Dua e Khalil Aur Zibh e Azeem
دعائے خلیل اور ذبح عظیم
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ابو الانبیاء کہا جاتا ہے۔ ان کی قربانیوں کا تذکرہ قرآن کریم میں جا بجا ملتا ہے۔ اللہ کریم نے اپنے برگزیدہ نبی کو ان آزمائشوں سے گزاراجس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے آتش نمرود میں کود کر بلا خطر جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جو پیغمبرانہ روایت قائم کی اس کی حقیقی جھلک امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام کی قربانی کے علاوہ کسی اور جگہ نہیں ملتی، اس کی خوب عکاسی شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال نے اپنے اس شعر میں کچھ اس طرح کی ہے۔۔
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسینؑ ابتدا ہے اسماعیلؑ
اس ذبح عظیم کی ابتدا حضرت اسماعیل ؑنے کی اور حضرت امام حسین ؑنے اس کی انتہا کردی۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اللہ کریم اپنے بندوں کی دعائیں قبول فرماتا ہے اور ان کو آزمائشوں اور امتحانوں میں بھی ڈالتا ہے ان۔ ان آزمائشوں سے ایک طرف تو ا ن کی قوت ایمانی کا امتحان لیا جاتا ہے تو دوسری طرف انہیں اعلی و ارفع مقام سے بھی نوازا جاتا ہے۔ اللہ کے برگزیدہ بندوں کو جتنی قربانی کا حکم ملتا ہے وہ اس پر من و عن عمل کرتے ہیں اور اللہ کریم کی رضا کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ لیکن جس قربانی کا ذکر ہم ان سطور میں کر رہے ہیں اس کی مثال تاریخ عالم میں کہیں نہیں ملتی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنی اولاد کی قربانی کا حکم دیا تو حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل کی قربانی دے کر یہ ثابت کر دیا کہ رب ذوالجلال کے حکم کی تعمیل میں بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیاجا سکتا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام شان بندگی میں اپنی مثال آپ تھے۔ آپ کی زندگی کی تمام داستان دلچسپ بھی اور عزیمت سے بھر پور بھی ہے۔ اللہ رب العزت کو اپنے بندے کی بندگی اتنی پسند آئی کہ ان سب آزمائشوں کا ذکر قرآن مجید فرقان حمید میں کر دیا۔ سورۃ صفت کی آیت نمبر100سے لے کر 107تک اللہ رب العزت نے اپنے بندے کی شان بندگی بیان فرمائی ان آیات کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔"اے میرے رب مجھے نیک بیٹا عطا فرما۔ پس ہم نے ان کو ایک بردبار بیٹے کی بشارت دی پھر جب وہ ان کے ساتھ دوڑنے (کی عمر) کو پہنچے تو فرمایا اے میرے بیٹے میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں۔ پس تم بھی غور کر لو کہ تمہارا کیا خیال ہے۔ (حضرت اسماعیل نے بلا تردد) عرض کیا اے ابا جان جو کچھ آپ کو حکم دیا گیا ہے کر ڈالئے۔ آپ انشاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ پھر جب دونوں نے اللہ کا حکم مان لیا اور ان کو ماتھے بل لٹا دیا اور ہم نے کو آواز دی کہ اے ابراہیم تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا۔ ہم نیک لوگوں کو ایسے ہی بدلہ دیتے ہیں بے شک یہ ایک بڑی صریح آزمائش تھی۔ اور ہم نے ایک عظیم قربانی کو ایک فدیہ بنا دیا"۔
اس آیت طیبہ کا ترجمہ پڑھنے کے بعد یہ با ت سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام، اللہ رب العزت کے جلیل القدر پیغمبر تھے۔ آقائے دوعالمﷺ کے جد امجد ابتلا وآزمائش کے ان مراحل سے گذرے ہیں جن کا تصور بھی محال ہے۔ آپ نے اپنی اہلیہ اور فرزند کے ہمراہ ہجرت کر کے ایک بے آب و گیاہ میدان میں تشریف لائے۔ فرزند بھی وہ جس کے لئے انہوں نے طویل عرصہ دعائیں کیں اور اس عالم پیری میں ان کو اولاد عطا ہوئی۔ اپنی دعا میں حضرت ابراہیم نے جن خصائل کے حامل فرزند کی دعا مانگی تھی حضرت اسماعیل علیہ السلام ان تمام صفات سے متصف تھے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنے والد کے تابع فرمان صاحبزادے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے اسی محبت کے پیش نظراللہ کریم نے حضرت ابراہیم کو حضرت اسماعیل کی قربانی کا حکم دیا۔ اس آیت کی تفسیر میں متعدد مفسرین نے مختلف اقوال نقل کئے ان میں سے ایک روایت یہ بیان کی گئی ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ اللہ اپنی سب سے عزیز ترین چیز ذبح کرنے کا حکم کیا جارہا ہے تو انہوں نے ۰۰۱ اوٹ ذبح کر دئے، اگلے دن پھر یہی خواب دیکھا تو آپ نے ۰۰۱ اونٹ مزید ذبح کر دئے پھر بھی یہی خواب تیسری رات آیا تو آپ نے پھر ۰۰۱ اونٹ ذبح کئے۔ اس کے بعد آپ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا فیصلہ کیا۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کو حضرت ہاجرہ نے تیار کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کو لیکر چٹیل بے آب و گیاہ میدان کی طرف چل پڑے حضرت ابراہیم ایک پٹی بھی لے کر گئے تھے اکہ اس کو اپنی آنکھوں پر باندھ کر چھری چلائیں گیا کہ اپنے صاحبزادے کو دیکھ کر دل میں بیٹے کی محبت نہ جاگ جائے اور اللہ کے حکم کی تعمیل میں تاخیر نہ ہو۔ حضرت ابراہیم نے اپنے صاحبزادے حضرت اسماعیل کو اوندھے منہ لٹایا اپنی آنکھوں پر پٹی اندھی اور بیٹے کی گردن پر چھری چلا دی۔ آپ نے ایک دفعہ چھری چلائی لیکن گردن پر چھری نے اثر نہ کیا۔ دوسری دفعہ پھر ذبح کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے کام نہ کیا۔ یہاں تک کہ آپ نے وہ چھری ایک پتھر پر ماری تو پتھر دو ٹکڑے ہو گیا۔ اسی اثناء میں حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک جنتی مینڈھا(دنبا) لے کر آئے، حضرت اسماعیل کی جگہ اس دنبے کو لٹایا اور حضرت ابراہیم کی چھری اس جنتی دنبے کی گردن پر چل گئی۔
ایک عظیم قربانی کا فدیہ دے دیا گیا۔ اس سارے واقعے کو قرآن کریم میں چند آیات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور کسی بھی پیغمبر کی قربانی کا یہ واحد واقعہ ہے جو اس انداز میں وقوع پذیر ہوااور اس کی تمام تفصیلات قرآن کریم نے محفوظ کیا۔ ذبح عظیم کے اس سارے واقعہ سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ کا نبی سراپا تسلیم و رضا ہوتا ہے۔ رب العزت کے حکم کے سامنے اپنی وضاحت یا دلیل کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ جو حکم ہوتا ہے وہ بلا کم و کاست اس کی تعمیل کی جاتی ہے۔ جبکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی زندگی کو محفوظ رکھنے کے کئی مقاصد تھے لیکن سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ اس عظیم پیغمبر کی نسل سے نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺ کی ولاد باسعادت ہونا تھی۔ اسی لئے حضرت اسماعیل کی جگہ دنبے کی قربانی کی صورت میں "عظیم ذبح" کو بدل دیا گیا۔ ذبح عظیم کے منصب پر فائز ہونے کے بعد حضرت اسماعیل علیہ السلام سن بلوغت کو پہنچے تو ان کے والدج ماجد کو کعبۃ اللہ کی تعمیر کا حکم ہوا۔
دونوں عظیم باب بیٹا کعبۃ اللہ کی تعمیر میں مصروف ہو گئے۔ باپ مستری کا کام کر رہا تھا جبہ حضر ت اسماعیل علیہ السلام مزدور کی طرح پتھر اٹھا اٹھا کرلاتے اور اللہ کے گھر کی تعمیر مکمل ہوتی رہی۔ جب کعبۃ اللہ کی عمارت قد انسانی سے بلند ہوئی تو حضرت ابراہیم جس پتھر پرکھڑے ہو کر تعمیر کعبہ کر رہے تھے وہ پتھر اونچا ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ کعبۃ اللہ کی تعمیر مکمل ہو گئی۔ اللہ کریم نے اپنے برگزیدہ بندے سے کہا کہ مانگئے کیا مانگتے ہو۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا مانگی وہ دعا حرف بحرف قرآن کریم میں موجود ہے۔ سور ۃبقرہ کی آیت نمبر 124سے لے کر 127تک کی آیات حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کو بیان کرتی ہیں۔ (ترجمہ) اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل کعبہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے تو دونوں دعا کر رہے تھے کہ اے ہمارے رب تو ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے بے شک تو خوب سننے والاخوب جاننے والا ہے۔ اے ہمارے رب ہم دونوں کو اپنے حکم کے سامنے جھکنے والا بنا اور ہماری اولاد سے بھی ایک امت کو خاص اپنا تابع فرمان بنا اور ہماری عادت والا بنا دے اور ہم پر (رحمت و مغفرت) کی نظر فرما۔ بے شک تو ہی بہت توبہ قبول فرمانے والا مہربان ہے۔ اے ہمارے رب ان میں اپنی جناب سے وہ آخری اور برگزیدہ رسول مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان(کے تقوی وقلوب) کو خوب پاک کر دے بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے"۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اس دعا میں ایک نبی کا سوال کیا اور ایک ایسا نبی جو نبوت کے سلسلہ کو ختم کرنے والا ہو۔ لوگوں کو حکمت سے تعلیم دینے والا ان کے نفوس کو پاک کرنے والا ان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دینے والا ہو۔ حضور اکرمﷺ کی بعثت اور آپ کے سر پر خاتم النبیین کاتاج سجایا اور پوری امت کے لئے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا۔ حضور اکرمﷺ ایک دعائے ابراہیم کا جواب تھے۔ آپ کے سر پر خاتم النبیین کا تاج بھی دعائے خلیل کا جواب تھا۔ حضور اکرمﷺ ذبح عظیم کے انعام کے طورپر عطا فرمائے گئے تھے آپ کی بعثت کاحسن یہ تھا کہ آپ کے خاندان میں آ پ کا کوئی صاحبزادہ بڑا نہیں ہو اجو نبوت کا دعویٰ کر سکتا البتہ ان کے خاندان نے ذبح عظیم کی روایت کو آگے بڑھایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ذبح عظیم کی وجہ سے امامت کا شرف عطا فرمایا گیا تھا۔ حضور اکرمﷺ کے خاندان اقدس سے سبط رسول امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنی قربانی دے کر ذبح عظیم کی روایت کو زندہ کیا۔
اگر شہادت امام حسینؑ کا تعلق ذبح اسماعیل سے نہ جوڑا جائے تو یہ بات نا مکمل رہتی ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ پر مینڈھے کی قربانی کو ذبح عظیم کہا گیا جبکہ نواسہ رسول ﷺ نے خود اپنی جان کی قربانی دے کر ذبح عظیم کو ایک نیا مفہوم عطا کیا۔ ذی الحجہ کے مقدس ماہ میں پوری امت اس ذبح عظیم کی یاد تازہ کرتی ہے۔ اس حوالہ سے آخری بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ قرآن کریم میں واضح طور پر ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ تک خون یا گوشت نہیں پہنچتا بلکہ تقوی اللہ کی بارگاہ میں قابل قبول ہتا ہے۔ اس لئے قربانی کافریضہ ادا کرتے وقت اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے کہ صرف جانور کی قربانی کافی نہیں ہے، خون بہانا کافی نہیں ہے بلکہ تقوی کا احساس پیدا کرنا ضروری ہے قربانی کے جانور ذبح کرتے ہوئے اپنی جھوٹی انا کی قربانی کرنا ہو گی۔ خواہشات نفسانی کو قربان کرنا ہوگا۔ باہمی تفرقات، باہمی نفرتوں کو قربان کرنا ہوگا۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قربانی اور ذبح عظیم کے مقاصد کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔