Noon League Ki Aazmaish
ن لیگ کی آزمائش
گزشتہ کئی دہائیوں سے اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان جماعت مسلم لیگ ن ان دنوں اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ کچھ غیر مرئی منصوبوں کی تکمیل اور چند ناتمام خوابوں کی تعبیر کی خاطر وہ گناہ بھی اپنے سر لے لیے جو ن لیگ نے کیے ہی نہیں تھے۔
تحریک انصاف کی بچھائی گئی معاشی بارودی سرنگوں کی تباہ کاریوں سے نہ صرف پاکستانی عوام زخمی ہو رہے ہیں، بلکہ مسلم لیگ کے اپنے وجود پر بھی گہرے گھاؤ لگ رہے ہیں۔ ملکوں ملکوں کی خاک چھاننے کے بعد بھی وہ مطلوبہ معاشی نتائج حاصل نہیں کیے جا سکے جسکی توقع تھی۔ دوسری طرف عمران خان نے ناکام لانگ مارچ کے بعد اپنی جماعت کو ایک مرتبہ پھر اکٹھا کیا ہے۔ پشاور میں بیٹھ کر نئی منصوبہ بندی کی ہے۔
پنجاب میں تازہ دم ٹیم میدان میں اتاری ہے۔ جس سے یوں لگتا ہے کہ ملک میں سیاسی فساد کا ایک اور دور شروع ہونے کو ہے۔ پی ڈی ایم کے نام پر بھان متی کا کنبہ گم ہوکر رہ گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد روحانی درجات کی بلندی میں مصروف ہیں۔ جبکہ اس سیاسی ڈرامے کے لکھاری جناب آصف علی زرداری مہنگائی، تیل کی قیمتوں میں اضافوں کے شور سے کہیں دور کسی گوشہ عافیت میں بیٹھے، شہباز شریف اور ان کی جماعت کی بے بسی پر مسکرا رہے ہیں۔
ان کے فرزندِ دلبند بلاول بھٹو زرداری وزارت خارجہ کے منصب پر فائز ہو کر ملکوں ملکوں کی سیر میں مصروف ہیں۔ پیپلزپارٹی نے بطور جماعت مہنگائی کے فیصلوں سے عملاً دوری اختیار کی ہوئی ہے، بلکہ نجی محفلوں میں وہ سرعام کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ یہ فیصلے شہباز شریف کے ہیں اور ان کے نتائج بھی شہباز شریف کو بھگتنا ہوں گے۔
یہ سیاسی خلفشار اتنا ہمہ جہت ہے کہ ملک کے تمام ادارے مختلف سمتوں میں سفر کر رہے ہیں، اور کسی بھی موقع پر یکسوئی نظر نہیں آتی۔ عدالت کا ایکٹیوازم ایک مرتبہ پھر ماضی کے نقش قدم پر گامزن ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں وزیراعظم اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی گرفتاری کی باتیں ہو رہی ہیں۔ حالت یہ ہے کہ کسی بھی عدالت کا ایک فیصلہ پنجاب اور مرکز کی حکومت کو تہہ و بالا کر سکتا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ نے ابھی تک اپنے آپ کو غیر جانبدار رکھنے کا تاثر قائم رکھا ہوا ہے۔ تحریک انصاف کے سوشل میڈیائی کارکنوں نے پاک فوج کے تمام اداروں پر تابڑ توڑ حملوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ کسی شخص کی عزت محفوظ ہے نہ ہی ادارے کا وقار ملحوظ خاطر ہے۔ اس کے باوجود بڑے صبر اور حوصلے کے ساتھ یہ ادارہ اپنی غیرجانبداری برقرار رکھے ہوئے ہے۔
اس حقیقت کے باوجود کہ حکومت سازی میں حائل رکاوٹیں دور کی جاچکی ہیں، الیکشن کمیشن کے ممبران کا تقرر ہو چکا ہے، پنجاب کابینہ تشکیل پا چکی ہے، لیکن اس کے باوجود خوف کے سائے حکومت سے دور ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ مہنگائی کا جن بری طرح بے قابو ہے۔ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے گھریلو بجٹ تتر بتر کر دیا ہے۔
اس پر مستزاد یہ کہ دو دو ہزار روپے کے فیاضانہ اعلان نے نہ صرف پوری قوم کو ہنسنے پر مجبور کر دیا ہے، بلکہ حکومتی شہ دماغوں کی عقل کو بھی اکیس توپوں کی سلامی دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شہباز حکومت کا پاؤںز مین پر نہیں لگ رہا۔ حکومت کے ماتحت کام کرنے والے اداروں کا یہ عالم ہے، شہروں کی صفائی کیلئے بھی غیر ملکی کمپنیوں کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں، جبکہ بڑی سطح کی معاشی پالیسیاں تو ویسے ہی آئی ایم ایف طے کر رہا ہے۔
مسلم لیگ نون کی حکومت نے اپنے مختلف اقدامات سے سول سپرمیسی کے تصور کو بھی بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ قصہ پارینہ بنا دیا ہے۔ جس سے نون لیگ کا ورکر اور ووٹر بھی نالاں اور ناراض ہے۔ معاشی طور پر تباہ حال ملک کی حکومت قبول کرکے مسلم لیگ نون نے ایک بڑا سیاسی جوا کھیلا ہے۔ ابھی تو آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد باقی ہے۔ آئی ایم ایف نے تنخواہ دار افراد پر 30 فیصد ٹیکس عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
جس کے مطابق وہ تمام افراد جو ایک لاکھ سے 10 لاکھ روپے ماہانہ کماتے ہیں، ان پر 30 فیصد فلیٹ ٹیکس عائد کیے جانے کی تجویز ہے۔ اگر یہ ٹیکس لاگو ہو گیا تو ایک لاکھ روپے کمانے والے افراد کی ماہانہ آمدن یکلخت ستر ہزار رہ جائے گی۔ آئی ایم ایف نے ایک لاکھ روپے سے کم ماہانہ آمدنی رکھنے والے افراد پر بھی 20 فیصد ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان تجاویز کے نتیجے میں 96 ارب روپے کااضافی ٹیکس اکٹھا ہو گا۔
اس نوعیت کے دیگر ٹیکسز ملا کر مجموعی رقم 220 ارب روپے تک پہنچنے کا تخمینہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ رقم حکومت پاکستان کے خزانے میں جمع ہونے کے بجائے آئی ایم ایف کے قرض کی رقم یا اس کا سود ادا کرنے کے لیے استعمال ہو گی۔ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ اور مہنگائی کی بدنامی کا تمام تر ملبہ مسلم لیگ نون پر ہی گرے گا۔ بظاہر میاں شہباز شریف تنہا ان تمام عناصر کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ حکومتی اتحادی محض اپنی اپنی وزارتوں تک محدود ہیں۔
آنے والے ڈیڑھ سال میں مسلم لیگ نے اگر مناسب معاشی اقدامات کر کے معیشت کو سہارا نہ دیا، عام آدمی کی زندگی میں آسانیاں پیدا نہ کیں۔ مہنگائی کے منہ زور گھوڑے کی لگام پر ہاتھ نہ رکھا، حکومتی آمدن اور اخراجات میں توازن پیدا نہ کیا تو تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔ یہ فیصلہ آنے والے چند ماہ کر دیں گے کہ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟