Jamhuri Rawayat
جمہوری روایات
جمہوریت کے حوالے سے ایک حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ، یہ دیگر انسانی ایجاد کی طرح ایک انسانی اختراع ہے، جس میں ہر وقت تغیر و تبدل کا امکان موجود رہتا ہے۔ کچھ ادوار ایسے ہوتے ہیں، جن میں جمہوریت کمزور ترین شکل میں موجود ہوتی ہے، جبکہ کچھ عرصہ کے بعد یہی جمہوریت اپنی پوری طاقت کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص جمہوریت کو لاحق خطرات کی بات کرتا ہے، تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ جمہوریت پر اعتقاد و یقین نہیں رکھتا۔ بلکہ اس نظام کے حقیقی خیرخواہ ہونے کی حیثیت سے وہ اس نظام کو لاحق خطرات، اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نتائج سے بروقت آگاہ کرنے کی کوشش کرنے والا ہوتا ہے۔
تمام تر اختلافات کے باوجود یہی ایک حقیقت ہے کہ، بد ترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہے۔ جمہوریت کے حوالے سے ایک حقیقت یہ بھی ہے، یہ نظام سماجی ڈھانچے کے ساتھ منسلک ہے، اگر سماج میں ایک بنیادی تبدیلی رونما ہوتی ہے تو اس کے اثرات جمہوریت پر بھی پڑتے ہیں۔ جس زمانے میں انسانی سماج جاگیردارانہ تھا، تب بڑے زمیندار جمہوری نظام کے ذریعے اقتدار کے مراکز تک پہنچے، اور جب سماجی نظام نے کروٹ لیتے ہوئے زرعی معیشت سے سرمایہ دارانہ نظام کی طرف سفر شروع کیا، تو اس نظام سے تعلق رکھنے والے افراد طاقت کے مراکز تک پہنچے۔ جمہوریت نے دونوں طبقات کو برابر مواقع مہیا کئے۔
1776 میں امریکہ آزاد ہوا، 1778میں اس نے اپنا آئین تشکیل دیا۔ اور 1789میں انقلاب فرانس کے نتیجے میں یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی، اور کچھ ہی عرصہ میں کئی سلطنتیں ٹوٹیں اور متعدد نئی ریاستوں کا وجود عمل میں آیا۔ جمہوریت کے سفر کے دوران، یورپی ممالک سے غلامی کے خاتمے سے لے کرعام عوام کو ووٹ کا حق دینے تک کا سفر، سو سال پر محیط ہے۔ یہاں تک کہ سترہویں صدی میں، یورپی ممالک نے اپنی تجارتی سرگرمیاں دوسرے براعظم تک پھیلانے کے لیے نو آبادیاتی نظام قائم کیا۔ اس نظام کے قیام میں فرانس، پرتگال اور برطانیہ کو نمایاں اہمیت حاصل رہی۔
1757 میں بنگال پر قبضے سے ہندوستان پر قبضے کا عمل شروع ہوا، جو 1857 میں دہلی کے لال قلعہ پر قبضہ کے ساتھ مکمل ہوا۔ برطانیہ نے ہندوستان میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک ایسا ڈھیلا ڈھالا جمہوری نظام بھی ترتیب دیا، جس میں ایک طرف تو ہندوستانی عوام کی مناسب نمائندگی موجود تھی، لیکن غلبہ ان لوگوں کا تھا جو انگریز سرکار سے وفاداری کا دم بھرتے تھے۔ ہندوستان نے آزادی کے بعد جلد ہی ان خرابیوں پر قابو پا لیا جو اس نظام کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی، لیکن پاکستان میں قائداعظم محمد علی جناح کے انتقال کے ساتھ ہی بانی جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی، جس کی وجہ سے وہ عناصر مزید طاقتور ہو کر اس نظام پر قابض ہو گئے۔
سیاست میں کارپوریٹ سیکٹر کے قبضے کا آغاز 1980 کی دہائی میں ہوا، جب برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی کی مارگریٹ تھیچر، اور امریکا میں وہاں کی رپبلیکن پارٹی کے رونالڈ ریگن برسرِ اقتدارآۓ۔ انہوں نے ایسی پالیسیاں ترتیب دیں کہ، جس کے ساتھ بڑے سرمایہ دار اور کارپوریٹ سیکٹر کے مفادات کو توسیع دینے کا سلسلہ شروع ہوا، اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ اقدامات دوسری دنیا کے ممالک تک بھی پہنچنے لگے۔ برطانیہ کی لیبر پارٹی اور امریکہ کی ڈیموکریٹ پارٹی، اپنے روایتی فلاحی ایجنڈے سے ہٹ کر کارپوریٹ سیکٹر کے قبضے میں چلی گئی۔ جس کے اثرات پوری دنیا پر ظاہر ہونے لگے۔
1990 کے عشرے کے اوائل میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے ساتھ، امریکہ کے قائم کیے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام نے ایک طرف تو اپنی فتح کا اعلان کیا، دوسری طرف دنیا کے تمام ممالک میں اپنے پنجے گاڑنے شروع کر دیے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سرمایہ دار طبقے کا عمل دخل ماضی کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ گیا، اور عوامی سطح پر اسی رجحان کو فروغ دیا گیا کہ، معاشی خوشحالی ہر چیز پر فوقیت رکھتی ہے۔ سیاسی عمل، بنیادی حقوق، شہری آزادیاں، آزاد صحافت اور وہ تمام حقوق جو جمہوریت کے ذریعے حاصل کئے جاتے تھے، ان کی جگہ معاشی خوشحالی کے واحد ایجنڈا نے لے لی۔
اور چند ہی برسوں میں دنیا کے اکثر ممالک میں اس طرز ِسیاست کو فروغ حاصل ہوا، جو کارپوریٹ سیکٹر کے مفادات سے زیادہ ہم آہنگ تھا۔ لہٰذا اس وقت دنیا میں جمہوری نظام کو لاحق خطرات میں سے سب سے بڑا خطرہ کارپوریٹ سیکٹر سے ہے، جس نے اپنی معاشی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے پوری دنیا کی حکومتوں کو اپنے قابو میں کر لیا ہے۔ کبھی آ ئل مافیا بش کو اقتدار میں لے آتا ہے، تو کبھی اسلحہ ساز گروہ باراک اوباما کی پشت پناہی کرتا ہے۔ جب یہ مافیا چاہتے ہیں تو ٹرمپ الیکشن ہار جاتا ہے۔ کسی اور مافیا کی منظم سے بائیڈن برسرِاقتدار آ جاتے ہیں۔
اس وقت دنیا میں حقیقی حکمرانی تو وہ بڑی کمپنیاں کر رہی ہیں، جو حقیقی طور پر پوری دنیا کی معیشت پر قابض ہیں۔ تمام جمہوری حکومتوں میں کوئی ایک حکومت بھی ایسی نہیں، جو گوگل کی طاقت کو چیلنج کر سکے۔ جو فیس بک سے ٹکر لے سکے، جو ٹوئٹر کے مقالات پر ضرب لگا سکے۔ کارپوریٹ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے یہ ادارے اتنے طاقتور ہو چکے ہیں، کہ اب جمہوریت محض نام کی رہ گئی ہے۔ بعض فیصلوں سے تو یوں لگتا ہے کہ، جیسے جمہوری حکومتیں کارپوریٹ سیکٹر کے سامنے کٹھ پتلیوں کی طرح حرکت کرتی ہیں۔
اگر آپ پاکستان کی بات کریں تو 1985 کے بعد نو دولتیوں کا ایک گروہ سیاست پر یوں قابض ہوا کہ، کئی سال سے سیاست کرنے والے خاندان قصہ ماضی بن گئے۔ یہ دولت کا کرشمہ تھا کہ، پاکستان میں اراکین کی خرید و فروخت کا کام شروع ہوا۔ سیاست جیسے معزز کام میں کاروبار کا عمل دخل بڑھ گیا۔ کاروبارِ حکومت ایسے چلایاگیا، جیسے لمیٹڈ کمپنی چلائی جاتی ہیں۔ کارپوریٹ سیکٹر کی مداخلت سے دنیا بھر کی جمہوری حکومتوں میں فلاحی ریاست کا تصور مفقود ہوتا جا رہا ہے، اور نفع نقصان پر مبنی کمپنیوں کی طرح پالیسی بنائی جاتی ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے افراد کی وجہ سے سیاست سے سادگی کا عنصر ختم ہوچکا ہے۔
پاکستان میں خواجہ ناظم الدین، سردار عبدالرب نشتر اور حسین شہید سہروردی جیسے سادہ مزاج اور سادگی پسند افراد کی جگہ، بڑے صنعت کاروں نے لے لی۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی یہی صورت حال بنی، اور جمہوریت کو سب سے زیادہ خطرہ اسی رویے سے ہے۔ معاشی ترقی کے نام پر مختلف مافیا اداروں پر قابض ہو چکے ہیں، جن سے نکلنے کی بظاہر کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ لیکن عوام کا جمہوری شعور مسلسل تبدیلیوں کو دیکھ رہا ہے، اور وقت فیصلہ کرے گا کہ عوام جمہوری نظام کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرتے ہیں، یا پھر کارپوریٹ سیکٹر کا حصہ بن کر جمہوریت کا قلع قمع کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔