Maeeshat Istemar Ke Shikanje Mein
معیشت استعمار کے شکنجے میں
پاکستان میں حکومتی تبدیلی کے سوا کچھ بھی تبدیل نہ ہوا۔ وہی کمزور معیشت کا رونا دھونا ہے۔ وہی بلند بانگ دعوے ہیں۔ وہی بےلگام زبانیں ہیں۔ وہی کرپشن کی داستانیں ہیں۔ وہی ڈنگ ٹپاؤ پالیسی، وہی نعرے اور تقریریں ہیں۔ پاکستانی قوم پر پیٹرول بم گرنے کے بعد تحریکِ انصاف کے لوگ یوں خوش ہیں جیسے انہیں کوئی نعمتِ غیر مترقبہ مل گئی ہو جبکہ پی ڈی ایم کے اراکینِ پارلیمنٹ بڑھ چڑھ کر اس کا دفاع کر رہے ہیں۔
وزیر خزانہ اس وقت پاکستان کی سب سے کنفیوزڈ شخصیت ہیں جنہیں یہ تک پتا نہیں کہ پیٹرول کی قیمتوں نے بڑھنا ہے یا نہیں؟ میرا ماننا یہ ہے کہ پاکستان سمیت پوری دنیا استعماری قوتوں کے شکنجے میں بری طرح پھنس چکی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے حکمران طبقہ اپنے اپنے ملکوں پر اپنی گرفت کھو چکا ہے اور پوری دنیا پر اصل حکومت ان کمپنیوں کی ہے جو یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ کس ملک کے عوام نے کون سی خوراک کھانی ہے اور کس کمپنی کا پانی پینا ہے۔
استعماری قوتوں نے اپنا روپ بدل کر ہمارے ملک پر ایسا غیرمرئی قبضہ قائم کر لیا ہے جس سے نکلنا آسان نظر نہیں آ رہا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی مانند سینکڑوں ایسٹ انڈیا کمپنیاں دنیا کے مختلف حصوں میں بیٹھ کر پوری دنیا پر اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ یہ کمپنیاں جسے چاہتی ہیں، مقبولیت کی اعلیٰ منازل پر فائز کر دیتی ہیں اور جس سے نگاہیں پھیر لیں وہ قابلِ نفرت ٹھہرتا ہے۔ پوری دنیا میں خوراک کے مسائل بڑھ چکے ہیں۔
وہ ممالک جو پوری دنیا کو غلہ مہیا کرتے تھے، آج خود گندم منگوا رہے ہیں۔ تقسیم سے قبل پنجاب پورے ہندوستان کو غلہ اور دیگر غذائی اشیاء فراہم کرتا تھا لیکن آج پنجاب میں صورتحال قابلِ رشک نہیں۔ میں خود زراعت کے پیشے سے وابستہ ہوں۔ اِس مرتبہ گندم کی فی ایکڑ پیداوار پچھلے برسوں کی نسبت بہت بہتر تھی لیکن پورے ملک میں شور ہے کہ گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں کمی ہوئی ہے۔
میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر وہ کون سی قوتیں ہیں جو اپنی گندم وافر مقدار میں موجود ہونے کے باوجود بیرونِ ملک سے گندم منگوانے کے راستے ہموار کر رہی ہیں؟ پانی کا مسئلہ اس سے بھی زیادہ ہولناک ہے۔ پوری دنیا پانی کی قلت پر بات کر رہی ہے۔ آبی ماہرین نے اس حوالے سے اپنی اقوام کو بیدار کیا ہے۔ بعض ممالک نے تو آج سے 50 سال قبل اِس خطرے کو بھانپ کر ایسی منصوبہ بندی کی کہ آج جبکہ ہر طرف پانی کی قلت کا شور ہے، اِن ممالک نے اپنے پاس دریا نہ ہونے کے باوجود آب پاشی کا ایک وسیع نظام قائم کر لیا ہے۔
پاکستان میں زیر زمین پانی تیزی سے زہریلا ہو رہا ہے۔ میڈیا میں سندھ اور چولستان میں پانی کی قلت کے متعلق بتایا جا رہا ہے لیکن صورتحال پاکستان بھر میں ایسی ہی ہے۔ پاکستان کا کون سا ایسا شہر ہے جہاں پر زیر زمین پانی میٹھا رہ گیا ہے؟ لیکن اس سنگین مسئلے پر کسی فورم پر بات نہیں ہو رہی۔ ہمارے رہنما بولتے ہیں تو کسی کی کردار کشی کیلئے، منصوبے بناتے ہیں تو وہ بھی قلیل مدت کے لیے۔
کورونا وبا کے دوران جس طرح تحریک انصاف کی حکومت نے لوگوں کو لائنوں میں کھڑا کر کے ہزاروں روپے فی کس کے حساب سے تقسیم کیے، اس سے ملک کی غربت تو کم کرنے میں مدد نہیں ملی البتہ مفت خوری کے رجحان میں ضرور اضافہ ہوا۔ جبکہ میاں شہباز شریف نے اپنی تقریر میں ملک کے تقریباً ڈیڑھ کروڑ خاندانوں کو دو ہزار روپے ماہانہ دینے کا اعلان کیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس کام کے لیے 58 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
کاش پی ڈی ایم کی حکومت اگلے الیکشن کا سوچنے کی بجائے مستقبل کا سوچتی اور اربوں روپے سے ٹیکنیکل ادارے تشکیل دیتی جس سے ہزاروں ہنر مند افراد پیدا ہو کر معاشرے میں متحرک اور فعال کردار ادا کر سکتے۔ یہ ٹیکنیکل ادارے اچھے مکینک اور بہترین کارپینٹر پیدا کرتے۔ اس رقم سے پیرا میڈیکل اسٹاف کی تربیت کے ادارے قائم کیے جاتے اور حکومت کی نگرانی میں ان اداروں سے تربیت یافتہ افراد کو بیرونِ ملک بھیجا جاتا۔
جس سے ایک طرف تو بیروزگاری کم کرنے میں مدد ملتی تو دوسری طرف ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں قابلِ قدر اضافہ ہوتا۔ بدقسمتی مگر یہ ہے کہ میاں شہباز شریف نے وہی کیا جو گزشتہ حکمران کرتے آرہے تھے۔ فی خاندان 2 ہزار روپے سے مہنگائی کے طوفان کو روکنے کی سعی لا حاصل کی۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر اپنی تقریر میں میثاقِ معیشت کا ذکر کیا۔ نہ تو 2018 میں ان کی تجویز پر کسی نے کان دھر ے تھے اور نہ ہی آج اس تجویز پر کوئی بات کرنے کو تیار ہے۔
لہٰذا خیالی منصوبوں سے نکلیں۔ آپ نے استروں کی مالا اپنے گلے میں ڈال ہی لی ہے تو اس سے قوم کا خون نہ نکالیں بلکہ ایسی پالیسیاں ترتیب دیں کہ جس سے معیشت کو سانس لینے میں آسانی ہو سکے۔ بجلی کا سرکلر خسارہ 2500 ارب روپے ہے، اسے کم کرنے کی کوشش کریں۔ گیس سیکٹر کا خسارہ 1500 ارب روپے سے متجاوز ہے، پاکستان اسٹیٹ آئل کا خسارہ 685 ارب سے بڑھ چکا ہے۔ ملک کا تجارتی خسارہ 50 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جبکہ پاکستان کا جی ڈی پی 262 ارب ڈالر تک گر چکا ہے۔
یہ معمول کی صورت حال نہیں بلکہ جنگی بنیادوں پر اس بگاڑ کو درست کرنا پڑے گا۔ اس حبس اور گھٹن زدہ ماحول میں سعودی سفیر نواف سعید المالکی کی کوششوں سے پرنس محمد بن سلمان نے پاکستان کو دیے گئے تین ارب ڈالرز کی واپسی موخر کر دی۔ اور ایک مرتبہ پھر پاکستان کے بہترین دوست ہونے کا حق ادا کیا۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ پاکستان میں سعودی سفیر میرے محترم دوست نواف سعید المالکی ایک پاکستان دوست سفیر ہیں۔
ان کا دل پاکستان کی محبت میں دھڑکتا ہے۔ ان کی محنت کے سبب پاکستان اور سعودی عرب کی قربت میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کے اس اقدام سے پاکستانی معیشت کو سہارا ملے گا اور توقع ہے کہ اِس سے آئی ایم ایف کے پروگرام کو کامیابی سے مکمل کرنے کی راہ بھی ہموار ہو گی۔