے برگیڈ تیار کردیے ہیں۔ ٹویٹر پر خاتون اول، اور مسلم لیگی خاتون راہنما کے خلاف بےہودہ ٹرینڈ چلاے گیے لیکن قائدین نے انکی تربیت کے بجاے انکی پیٹھ ٹھونکی۔ یہ سب جماعتیں مختلف اوقات میں اقتدار پر فائز رہ چکی ہیں لیکن۔ کسی جماعت نے بھی عوام کو نیوٹرل کرنے کے لیے تربیت کا اہتمام نہیں کیا۔ اور اسکی زمہ داری ایوب، یحیئ، ضیا اور مشرف پر ڈال دی جاتی ہے کہ ان ڈکٹیٹروں نے موقع نہیں دیا۔

میرا سوال یہ ہے کہ کیا اخلاقی تربیت کے لیے بھی اقتدار کی ضرورت ہوتی ہے؟ ڈاکٹر امجد ثاقب نے اقتدار کے بغیر اتنا بڑا انقلاب برپا نہیں کیا؟ عبدالستار ایدھی نے حکومت میں آئے بغیر دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس قائم نہیں کی،؟ انصار برنی نے حکومتی طاقت کے بغیر بیرون ملک مظلوم پاکستانیوں کی مدد نہیں کی؟ اخلاقی تربیت کے لیے حکومت کی نہیں، نیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے ہمسایہ ملک میں نظر دوڑائیں، وہاں کے حکمرانوں نے اپنے لوگوں کی ایسی تربیت کی ہے کہ آج مائیکروسافٹ، گوگل، ٹوئٹر اور اس جیسی تمام صنعتوں پر بھارتی شہری براجمان ہیں، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی تمام اہم پوزیشنوں پر بھارتی شہری بیٹھے ہیں، کیا ہماری قسمت میں گڑھی خدا بخش کی مجاوری، رائیونڈ کی غلامی اور بنی گالہ کے نظارے رہ گئے،؟

ان سب سیاسی جماعتوں کی غفلت کی وجہ سے آج یہ حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ کوئی سرمایہ کار پاکستان آنے کے لیے تیار نہیں کوئی صنعت کار پاکستان میں صنعت لگانے پر آمادہ نہیں، سانحہ سیالکوٹ نے تو پاکستان کے سارے راستے بند کر دیے ہیں۔ اس سانحہ نے بیرون ملک 90 لاکھ تارکین وطن کی آنکھیں جھکا دی ہیں، وزیراعظم عمران خان جواب دیں کہ نوّے لاکھ تارکینِ وطن وہاں پر لوگوں کے سوالوں کے جواب کیسے دیں گے؟

خدا کے لئے خواب غفلت سے جاگیں، اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں، مذہبی جماعتیں اسلام کا صحیح رخ اپنے لوگوں کے سامنے پیش کریں، سیاسی جماعتیں کارکنان کی تربیت کے لیے تھنک ٹینک بنایں۔ انہیں سوشل میڈیا ہینڈلنگ کی تہذیب سکھائیں۔ ہمارا ملک ایک خطرناک ترین دور میں داخل ہو چکا ہے، بقول فواد چوہدری معاشرے میں ٹائم بم لگ چکا ہے۔ اگر اس کے لیے مناسب اقدامات نہ کئے گئے تو اس ٹائم بم سے ہونے والے نقصانات سے کوئی بچ نہیں سکے گا۔

Check Also

Haye Kya Daur Tha Jo Beet Gaya

By Syed Mehdi Bukhari