Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Farooq Bahaul Haq
  4. Bab e Jibreel Ke Pehlu Mein

Bab e Jibreel Ke Pehlu Mein

بابِ جبریل کے پہلو میں

رمضان المبارک کی ستائیسویں شب مسجدِ نبویؐ شریف کے احاطے میں جو طوفانِ بدتمیزی برپا ہوا اس سے ہر مسلمان کا دل پارہ پارہ ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ستر ہزار فرشتے صبح اور ستر ہزار ہی شام کو سلام کے لیے آتے ہیں، جہاں پر جبریلِ امین بھی ادب کے ساتھ رحمتِ عالم کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تھے، جہاں کی حاضری کے آداب خود اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو سکھائے۔

جہاں پر آواز بلند ہونے سے تمام عمر کے نیک اعمال کے ضائع ہونے کی وعید سنائی گئی، جس جگہ جنید و بایزید پست آواز میں بات کرتے ہیں، جہاں پر اولیا، فقہا اور علما اپنی سانس روک کر حاضری دیتے ہیں، جہاں امتی گناہوں کی گٹھڑیاں لے کر آتے ہیں اور شفاعت سے دامنِ مراد بھر کر لے جاتے ہیں، یہ وہ مقام ہے کہ جہاں ریاض الجنہ ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں رحمت عالمﷺ خود آرام فرما ہیں۔

وہاں پر سیاست کا غلیظ کھیل کھیلنا انتہائی شرمناک، افسوسناک اور قابلِ مذمت عمل ہے۔ حضرت امام مالک رضی اللہ تعالی عنہ ساری عمر حدیث پڑھاتے رہے لیکن حدیث پڑھاتے ہوئے بھی کبھی ان کی آواز بلند نہ ہوئی۔ اس سارے واقعے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ باقاعدہ اس کی منصوبہ بندی کر کے لوگ وہاں پر بھیجے گئے۔ سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کی پریس کانفرنس کے بعد کسی وضاحت کی ضرورت نہیں۔

اگرچہ امتِ مسلمہ اور پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے اس واقعہ کی شدید مذمت کی تاہم خود عمران خان کا وضاحتی بیان کسی لحاظ سے تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا دیگر وفاقی وزرا کے تو کیا ہی کہنے ہیں۔ یہ حادثہ ایک دم نہیں ہوا بلکہ کئی برسوں سے اس طرح کے واقعات کی باقاعدہ پرورش کی جاتی رہی۔ پاکستان کی ساری سیاسی قیادت نے اس حوالے سے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔

اپنے کارکنوں کی تربیت کے بجائے انہیں شتر بےمہار کی طرح چھوڑ دیا جس کا ایک نتیجہ تو مدینہ شریف میں ظاہر ہوا جبکہ دوسری طرف ترکی میں بھی اسی قسم کے نتائج سے وہاں مقیم پاکستانیوں کو گزرنا پڑا۔ ترکی میں موجود بعض پاکستانیوں نے ترک خواتین کی نازیبا وڈیو ٹک ٹاک پر اپلوڈ کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ترکی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان کے خلاف باقاعدہ ٹرینڈ گردش میں رہا۔

دنیا میں کون سا ملک ہے جہاں پر باہمی سیاسی آویزش موجود نہیں لیکن ہم نے آج تک نہیں سنا کہ کسی ملک کے شہریوں نے بیرون ملک جاکر اپنی سیاست کے گندے کپڑے وہاں کے چوک چوراہوں میں دھوئے ہوں لیکن حالیہ دنوں میں دنیا بھر کے مختلف شہروں میں پاکستان کے حوالے سے انتہائی نامناسب تصویر پوری دنیا کے سامنے پیش ہوئی۔ سب لوگوں نے اپنے ہی ملک کے سیاستدانوں کے خلاف انتہائی بے ہودہ نعرے بازی کی۔

لندن میں میاں نواز شریف کی رہائش گاہ کے باہر مظاہرہ ہو یا پھر عمران خان کی سابق اہلیہ کے گھر کے سامنے، یہ دراصل اسی تربیت کے عکاس ہیں جو سیاسی جماعتوں نے گزشتہ برسوں میں اپنے کارکنوں کو دی ہے۔ بعض احباب یہ دلیل دیتے رہے کہ ماضی میں بھی مسجدِ نبویؐ میں نعرے بازی کی گئی، میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا پاکستان کے علاوہ پورے عالمِ اسلام سے کوئی اور شخصیت مسجدِ نبویؐ کی حاضری کو نہیں جاتی؟

کیا دیگر ممالک کے سربراہانِ مملکت مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں حاضری نہیں دیتے؟ آخر ہمارے لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ جہاں پر لوگ اپنے گناہوں کی معافی لینے کے لیے جاتے ہیں وہاں پر وہ دوسروں کے گناہوں پر نظر رکھتے اور ان کے خلاف آوازے کسنا شروع کر دیتے ہیں۔

یہ واقعہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے ایک سیاہ دھبے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس طرح بعض اداروں کے فیصلے ہمیشہ ان کا پیچھا کرتے ہیں اور سالہا سال گزرنے کے بعد بھی ان فیصلوں کی سیاہی ان کے ماتھے سے ختم نہیں ہوتی، اسی طرح مسجدِ نبویؐ کی بےحرمتی کا یہ واقعہ تحریک انصاف کا ہمیشہ پیچھا کرتا رہے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین سر جوڑ کر بیٹھیں۔

اس اجتماعی گناہ پر اجتماعی معافی طلب کریں اور اپنے کارکنوں کی تربیت کا اہتمام کریں۔ خصوصی طور پر عمران خان کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ خود بھی سیرت النبی ﷺ کی ایسی کتاب کا مطالعہ کریں جو کسی مستشرق کے بجائے محبتِ رسولؐ سے سرشار کسی شخص نے لکھی ہو تاکہ انہیں اخلاقِ نبویؐ کی صحیح تعلیمات سے آگاہی ہو۔

اسی طرح پاکستان مسلم لیگ نون اور دیگر جماعتوں کے قائدین کو بھی اضلاع اور تحصیل کی سطح پر اپنے کارکنان کی تربیت کا اہتمام کرنا ہوگا۔ ورنہ سیاسی قائدین کے لیے گھروں سے نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ اس دلخراش خبر کے پہلو بہ پہلو ترک صدر کے دورہ سعودی عرب نے طبیعت کو شاد کام بھی کیا۔ صدر اردوان اور کنگ سلمان بن عبدالعزیز کی محبت بھری ملاقات نے پوری دنیا کو ایک مثبت پیغام دیا۔

دونوں ممالک نے ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے مل کر چلنے کا عہد کیا۔ دوسری خوش کن خبر یہ تھی کہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کا سعودی عرب میں حکومتی سطح پر پُرتپاک استقبال ہوا۔ پاکستان میں سعودی سفیر میرے محترم دوست نواف بن مالکی جیسی متحرک شخصیت نے اس دورے کو کامیاب بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کیا۔

پرنس محمد بن سلمان نے پاکستان کے ساتھ اپنی محبت کا بھرپور اظہار کیا اور پاکستان کی معیشت کی بہتری کے لیے شاندار پیکیج کا اعلان کیا جس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

Check Also

Aik He Baar

By Javed Chaudhry