Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Farooq Bahaul Haq
  4. Police Kion

Police Kion

پولیس کیوں؟

ایک زمانہ تھا پولیس خوف اور دہشت کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ دیہاتی علاقے میں اگر کسی گاؤں میں پولیس کا ایک سپاہی چلا جاتا تو پورے کا پورا گاؤں اس کا مطیع و فرمانبردار ہو جاتا۔ پولیس کے خوف کا اثر جرائم پیشہ عناصر پر زیادہ رہتا تھا۔ جس علاقے میں کوئی سخت گیر ایس ایچ او آجاتا، تو جرائم پیشہ عناصر علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے۔ اور عوام سکھ کا سانس لیتے۔ کرپٹ عناصر تو ہر محکمے میں موجود ہوتے ہیں پولیس کا محکمہ بھی ان سے مبرا نہیں۔ تاہم دیگر تمام محکموں کے مقابلے میں مشکل وقت میں محکمہ پولیس ہی سب سے پہلے عوام کے شانہ بشانہ کھڑا ہوتا۔

آج بھی جرائم کے خلاف پہلی فرنٹ لائن پولیس ہی ہوتی ہے پولیس کے لوگ ہی جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں اپنے سینے پر گولیاں کھاتے ہیں اور کچھ اہلکاروں کے لئے ہمیشہ کی معذوری ان کا مقدر ہو جاتی ہے۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پولیس نے ہمیشہ فرنٹ لائن فورس کا کردار ادا کیا۔ ملک کے تمام صوبوں خصوصا پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ہر سطح کے پولیس افسران نے قربانیاں دیں۔ تاہم ان قربانیوں کے باوجود پولیس کا وہ کردار عوام کے ذہنوں میں راسخ نہیں ہو سکا جو دیگر اداروں کا موجود ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ پولیس میں مظلومیت کا عنصر بھی بڑھتا جا رہا ہے۔

ایک طرف تو پولیس کے رعب میں کمی آئی ہے تو دوسری طرف پولیس اہلکاروں پر ظلم و ستم کی نئی کہانیاں بھی پہلی دفعہ منظر عام پر آئی ہیں۔ اس کا آغاز تو موجودہ وزیر اعظم نے 2014 میں کیا تھا۔ جب اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو سرعام پیٹا گیا۔ تحریک انصاف کے دھرنوں میں جس طرح محکمہ پولیس کی رسوائی کی گئی اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ پھر تحریک لبیک کے دھرنے میں یہ صورت حال اور بھی کھل کر سامنے آئی۔ ان دھرنوں کے دوران کئی پولیس اہلکار شدید زخمی ہوئے۔ کئی پولیس اہلکار منصب شہادت پر فائز ہوئے۔ سینکڑوں پولیس اہلکار معذوری کا شکار ہوئے۔ اور پھر انکوائریوں کے نام پر محکمانہ سزاؤں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے نے نہ صرف پولیس فورس کا مورال ڈاون کر دیا بلکہ جرائم کے ساتھ لڑنے کا جذبہ بھی سرد ہوتا گیا۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن نے پولیس کے مورال پر کاری ضرب لگائی۔ ایک طرف تو 14 لوگوں کا قتل پولیس کے کھاتے میں پڑ گیا دوسری طرف پولیس کے لوگ ہی عدالتوں اور کچہریوں میں بطور ملزم رسوا ہوتے رہے۔ کچھ افسران نے جیل یاترا کی کچھ نوکری سے برخاست ہوئے۔ لیکن نہ تو چودہ معصوم افراد کا قتل کا معمہ حل نہ ہوسکا اور نہ ہی پولیس والوں کی سزائیں کم ہویں۔ محترمہ بےنظیر بھٹو کے قتل کیس نے بھی پولیس کے مورال پر سخت ضرب لگائی۔ اصل مجرموں کو پکڑنے کے دعوے تو کیے گئے۔ لیکن اس کے ساتھ پولیس اہلکار بھی نہ صرف معتوب ہوے بلکہ عدالتوں سے سزا یافتہ بھی ہوئے۔ کچھ نوکریوں سے برخاست کیے گیے۔۔

کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ بلکہ پولیس ملازمین کی شہادت کے بعد ایک نئے المیہ کا آغاز ہوتا ہے۔ ایک معمولی آدمی بھی قتل ہوجائے تو اس کے قتل کا مقدمہ درج ہوتا ہے۔ ملزمان پکڑے جاتے ہیں ان کو سزائیں ہوتی ہیں۔ لواحقین کے دل میں انتقام کی جلتی ہوئی آگ ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔ لیکن پولیس اہلکار وہ بے بس مظلومین ہیں جن کی شہادت رجسٹر تک نہیں ہوتی۔ ان کے قتل کا مقدمہ درج نہیں ہوتا۔ قتل کرنے والوں کے ساتھ معاہدے ہو جاتے ہیں۔ اور ان معاہدوں میں ان مقتولین کا تذکرہ تک نہیں ہوتا۔ یتیمی کا داغ اپنے ماتھے پر سجائے یہ معصوم بچے ہمیشہ اپنے محکمے اور اپنی قوم کے سامنے سراپا سوال ہی رہتے ہیں میرے باپ کا کیا قصور تھا۔

اس سے بھی زیادہ حیرانگی کی بات یہ ہے کے فیصلہ سازی کے عمل میں پولیس کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ معاہدہ حکومت کرتی ہے۔ معاہدوں کی خلاف ورزی بھی حکومت کرتی ہے، لیکن ان کے نتائج بھگتنے کے لیے پولیس کو سامنے کر دیا جاتا ہے،۔ ریاست مدینہ کے نام پر حکمرانی کرنے والوں کے دور میں چشم فلک نے یہ منظر دیکھا کہ گولیاں برسانے والے بھی عاشقان رسول تھے اور گولیاں کھانے والے بھی غلامان رسول تھےسانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پولیس نے اپنی حکمت عملی کافی حد تک تبدیل کر لی ہے۔ مسلح مظاہرین سے نمٹنے کے لیے بھی ان کے پاس محض لاٹھیاں اور ڈنڈے ہوتے ہیں۔ یا پھر آنسو گیس کے شیل ان کا ہتھیار ہوتے ہیں۔

محکمہ پولیس کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں پر شہداکی ویلفیئر کیلئے اس طرح کے انتظامات موجود نہیں جو فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں میں موجود ہیں۔ پولیس کے پاس نہ تو میں معیاری اسپتال ہیں۔ نہ ہی ان کے بچوں کی تعلیم کے لئے کوئی اچھا سکول۔ تھانوں میں کام کرنے والے تفتیشیوں کے حالات زندگی انتہائی ناگفتہ بہ ہیں۔ ان کی ڈیوٹی کے اوقات کی کوئی حد مقرر نہیں۔ ایک پولیس افسر پروٹوکول کی ڈیوٹی بھی کرتا ہے، جرائم روکنے کے لیے بھاگ دوڑ بھی کرتا ہے، ملزمان کو پکڑنے کے لیے ریڈ کرتا ہے، گرفتار ملزمان سے تفتیش کرتا ہے ان کے چالان عدالت میں پیش کرتا ہے، محکمانہ انکوائری کے لیے افسران بالا کے سامنے پیش ہوتا ہے، تھانوں میں نفری کی تعداد انتہائی کم ہے، موجودہ بدترین معاشی حالات کی وجہ سے جرائم کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، لیکن منظور شدہ نفری وہی ہے جو آج سے کئی سال پہلے مقرر کی گئی تھی۔

آخر کب تک پولیس نشانے پر رہے گی؟ کب تک اس محکمے کے حالات اسی طرح ناگفتہ رہیں گے؟ کب تک پولیس، مظاہرین کی گولیوں کا نشانہ بنتی رہے گی؟ کب تک پولیس، نا اہل حکمرانوں کے غلط فیصلوں کے بھینٹ چڑھتی رہے گی۔ پولیس ہماری پہلی فرنٹ لائن ہے۔ اس کو جدید ہتھیاروں سے مسلح کرنا حکومت وقت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ پولیس کے جوانوں کو جدید تقاضوں کے مطابق تربیت دینا حکومت کے فرائض میں شامل ہے، جس سے وہ پہلو تہی نہیں کر سکتی۔ اب وقت آگیا ہے کہ پولیس کی تنظیم نو جدید تقاضوں کے مطابق کی جاے۔ اس محکمہ کو وہی سہولیات فراہم کی جائیں جو دیگر اداروں کو فراہم کی جا رہی ہیں۔ تب کڑا احتساب ممکن ہے۔

اس تنظیم نو میں صرف یونیفارم تبدیل نہ ہو بلکہ ان کی ذہنی تبدیلی کیلے اقدامات کیے جائں۔ اب اس امر کی بھی اشد ضرورت ہے کہ مظاہرین سے نمٹنے کیلے الگ فورس تیار کی جاے جس کو جدید آلات فراہم کیے جایں۔ جو لوگ سیکیورٹی اداروں پر حملوں اور انکے قتل میں ملوث ہوں انہیں عبرت ناک سزا دی جاے تاکہ پولیس کا بطور ادارہ مورال بحال ہو سکے۔

Check Also

Amjad Siddique

By Rauf Klasra