Glasgow Conference 2021 (2)
گلاسگو کانفرنس 2021 (2)
گرین ہاؤس گیسز کے مجموعی اخراج میں پاکستان کا حصہ بہت کم ہے، لیکن آب و ہوا کی تبدیلی کے منفی اثرات کی وجہ سے درج ذیل صورتوں میں پاکستان بری طرح متاثر ہوسکتا ہے۔ امکا ن ہے کہ ہمالیہ میں گلیشیر پگھلنے سے سیلاب کی آمد میں اضافہ ہو سکتا ہے اور یہ عمل اگلی دو سے تین دہائیوں میں آبی وسائل کو متاثر کرے گا۔ اس کے بعد گلیشیرز کی تعداد میں کمی کے ساتھ ساتھ دریاؤں کے بہاؤ میں بھی کمی واقع ہوگی۔ میٹھے پانی کی دستیابی میں بھی کمی کا امکان ہے، جس کی وجہ سے بائیو ڈائیورسٹی (پاکستان میں یا کسی خاص ماحول میں پودوں اور جانوروں کی زندگی کے لیے موافق حالات) میں تبدیلی رونما ہوگی اورلوگوں کے پینے کے لئے بھی کم مقدار میں میٹھا پانی دستیاب ہوگا۔
پاکستان کے جنوب میں بحیرہ عرب کے ساحل سے متصل علاقوں کو سمندری طوفان اور کچھ شہروں میں دریاؤں کی وجہ سے سب سے زیادہ خطرہ ہوگا۔ ہماری معیشت کا زیادہ تر دارومدار زراعت پر ہے، اس حوالے سے موسمیاتی تبدیلیوں کا تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ پاکستان میں فصلوں کی پیداوار میں کمی واقع ہوگی، جس کے نتیجے میں معاش اور خوراک کی پیداوار متاثر ہوگی۔ ملک میں تیزی سے بڑھتی آبادی، شہرکی طرف نقل مکانی اور کم ہوتی پیداوارکی وجہ سے قحط سالی کا خدشہ ہوگا۔ بنیادی طور پر سیلاب اور خشک سالی سے وابستہ بیماریوں کی وجہ سے اموات میں اضافے کا خدشہ ہے۔ ساحلی پانی کے درجہ حرارت میں اضافے سے ہیضے کی وباء پھیل سکتی ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات اوروسائل کا بے دریغ استعمال معاشرے میں عدم مساوات کو بھی بڑھاوا دیں گے اور معاشرتی عوامل کو عدم استحکام، تنازعات اور لوگوں کی نقل مکانی کا باعث بنیں گے۔
گلاسگو کانفرنس کے ضمن میں جاری ہونے والی مختلف رپورٹس کے مطابق غیر معمولی موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والی آبی، فضائی اور زمینی آلودگی بھی پاکستان میں کچھ کم نہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے شہروں لاہور، کوئٹہ اور پشاور کا شمار دنیا کے دس آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے جہاں ہر روز کارخانوں سے ہزاروں ٹن زہریلا پانی نکل کر ندی نالوں کی صورت میں سمندر میں شامل ہو کر آبی حیات کے لیے سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے۔
یہی حال باقی شہروں کا ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے صنعتی فضلے کو محفوظ اور ماحول دوست انداز میں تلف کرنے یا ٹھکانے لگانے کی جانب توجہ نہیں دی جارہی۔ یہی وجہ ہے کہ دن بدن ہمارے زیر زمین پانی کے ذخائر بھی آلودہ ہوتے جا رہے ہیں۔ زیر زمین موجود یہی آلودہ پانی ہماری خوراک کا حصہ بن کر طرح طرح کی بیماریوں کا باعث بن رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ہسپتالوں میں علاج کی غرض سے موجود ہر دوسرا شخص آلودہ پانی سے متاثر ہے۔
لاہور کی حالت تو یہ ہے کہ یہاں کے محکمہ ماحولیات کے پاس ہوا کا معیار ماپنے کے آلات بھی خاطر خواہ تعداد میں موجود نہیں ہیں اور جو موجود ہیں وہ طویل عرصے سے خراب پڑے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ماحولیات کے نام پر قائم یہ محکمے عوام کے ٹیکسوں پر ایک اضافی اور غیر ضروری بوجھ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں۔
پاکستان میں غیر معمولی موسمیاتی تبدیلیوں کی ایک بڑی وجہ جنگلات کی مسلسل کٹائی ہے۔ جنگلات کی کثرت فضائی آلودگی کو کنٹرول میں رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے جبکہ ان کی کمی زمینی کٹاؤ اور لینڈ سلائڈنگ جیسے تباہ کن حالات کا سبب بنتی ہے۔ پاکستان کی سابق حکومت نے 2009ء میں ایک متنازع حکم نامے کے تحت شمالی علاقوں سے لکڑی کی نقل وحمل اور کٹائی کی اجازت دی تھی حالانکہ 1993ء سے ان علاقوں میں جنگلات کی کٹائی پر پابندی تھی۔
یہ پابندی اٹھتے ہی تھوڑے سے عرصہ میں لاکھوں درخت کاٹ دیے گئے اور اس موقع سے لکڑی کے سمگلروں نے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ گو کہ نئی حکومت نے دوبارہ جنگلات کی کٹائی پر پابندی لگا دی ہے مگر جو درخت کاٹے جا چکے ان کی جگہ پر نئی شجر کاری کا تاحال کوئی خاطر خوا ہ انتظام نہیں کیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ موٹر گاڑیوں اور کارخانوں سے نکلنے والا دھواں براہ راست شہریوں کی صحت پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعمیرات کی منصوبہ بندی میں قدرتی ماحول سے موافقت رکھنے والے امور کو مدنظر رکھا جائے۔ دوسری جانب پنجاب میں سال میں دو مرتبہ(موسم برسات اور بہار میں) شجر کاری مہم چلائی جاتی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ صرف بعض شہری علاقوں میں فوٹوسیشن کی غرض سے پودے لگائے جاتے ہیں اور دیہاتی علاقوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ سالانہ بنیادوں پر کچھ اہداف مقرر کر کے ان کے حصول کو یقینی بنایا جائے۔
ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق وزارت(منسٹری آف کلائمیٹ چینج) کی جانب سے جاری کی گئی معلومات میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے 22.8فی صد رقبے اور 49.6فی صد آبادی کے ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ماضی میں انہی ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ملک کو سیلابوں کی صورت میں بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔
2010ء میں 10.06بلین، 2011ء میں 3.07بلین جبکہ 2012ء میں 1.87بلین کا مجموعی خسارہ ملک نے اٹھایا۔ پاکستان میں کلائمیٹ چینج کا سبب بننے والی گیسوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک پالیسی ترتیب دی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں اپریل 2015ء میں اس پالیسی پر عملدرآمد کے سلسلے میں ایک میٹنگ بھی بلائی گئی تھی جس کے فیصلوں کے تحت صوبائی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو روکنے کی پالیسی پر عمل درآمد کی کمیٹیاں اور پلاننگ اور ڈیویلپمنٹ کے محکموں کے تحت کلائمیٹ چینج یونٹس بنائے گئے ہیں۔ 2018کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی حکومت میں یہ وزارت مزید متحرک انداز میں کام کر رہی ہے جس سے یہ امید پیدا ہوچلی ہے کہ عالمی برادری کی جانب سے طے کیے اصول و ضوابط کے مطابق پالیسی کی تشکیل ممکن بنائی جا سکے گی۔ فروری 2005ء میں چین میں 160سے زائد ممالک کے مابین طے پانے والے "کیوٹو پروٹوکول" کے تحت 2012ء تک صنعتی ملکوں کو گرین ہاوس گیسوں کااخراج 5.2 فی صد کم کرنا تھا۔ بدقسمتی سے یہ ہدف پورا نہ ہو سکا۔
اس کے بعد دسمبر2015ء میں پیرس میں عالمی ماحولیاتی مسائل پر ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک نے شرکت کی اور آئندہ برسوں میں عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والی گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں کمی پر اتفاق کیا۔ پاکستان نے اس موقع پر عزم ظاہر کیا تھا کہ وہ 2025ء تک گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں 30فی صد تک کمی لانے کے لیے اقدامات کرے گا۔
اس کے علاوہ پاکستان میں توانائی کے متبادل ذرائع اپنانے کے سلسلے میں بھی غیرملکی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کیا جارہا ہے۔ پاکستان نے سیکنڈ نیشنل کمیونیکیشن (SNC) پراسس بھی شروع کیا ہے جس کے تحت ان معاشی و تکنیکی امکانات کے بارے میں ضروری معلومات اکھٹی کی جائیں گی جن کے تحت ماحول کو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے پاک کرنے کے لیے مرتب کیے گئے ماسٹر پلان پر عمل درآمد ممکن ہو سکے گا۔
اگر ہم اس تناظر میں پاکستان کی بات کریں تو پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے 10 ارب درخت لگانے کے منصوبے سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ رواں برس ایک ارب درخت لگائے جائیں گے جب کہ پہلے مرحلے کے اختتام پر 2023 تک 3.2 ارب درخت لگانے کا منصوبہ ہے۔ موسمی اثرات کو کم کرنے کے لیے ملک میں قابلِ تجدید توانائی کا استعمال 30 فی صد تک لے جانے، آب پاشی کے لیے شمسی توانائی کا استعمال، پلاسٹک کو ایک سے زائد بار استعمال کے قابل بنانے کے اقدامات، الیکٹرک گاڑیوں کی پالیسی کی تیاری اور دیگر منصوبوں پر بھی حکومتی سطح پر کام جاری ہے۔
حکومت کے ساتھ ساتھ متعدد این جی اوز بھی اس کام میں حکومت کے شانہ بشانہ ہیں۔ فلاح نامی تنظیم جو لاہور کے اسکولوں کے بچوں پر مشتمل ہے اس نے ملک کے مختلف حصوں میں شجرکاری کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ کسی طرح گجرانوالہ میں درخت لگانے کا عالمی ریکارڈ بھی قائم کیا گیا ہے۔ اس طرح کی سرگرمیوں کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت کے شانہ بشانہ عوام بھی طویل المعیاد منصوبوں پر کام شروع کر دیں تو آلودگی کے جن کو قابو کیا جا سکتا ہے۔