Hazrat Mujaddid Alf Sani
حضرت مجدد الف ثانی
مفکر اسلام علامہ محمد اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی اور فکری تاریخ کا تجزیہ کرتے ہوئے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو جس انداز میں خراج تحسین پیش کیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان میں دین اسلام کی حقانیت کو برقرار رکھنے کیلے اپکی کیا خدمات تھیں۔۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ تعالی نے برصغیر کے مسلمانوں میں اسلامی اقدار، ان کی اصل روح کے مطابق بحالی، اور اس کی حفاظت میں جو کردار ادا کیا وہ تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔ دیگر اولیاء اللہ کی طرح حضرت مجدد الف ثانی نے لومۃ لائم کے بغیر صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کئے ہوئے احکامات کی بجا آوری اور ان کی حفاظت کے لیے لیے اپنا شاندار کردار ادا کیا۔
قدوۃ السالکین، زبدۃ العارفین، حجۃ الکاملین، حضرت سیدنا مجدد الف ثانی کا اسم مبارک احمد، لقب بدرالدین، اور کنیت ابو البرکات ہے، آپ کے دیگر معروف القابات میں قیوم زماں، مجدد الف ثانی، اور امام ربانی ہیں۔ آپ کا نسب مبارک کئی واسطوں کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ سے جاملتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی کی ولادت 4شوال 971ھ کو ہندوستان کے ایک مقام سرہند میں ہوئی، آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے گھر سے حاصل کی اور قرآن کریم کو حفظ کیا۔ ابتدائی کتب کی تعلیم کے بعد منطق فلسفہ اور علم کلام میں مہارت حاصل کی۔ حضرت قاضی بہلول بدخشانی سے تفسیر، اور حضرت شیخ یعقوب چرخی سے حدیث کا علم حاصل کیا۔ آپ کی قوت حافظہ کا یہ عالم تھا کہ محض 17سال کی عمر میں آپ علوم دینیہ کی تکمیل سے فارغ ہوگئے اور فراغت کے ساتھ ہی درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ آپ کو مجدد الف ثانی کے کہنے کے متعلق کئی آرا ہیں۔ لیکن دو مشہور آرا کا تذکرہ کرتے ہوئے میں آپنی بات کو آگے بڑھاؤں گا۔
ایک گروہ کے نزدیک آپ کو مجدد الف ثانی اس وجہ سے کہتے ہیں کہ آپکا دور ھجری اعتبار سے دوسرے ہزار سال شروع ہونے کا دور ہے۔ اس لیے آپ کو مجدد الف ثانی یعنی دوسرے ہزار سال کے مجدد کیاجاتا ہے۔ جبکہ علماء و مفکرین کے دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ اکبر نے دین اکبری اس بنیاد پر شروع کیا تھا کہ کسی بھی دین کی طبعی عمر ایک ہزار سال سے زیادہ نہیں ہوتی۔ چونکہ اسلام کو ایک ہزار سال ہوگئے ہیں اس لئے دوسرا ہزارواں سال شروع ہونے سے پہلے ایک نئے دین کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اس نے دین اکبری کی بنیاد رکھی۔ اکبر کے دور میں کفر و الحاد کو فروغ ملا۔ اسلام کی بنیادی عقائد میں ضعف و انحطاط آیا۔ یہاں تک کہ دربار اکبری میں سجدہ کا رواج بھی در ایا۔ اس کے ایک خوشامدی لیکن زہین وزیر فضل نے ایک کتاب بادشاہ کو پیش کی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ یہ کتاب آپ کے لئے فرشتہ آسمان سے لے کر آیا ہے۔
دین اکبری میں کلمہ طیبہ محمد رسول اللہ ﷺ کی جگہ اکبر خلیفۃاللہ پڑھا جانے لگا۔ شراب اور جوئے کو حلال قرار دیا گیا۔ ہندو مت سے متاثر ہوکر گائے ذبح کرنے پر پابندی عائد کردی گئی۔ مساجد و مدارس کو بند کر دیا گیا۔ علمائے کرام کی سرعام توہین شروع ہوگی۔ ان سب آندھیوں کے جواب میں حضرت مجدد الف ثانی نے کلمہ حق بلند کیا۔ اکبر کے نظریات باطل کی خوب تردید فرمائی۔ اور اسلامی عقائد کی دلیل کے ساتھ وضاحت فرمائیں۔ اکبر کے اس نظریے کی سختی کے ساتھ تردید فرمائی کہ حضور اکرم ﷺ کی رسالت ایک ہزار سال کے لئے ہے۔ بلکہ واضح فرمایا کہ سرکار دو عالم ﷺ کی نبوت ہر زمانے کے لئے ہے۔ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو اس لیے مجدد الف ثانی کہا جاتا ہے۔ کہ آپ نے اسلام کے دوسرے ہزار سال کے شروع میں اسلام کے چہرے پر جو داغ لگانے کی کوشش کی گئی اس کو نہ صرف ناکام فرمایا بلکہ اسلام کا روشن روشن چہرہ اور اصل کردار دوبارہ زندہ کیا۔
حضرت مجدد الف ثانی نے آقائے دو عالم ﷺ کی سنتِ مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے مختلف بادشاہوں اور امراء اور رؤسا کو خطوط لکھے۔ علماء و مشائخ کو انکی کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کے لئے تحریک چلائی۔ مکتوبات امام ربانی نے ہندوستان میں ایسا انقلاب برپا کر دیا۔ جس نے نہ صرف دین اکبری کا مقابلہ کیا۔ بلکہ اس دین کو اپنے منطقی انجام تک پہنچا کر اسلام کی عظمتوں کا پرچم بلند کیا۔ حضرت مجدد الف ثانی نے صرف نہ صرف ارباب حکومت، روسا، امرا، علما کو جھنجھوڑا، بدعات کا رد فرمایا، قران و سنت کا اجرا فرمایا بلکہ اس وقت کے جاھل صوفیاء کو بھی جھنجھوڑا۔ اکبر کے اشارے پر جن لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ صرف دل کی نماز پڑھنی چاہیے اور دل کا روزہ رکھنا چاہیے اور اس طرح کے فضول، بے اصل اور لغویات کی ترویج کر کیاسلام کی بنیادی اکائیوں کا مذاق اڑانا شروع کر دیا تو حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی نے اپنے مکتوبات اور اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے اس فتنے کا بھی بڑی دلیری اور جواں مردی سے مقابلہ فرمایا اور اس کو شکست فاش سے دوچار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مفکر اسلام حضرت علامہ محمد اقبال نے برصغیر میں دین اسلام کی شمع کو روشن کرنے میں جن دو بنیادی کرداروں کا ذکر کیا ہے ان میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری اور حضرت مجدد الف ثانی کا اسم گرامی نمایاں ہے۔ حضرت علامہ اقبال پورے اہتمام کے ساتھ حضرت مجدد کی مزار پر حاضر ہوئے اور وہاں پر حاضری کے بعد یہ اشعار موزوں ہوے۔
حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار
اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحب اسرار
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفس گرم سے ہے گرمی احرار
وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار
یعنی حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ تعالی علیہ کی قبر مبارک اس آسمان کے نیچے انوار و تجلیات کا منبع و محور ہے۔ آپ کی قبر مبارک کے ساتھ جڑی مٹی اس قدر تابندہ اور روشن ہے کہ آسمان کے ستارے بھی اس کی چمک کے سامنے شرمندہ نظر آتے ہیں۔ کیونکہ اس زمین میں وہ صاحب اسرار حقیقت، صاحب اسرار، آرام فرما ہیں جنوں نے بادشاہ وقت کے سامنے جھکنا گوارا نہیں کیا۔ بلکہ ان کی گردن صرف اور صرف اللہ کی بارگاہ میں رہتی ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی نے دین اکبری کی پھیلائی ہوئی نحوست کو دور کرنے کے لیے انتہائی واضح الفاظ میں شریعت دین اور طریقت کو واضح فرمایا۔ آپ نے واضح طور پر ارشاد فرمایا کہ شریعت کی بالادستی تمام چیزوں پر ہے۔ آپ مختلف فرامین کا مفہوم یہ ہے راہ سلوک کے مسافر کے ذاتی تجربات اور مشاہدات اور کیفیات کی بنیاد پر شریعت کا کوئی حکم بھی تبدیل نہیں ہوگا۔ اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کے بتائے ہوئے فرامین کے مطابق کسی بھی شخص کوئی بھی مشاہدہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ احکامات خداوندی میں کسی قسم کی تبدیلی ناقابل قبول ہے۔ آپ نے ہندوانہ رسوم و رواج کو اسلامی معاشرے میں داخل کرنے کی تمام کوششوں کے سامنے نظریات و اقدامات اور شریعت کی سد سکندری کھڑی کردی۔ آپ نے اپنی تصانیف کے ذریعے معاشرہ میں ایک ایسا انقلاب پیدا فرمایا جس نے دین اکبری سمیت تمام منفی رسومات، خلاف اسلام عقائد، ہندوانہ رسوم کی بیخ کنی کردی۔
آپ کی متعدد تصنیفات موجود ہیں جن میں میں آداب المریدین، اثبات النبوہ، مکاشفات عینیہ، مشہور ہیں لیکن جو شہرت دوام مکتوبات امام ربانی کو حاصل ہوئی وہ کسی اور کتاب کے حصہ میں نہ آئیں۔ مکتوبات امام ربانی سے امت محمدی ﷺ نے فائدہ اٹھایا اس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی ہے۔ اس مختصر مضمون میں اتنی گنجائش نہیں کہ آپ کی خدمات اور حیات مبارکہ کی کا احاطہ ہوسکے۔ اپکی خدمات پر کی دفتر تحریر کیے جاچکے ہیں لیکن تشنگی اب بھی باقی ہے۔ اللہ تعالی نے آپ کو سات صاحبزادگان عطا فرمائے تھے۔ جن میں سے تین بچپن کے عالم میں فوت ہوگئے۔ جب کہ چوتھے صاحبزادے خواجہ محمد صادق 25 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ تین بیٹے بعد میں موجود رہے۔ خواجہ محمد سعید اور خواجہ محمد یحییٰ نے حضرت مجدد الف ثانی کے سلسلے کی اشاعت کی لیکن آپ کے ایک صاحبزادے خواجہ محمد معصوم رحمۃ اللہ علیہ نے سلسلہ کو فروغ دیا۔ خانقاہ مجددیہ کے جانشینوں میں مرزا مظہر جان جاناں، اور شاہ غلام علی رحمۃ اللہ علیہ جیسے عظیم الشان علماء شامل ہیں، 28صفرالمظفر 1034ھ آپ نے وصال فرمایا۔ وصال کے وقت آپ کی عمر مبارک 63 سال تھی۔