Barf Pighal Rahi Hai?
برف پگھل رہی ہے؟
گزشتہ ماہ میں ہونے والا بجٹ اجلاس پوری قوم کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے کی جانے والی ہلڑبازی میں ایک طرف تو اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر دی گئیں تو دوسری طرف حکومت اور اپوزیشن کے مابین بڑھتی ہوئی تلخی کی طرف بھی اشارہ کر دیا۔ گزشتہ بجٹ اجلاس میں قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی اور ایک دوسرے پر حملوں کے علاوہ گالم گلوچ پر تمام حلقوں میں شدید دکھ اور تشویش کا اظہار کیا تھا جب کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی ہونے والی ہنگامہ آرائی کا نوٹس لیا تھا۔ قومی اسمبلی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی پر بات چیت کے لئے وزیراعظم عمران خان نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو ملاقات کے لیے بلایا اور اس حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم اور اسپیکر قومی اسمبلی کی ملاقات سے قبل پارلیمنٹ ہاؤس میں اسد قیصر کی زیر صدارت تحقیقاتی اجلاس بھی ہوا، جس میں ڈپٹی اسپیکر اور سیکرٹری قومی اسمبلی شریک تھے، اجلاس میں ایوان میں ہنگامہ آرائی کی فوٹیجز اور شواہد کا جائزہ لیا گیا۔ اس ہنگامہ آرائی کے بعد ملک میں سیاسی درجہ حرارت میں اچانک اضافہ ہوگیا۔ حزب اختلاف کے قائد میاں شہباز شریف کی تقریر چار دن میں مکمل ہوئی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں نہ صرف حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ حکومتی اعداد و شمار پر بھی کئی سوالات اٹھا دیئے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپنی تقریر میں حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اپوزیشن اراکین نے بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا کہ حکومت عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے۔ پارلیمان کے اندر اور باہر قائدین کی تقاریر اور بیانات سے یوں لگ رہا تھا جیسے حکومت اور اپوزیشن کے مابین خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جا رہی ہے۔ اور آنے والے دنوں میں اس کشیدگی میں مزید اضافے کی توقع کی جا رہی تھی۔ لیکن حیرت انگیز طور پر ایک ایسا واقعہ وقوع پزیر ہوا جس نے پوری قوم کو حیرت میں مبتلا کر دیا۔ بجٹ کی دھجیاں بکھیرنے والے قائد حزب کے اختلاف نے منظوری کے وقت پارلیمنٹ میں آنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ قومی اسمبلی میں بجٹ2021 کی منظوری کے وقت قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی عدم موجودگی نے پارلیمانی اپوزیشن کے اتحاد پر ایک بار پھر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا۔ ساتھ ہی یہ تاثر بھی سامنے آنے لگا کہ مسلم لیگ ن ایک ڈیل کے تحت حکومت کیلے آسانی پیدا کر رہی ہے۔ بجٹ منظوری کے ایک مرحلہ پر ارکان کی گنتی کی گئی تو حکومت کے 172 اور اپوزیشن کے 138 ارکان موجود تھے جبکہ قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کے مطابق اپوزیشن کے کم سے کم 160 ارکان موجود ہونے چاہیے تھے۔
اپوزیشن کے 22 کے قریب غائب ارکان میں اکثریت نواز لیگ کی تھی اور اس اہم ترین اجلاس میں شرکت نہ کرنے والوں میں شہباز شریف بھی شامل تھے۔کیا ن لیگ اور حکومت کے مابین مفاہمت کا تاثر درست ہے؟ ن لیگ سے تعلق رکھنے والے اراکین کی عدم موجودگی نے ان افواہوں کو تقویت دی کہ یہ سب کچھ ایک خاموش مفاہمت کا نتیجہ ہے۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی کہا کہ وہ بجٹ کی منظوری کے وقت اپوزیشن ارکان کی تعداد پوری نہ ہونے کا معاملہ شہباز شریف کے سامنے اٹھائیں گے۔
یاد رہے کہ 17 جون کو قومی اسمبلی میں بجٹ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر شہبازشریف نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ بجٹ کی منظوری نہیں ہونے دیں گے اور حکومت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوں گے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ملک کے 22 کروڑ عوام نے ہمیں یہاں بھجوایا ہے اور ہم ان کی نمائندگی کرنا چاہتے ہیں۔ ہم یہ بجٹ پاس نہیں ہونے دیں گے اور اس بجٹ کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں گے۔ تین سال بعد ہمیں دوبارہ ریورس گیئر لگ چکا ہے اور اگر مہنگائی اور بیروزگاری میں کمی نہیں ہوئی تو یہ بجٹ دھوکہ ہے۔ تاہم منگل کو اجلاس میں شہباز شریف کی عدم موجودگی کو بہت واضح طور پر محسوس کیا گیا۔
شہباز شریف کی عدم موجودگی پر تنقید کے بعد مسلم لیگ نواز کی ترجمان مریم اورنگزیب نے وضاحتی ٹویٹ کیا جس میں انہوں نے کہا کہ شہباز شریف اپنے تایا زاد بھائی اور برادر نسبتی میاں طارق شفیع کی وفات کے باعث جنازے اور لاہور میں رسم قل کی وجہ سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کر سکے۔ ان کی عدم موجودگی پر پریشان ہونے والے اب ان سے تعزیت کر سکتے ہیں۔ ، ن لیگ کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے بلاول بھٹو کے بیان کو غیر زمہ دارانہ قرار دیا۔
مریم اورنگزیب نے مزید کہا حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن کے تمام ارکان کے موجود ہونے کے باوجود بجٹ منظور ہونے سے نہیں روکا جا سکتا تھا۔ بجٹ 172 ووٹ سے منظورہوا، اختر مینگل اور جماعت اسلامی کی عدم موجودگی کے بعد اپوزیشن کے کل ووٹ 161 بنتے تھے جس سے فنانس بل پر کوئی اثر نہیں پڑنا تھا۔ سستی سیاسی بیان بازی لاحاصل مشق ہے۔ ن لیگ کی ترجمان نے کہا کہ اپوزیشن کا کام بجٹ نکات کی خامیوں اور نقائص کی نشاندہی ہوتا ہے۔ تاریخ کا پہلا بجٹ ہے جس میں اپوزیشن کی نشاندہی پر خاصی تبدیلیاں ہوئیں اور حکومت کو پے درپے اتنے یوٹرنز لینے پڑے۔ فنانس بل میں اپوزیشن کی تجویز کردہ 15 شقوں میں 35 سے زائد ترامیم کی گئیں۔ ادھر سما ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ن لیگ کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے بلاول بھٹو کے بیان کو غیر زمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی فنانس بل پر ہم سے شرارت کر رہی ہے۔ میں پیپلز پارٹی کے رویے کی مذمت کرتا ہوں۔
آزاد ذرائع اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے مابین رابطہ بحال ہوگئے ہیں اور اپوزیشن نے ایک ڈیل کے تحت بجٹ پاس کرانے کیلے حکومت کو موقع دیا ہے۔ بی بی سی اردو پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں پیپلز پارٹی کی راہنما شازیہ مری کا موقف شائع کیا گیا ہے جس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے حکومت اور اپوزیشن کو مقتدر حلقوں کی طرف سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ اپنے معاملات کو درست کریں۔ شازیہ مری کے مطابق ان کی قیادت کو سپیکر چیمبر بلایا گیا اور وزیر اعظم کی تقریر سے متعلق بات کی گئی۔ ان کے مطابق ہم تو ویسے بھی کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو اکھاڑا نہ بنایا جائے۔ ہم ایک عرصے سے سپیکر کو یاد دلاتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو آئین اور قانون کی روشنی میں چلایا جائے۔ اس طرح پارلیمنٹ کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ جو مناظر 13 جون کو دیکھے وہ نہ صرف قابل غور ہیں بلکہ قابل شرم بھی ہیں۔
شازیہ مری نے مزید کہا کہ سپیکر نے جس انداز میں فنانس بل رولز کی خلاف ورزی میں پاس کروایا ہے اس پر نہ صرف ان کی جماعت نے اعتراض کیا بلکہ سپیکر کو اس پر خط بھی لکھا گیا۔ تاہم ان کے مطابق حکومت کی طرف سے رابطے کرنے پر اس بات پر اتفاق ہوا کہ وزیر اعظم اپنی تقریر میں قومی مفاد پر بات کریں گے اور اپوزیشن قیادت پر الزام تراشی نہیں کریں گے ورنہ سیاسی کارکنان اس پر ردعمل دیں گے کیونکہ وہ اپنی قیادت پر اس طرح کیچڑ اچھالنے کو پسند نہیں کرتے۔ شازیہ مری کے مطابق پارلیمانی روایات ہیں کہ پارلیمنٹ کا ماحول اچھا رکھنے کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں مگر اس کے ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی سمجھوتہ ہو گیا ہے۔ ان کے مطابق حکومت کو آئندہ بھی سیدھے رستے پر رکھنے کے لیے پارلیمانی روایات کو یاد کراتے رہیں گے۔
اس معاملے پر سیاسی تجزیہ کاروں کی آرا بھی منقسم نظر آ رہی ہیں۔ لمز کے شعبہ ابلاغیات کے سربراہ پروفیسر رسول بخش رئیس کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اپوزیشن اور حکومت کو یہ بات سمجھائی ہے کہ خطے کے حالات کے سازگار نہیں ہیں اور ایسے میں اتفاق رائے پہلے سے بھی کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے مطابق حکومت اور اپوزیشن کے مؤقف میں نرمی ضرور واقع ہوئی ہے۔ ان کے خیال میں پیپلز پارٹی سندھ حکومت تک ہی معاملات آگے بڑھا رہی ہے جبکہ مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے درمیان بیک ڈور رابطوں میں یہ بات طے پا گئی ہے کہ اب حالات کو سازگار بنانا ہے۔ زرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیز فائر متوقع تھا کیونکہ وزیر اعظم کو اپنی بات کہنی تھی اور پھر اس کے بدلے میں انھوں نے اپوزیشن کو چور اور ڈاکو نہیں کہا۔ ان کے مطابق اس وقت مفاہمت ممکن نہیں ہے کیونکہ عمران خان جمہوریت میں بھی کرکٹ کے اصول لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق ابھی تک عمران خان اسی ذہنیت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں کہ اپوزیشن والے چور ڈاکو ہیں اور وہ ان کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔
سینئر تجزیہ کار اور صحافی نسیم زہرا کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے خود کہہ دیا کہ انتخابی اصلاحات کی جائیں۔ ان کے مطابق کچھ نہ کچھ حالات سازگار ضرور ہو رہے ہیں اور اب حکومت کے رویے میں تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ تاہم میرے خیال میں نسیم زہرا کا یہ کہنا کہنا قبل از وقت ہے حکومت اور اپوزیشن میں اگرچہ دوریاں کم ہو رہی ہیں لیکن یہ کہنا آسان نہیں کہ یہ مفاہمت اور ڈیل کس جماعت کے ساتھ ہورہی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ کے صدر میاں شہباز شریف ملکی سیاست کے حوالے سے اپنی ایک الگ رائے رکھتے ہیں جس سے اختلاف کرنے والوں کی بھی ایک خاصی بڑی تعداد موجود ہے۔ قائد حزب اختلاف کے زیر حراست عرصے کے دوران محترمہ مریم نواز نے جو بیانیہ اختیار کیا وہ اب خاموشی کا شکار نظر آ رہا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ نون نے مفاہمتی عمل کی حقیقت کو قبول کرلیا ہے۔ فوجی قیادت کی طرف سے دی جانے والی بریفنگ کے دوران مسلم لیگ ن کے راہ نماؤں کی گرم جوشی بتا رہی تھی کہ وہ اس امر کے خواہاں ہیں کہ مقتدر حلقے مفاہمت کی بات کو آگے بڑھائیں۔ لیکن جس طرح کے اوپر عرض کیا یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوئی ڈیل اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکے گی جب تک میاں نواز شریف کی تائید حاصل نہیں ہوگی۔
آنے والے دو ماہ اس حوالے سے بہت اہمیت کے حامل ہیں ان میں سیاسی منظرنامہ بڑی حد تک واضح ہو جائے گا۔ آنے والے مہینوں میں پی ڈی ایم کا مستقبل بھی مزید واضح ہو جائے گا اور یہ وقت فیصلہ کرے گا کہ اس کے تنِ مردہ میں جان پڑتی ہے یا نہیں۔ لیکن اس حقیقت سے انکار کرنا ممکن نہیں کہ مسلم لیگ نون اس وقت مفاہمت کی کشتی پر سوار ہو چکی ہے۔ اور آئندہ انتخابات کے لئے اپنی راہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔