Pakistan Blacklist Nahi Hoga
پاکستان بلیک لسٹ نہیں ہوگا
پاکستان ایک طویل عرصہ سے عالمی سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی سیاسی اور معاشی حیثیت برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ عالمی طاقتیں مختلف وجوہات کی بنا پر مستقل طور پر پاکستان کو میں دباؤ میں رکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام دنیا کی نظروں میں کھٹک رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے ذریعے مختلف معاشی پابندیوں میں جکڑنے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں سن 2018 میں ڈالا گیا تھا۔ گرے لسٹ میں لانے کے لیے پاکستان پر یہ الزامات عائد کیے گئے تھے کہ پاکستان منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو مالی امداد دینے میں ملوث ہے ان معاملات کی چھان بین کے لیے نومبر 2017 میں انٹر نیشنل کارپوریشن ریویو گروپ کا اجلاس ارجنٹینا میں ہوا جس میں پاکستان سے متعلق ایک قرار داد پیش کی گئی جس میں پاکستان کی جانب سے لشکر طیبہ جیش محمد اور جماعت الدعوہ جیسی تنظیموں کو دی جانے والی حمایت کی طرف توجہ دلائی گئی۔
انٹرنیشنل لوگوں نے 40 نکات پر مشتمل سفارشات مرتب کی جو حکومت پاکستان کے حوالے کی گئی۔ امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کی سفارش کی گئی جبکہ فرانس اور جرمنی نے بھی اس کی حمایت کی تھی۔ پاکستان کے اس وقت کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے امریکہ اور دیگر یورپی ممالک سے پاکستان کا نام واپس لینے کی درخواست کی گئی لیکن یہ سب سفارتی کوششیں رایگاں گئیں اور 2018 میں پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کر لیا گیا۔ یاد رہے اس سے پہلے بھی پاکستان سن 2013 سے 2016 تک گرے لسٹ کا حصہ رہ چکا ہے۔ گرے لسٹ میں ہونے کی وجہ سے متعلقہ ملک پر عالمی سطح پر مختلف معاشی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ جبکہ عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ بھی روک لیا جاتا ہے۔
پاکستان دشمن ممالک کی جانب سے پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کے لیے مختلف سطح پر سفارتی کوششیں کی جاتی رہیں۔ اور ہر چھ ماہ بعد ہونے والے اجلاس میں میں اس عمل کے لیے لیے بھرپور سفارتی مہم چلائی جاتی کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال کر کر بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے۔ لیکن پاکستان کی حکومت نے اپنے موثر اقدامات اور عملی کوششوں کی وجہ سے بھارت کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا اور عملی اقدامات سے ثابت کیا کہ پاکستان نے دہشت گردی کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کیے ہیں۔ گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے پاکستان نے بہت سے مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کیا۔ اپریل 2019 میں کالعدم جماعت الدعوہ اور اس سے منسلک تنظیمات کومعطل کیا گیا گیا اور ان کے عہدیداروں کو سزائیں سنائی گئیں۔
جولائی 2019 میں حافظ سعید کو گرفتار کیا گیا اور ان پر فرد جرم بھی عائد کی گئی۔ دہشت گردوں کو مالی امداد دینے کے الزام کی نفی کرنے کے لئے حکومت پاکستان نے بینکنگ سسٹم میں مختلف اصلاحات کی۔ بیرون ملک سے آنے والی رقوم کی چھان بین کا ایک نظام وضع کیا۔ اندرون ملک رقم کی تفصیل کے لئے مناسب حفاظتی انتظامات کیے۔ یہاں تک کہ فروری 2021کے ہونے والے اجلاس میں صدر ڈاکٹر مارکوس پلیئر نے اجلاس کے شرکاء کو واضح طور پر بتایا کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے دو ایکشن پلان کل 34 نکات میں سے 30 نکات پر عملدرآمد کر لیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے جون میں جاری کردہ پلان کا مرکزی نقطہ منی لانڈرنگ کی روک تھام تھی جن میں سے صدر مارکوس پلیئر کے مطابق پاکستان نے سات میں سے چار نکات پر عملدرآمد کر لیا ہے جبکہ باقی نکات پر عملدرآمد تیزی سے جاری ہے۔
انہوں نے اپنی گفتگو میں واضح طور پر یہ کہا کہا کہ ایف اے ٹی ایف پاکستان کی کارکردگی پر مطمئن ہے اور پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے پر کوئی بحث یا گفتگو نہیں ہورہی۔ بھارتی لابی نے یہ پروپیگنڈا کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں تاہم ایف اے ٹی ایف کے صدر نے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ اس موضوع پر سرے سے کوئی بات نہیں ہو رہی ہے۔ بریفنگ میں ٹاسک فورس کے صدر نے مزید کہا کہ اس وقت پاکستان کو ایک ساتھ علمدرآمد کے لیے دو ایکشن پلان دیے گئے ہیں جن کے ٹوٹل 34 نکات ہیں۔
ڈاکٹر مارکوس نے کہا پاکستان بدستور مانیٹرنگ کے تحت رہے گا۔ پاکستان کی حکومت نے 34 نکات میں سے 30 پر بڑے پیمانے پر عمل کیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے جون میں منی لانڈرنگ کے خلاف اقدامات کیے گئے۔ مجموعی طور پر پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان سے متعلق اچھی پیش رفت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک صحافی کے اس سوال کے جواب میں کہ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ سیاسی بنیادوں پر ہے؟ ایف اے ٹی ایف کے صدر نے کہا کہ میں کسی وزیر کے بیان پر تو کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔ میں یہ کہوں گا کہ ایف اے ٹی ایف ایک ٹیکنیکل باڈی ہے اور ہم اپنے فیصلے اتفاق رائے سے کرتے ہیں۔ کوئی ایک ملک ایف اے ٹی ایف کے فیصلے نہیں کرتا۔ ایف اے ٹی ایف 39 جورسڈکشنز پر مشتمل ہے اور پاکستان سے متعلق فیصلے بھی اتفاق رائے سے ہوئے ہیں۔
ایف اے ٹی ایف کے صدر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے رواں سال جون میں دیے گئے ایکشن پلان کے سات میں سے چار ایکشن پلانز پر بڑے پیمانے پر پیش رفت کی ہے جس میں معالی معاملات کی اندرونی و بیرونی نگرانی، نان فناشل سیکٹر بزنس، عالمی تعاون کو فروغ دینے کے لیے قانون سازی جیسے اقدامات شامل ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کے صدر نے کہا کہ مجموعی طور پر پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان سے متعلق اچھی پیش رفت کا مظاہرہ کیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے 2018 میں دیے گئے پلان کے 27 میں سے 26 نکات پر بڑے پیمانے پر پیش رفت کی ہے۔ پاکستان نے چند اہم اقدامات کیے لیکن پاکستان کو اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے گئے گروپوں کے سرگردہ افراد کے خلاف تحقیقات اور عدالتی کارروائی کرنا ہو گی۔ ان تمام اقدمات کا مقصد کرپشن اور منظم جرائم پیشہ لوگوں کو اپنے جرائم سے فائدہ اٹھانے سے روکنا ہے۔
صدر ایف اے ٹی ایف کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ پاکستان کی حکومت اس عمل سے متعلق اپنی مضبوط کمٹمنٹ کو جاری رکھے گا۔ خیال رہے کہ اس سال جون میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے اپنے اجلاس کے بعد کہا تھا کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے آخری نکتے پر بھی عمل درآمد کرنا ہو گا اور اس کے ساتھ ہی سات نکاتی نیا ایکشن پلان بھی دیا۔ یہاں پر اس حقیقت کا اظہار فائدہ سے خالی نہ ہوگا گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے عملی اقدامات کے دوران پاکستان کی مسلح افواج نے انتہائی متحرک اور فعال کردار ادا کیا۔
دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے لئے آپریشن کیے۔ حکومت پاکستان کو انٹیلی جنس معلومات فراہم کیں کی دہشت گرد گرفتار کیا گیا۔ ان اقدامات کے دوران ان مسلح افواج کے افسران اور جوانوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیں جنہیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ایف اے ٹی ایف کے نکات پر عملدرآمد کے دوران مسلح افواج کے عملی تعاون کی بدولت آج بھارتی لابی شکست سے دوچار ہوئی اور پاکستان بلیک لسٹ میں جانے سے محفوظ ہو گیا۔ امید کی جاتی ہے کہ آنے والے مہینوں میں پاکستان کے مؤثر اقدامات کی بدولت پاکستان بہت جلد گرے لسٹ سے باہر آ جائے گا۔