Ishaq Dar Ko Wapis Lao
اسحاق ڈار کو واپس لاؤ
حتمی طور پر یہ بات کہنا مشکل ہے کہ میاں شہباز شریف کو انعام کے طور پر وزیر اعظم بنایا گیا یا سزا کے طور پر۔ پی ڈی ایم نے جب سے عنان اقتدار سنبھالی ہے، ملکی معیشت کی کشتی مسلسل ڈانواں ڈول ہے، اشیائے ضروریہ عوام کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہیں، اسٹاک ایکسچینج کی نبض کبھی ڈوبتی ہیں کبھی ابھرتی ہے۔
ڈالر ہے کہ اس کی اڑان قابو میں نہیں آ رہی۔ روپیہ دن بدن گرتا چلا جا رہا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ میاں شہباز شریف ایک محنتی اور بلند ہمت وزیراعظم ہیں،۔ طویل العمری اور بیماریوں کے باوجود جواں عزم ہیں۔ انہوں نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر قابل رشک کارکردگی کا مظاہرہ کیا اس لیے وفاق میں بھی اسی سپیڈ کی توقع کی جا رہی ہے لیکن موجودہ معاشی صورتحال تادم تحریر عالم نزع میں ہے۔
جناب مفتاح اسماعیل بھی کنفیوز نظر آرہے ہیں۔ ان کے بیانات کی وجہ سے بے یقینی میں اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں معیشت پر نگاہ رکھنے والا ہر شخص کہ رہا ہے کہ پاکستان کو موجودہ معاشی گرداب سے ایک ہی شخص نکال سکتا ہے جس سے معاشئ جادوگر بھی کہا جاتا رہا ہے جن کا نام اسحاق ڈار ہے۔
یہ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے عملی طور پر پاکستانی معیشت کو زمین سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچایا، جنہوں نے شیخ رشید کے چیلنج کا جواب دیتے ہوے کہا کہ ڈالر سو سے نیچے آئے گا تو انہوں نے لا کر دکھایا، جنہوں نے اپنے بےمثال تجربے کی بدولت پاکستان کی معیشت کو دنیا کی سب سے تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شامل کیا، ان مشکل حالات میں اسحاق ڈار ہی ایسی شخصیت ہیں جو اندھیرے میں روشنی کی کرن کے طور پر نظر آتے ہیں۔
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف جو کہ ایک جہاندیدہ رہنما ہیں انہوں نے وفاق کی معاشی ٹیم میں اسحاق ڈار جیسے قابل لوگوں کو شامل کیا۔ 2013 میں انہوں نے وزارت خزانہ کی کمان سنبھالی اور تمام تر مشکلات کے باوجود ملکی معیشت کے تمام اشاریے درست کر دیے۔ اقتصادی ترقی کی شرح میں اضافہ کیا۔
روپے کی قدرمستحکم ہوئی۔ افراط زر کی شرح کم رہی۔ پاکستان اکنامک سروے کی رپورٹ کےمطابق 2017 اور 18 میں پاکستانی معیشت کا حجم 313 بلین ڈالر تک پہنچ چکاتھا۔ جبکہ 2022 میں پاکستانی اکانومی کا حجم کم ہوکر 292 ملین ڈالر رہ گیا ہے۔ یہ اسحاق ڈار ہی تھے، جنہوں نے پاکستان کے دفاعی بجٹ میں مسلسل اضافہ کیا۔
مسلم لیگ نون کی حکومت نے جو آخری بجٹ پیش کیا اس میں اٹھارہ فیصد اضافہ کے ساتھ دفاعی بجٹ 920 بلین روپے سے بڑھا کر 1۔ 1ٹریلین روپے کردیا گیا۔ وہی فوج آج غیر ملکی اشارے پر کچھ لوگوں کے نشانے پر ہے۔ اشاروں کنایوں سے فوج کی توہین کی جا رہی ہے۔ اس طرز عمل سے سرحدوں پر جان قربان کرنے والے سپاہیوں میں بے چینی ہے۔
فوج کے دفاعی بجٹ کا خیال رکھنے والے اسحاق ڈار میاں نواز شریف کے قابل اعتماد ساتھی ہیں۔ ان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں وہ نہ صرف معاشی ٹیم کے کپتان تھے بلکہ ہر سیاسی مذاکراتی عمل کا بھی حصہ تھے۔ اس وقت پاکستانی معیشت وینٹی لیٹر پر ہے۔ غذائی بحران ملک کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔
آٹے اور چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ مرغی کے گوشت سمیت ہر طرح کی اشیاء ضروریہ کی قیمت میں مسلسل تیزی کا رجحان ہے۔ اس وقت ملکی معیشت کوسہارا دینے کے لیے اسحاق ڈار جیسے قابل، جہاندیدہ اور مستند ماہر اقتصادیات کی ضرورت ہے۔
مجھے یقین ہے کہ اسحاق ڈار نہ صرف ملکی معیشت سنبھال سکیں گے بلکہ ملک کی سیاست پر بھی ان کی رائے سے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اسی طرح شاہد خاقان عباسی بھی میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی ہیں۔ نو ماہ کی وزارت عظمیٰ کے دوران ان کا عالمی امیج تشکیل پایا۔ وہ ایک درویش صفت سادہ مزاج انسان ہیں۔
پٹرولیم مصنوعات کے بحران کے دور میں ان کی خدمات حاصل کرنا بھی اشد ضروری ہے۔ انہوں نے اگرچہ کابینہ میں کوئی منصب لینے سے انکار کیا ہے اور وہ کابینہ سے باہر بیٹھ کر کام کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان جیسے اہل شخص کو باہر بیٹھ کر رہنمائی کرنے کے بجائے خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنا چاہیے۔
وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے شخص کے لئے یہ امر مشکل ہے کہ وہ اس سے نسبتا کم تر منصب پر کام کرے لیکن اس وقت ملک کی معاشی صورتحال کے تناظر میں اس طرح کے پروٹوکول کو نظر انداز کیا جانا ہی مناسب ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے ایک بڑی جماعت کا سربراہ ہونے کے باوجود وزارت خارجہ کا منصب قبول کیا اور امریکی وزیر خارجہ کی فون کال نے انکے امیج کو مزید بہتر کیا۔
سابق وزراء اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف سمیت متعدد سینئر سیاست دانوں کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے ماضی میں بلند ترین مناصب پر کام کیا لیکن پھر وقت کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سے نسبتا کم عہدہ پر بھی خدمات سرانجام دیں۔
پی ڈی ایم میں موجود سیاستدانوں خصوصاً مسلم لیگ نون کی قیادت کو سری لنکا کے حشر سے سبق سیکھنا چاہیے کہ کس طرح ایک ہنستا بستا ملک چشم زدن میں دیوالیہ ہوگیا۔ اور آج پوری دنیا کی طرف رحم طلب نگاہوں سے دیکھ رہا ہے۔ مسلم لیگی قیادت کو کسی خوش فہمی کا شکار رہنے کے بجائے معاشی صورتحال کو بہتر کرنے کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔
میاں شہباز شریف کو میاں نواز شریف سے بات کر کے ان کے ترکش کے ان دو بہترین تیروں کو اپنی ٹیم کا حصہ بنانا چاہیے، اور اگر یہ سمجھا جائے کہ حالات ان کے قابو میں نہیں آ رہے اسحاق ڈار کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے جلد انتخابات کی طرف جانا ہوگا۔
پی ڈی ایم کی قیادت کو عمران خان کے متعلق بھی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ انکی مقبولیت میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا ہے۔ وہ اپنے ووٹرز کو اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب ٹہرے ہیں۔ موجودہ معاشی انارکی انہیں مسلسل آکسیجن فراہم کرتی رہے گی۔ تحریک انصاف کی اسلام آباد کی طرف مارچ کے اعلان کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
بدقسمتی سے تمام جماعتیں جلسوں میں اخلاقیات کا دامن چھوڑ رہی ہیں۔ باہمی الزامات کی وجہ سے پوری سیاسی قیادت کا وقار داؤ پر لگ چکا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف سوقیانہ الفاظ کا استعمال پوری سیاسی برادی کو بے توقیر کردے گا۔ اب فیصلے کی کنجی میاں شہباز شریف کے ہاتھ میں ہے۔ ان کا فیصلہ اور اقدامات ثابت کریں گے کہ آئندہ انتخابات میں عوام میں ان کو کس قدر پذیرائی نصیب ہوگی۔