Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Faraz Ahmad Rana
  4. Hiran Ki Khaal

Hiran Ki Khaal

ہرن کی کھال

بیٹا ہم کیا کریں ہم غریب لوگ ہیں۔ ہم ووٹ نہ دیں تو ہم پر پرچہ ہو جاتا ہے ہمارے گھر ڈاکو آجاتے ہیں یا ہمارے بچوں کو پولیس اٹھالیتی ہے اور اگر کوئی زیادہ مزاحم ہو تو اسے مروا دیا جاتا ہے یا مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ بزرگ تقریباََ رودینے کو تھا میں اور میرے ساتھ میں موجود آرمی کا اہلکار پشیمان تھے کہ ہم نے اس بوڑھے سے سوال کیوں کیا۔

ہوا یہ تھا کہ ہم اس علاقے میں مردم شماری کی ڈیوٹی کررہے تھے میری ڈیوٹی ان دوگاؤں میں تھی ان دونوں گاؤں کے نزدیک ایک طاقتور سیاستدان کا ڈیرہ تھا اور میں نے دیکھا کہ دونوں گاؤں میں نہ سکول تھا نہ لوگ پڑھے لکھے تھے ایک گاؤں کی 1800 آبادی تھی جس میں میٹرک پاس لوگوں کی اس وقت بمشکل تعداد 10 سے 15 تک ہوگی۔

ایک چھوٹی سی گلی میں چھوٹے سے ایک کمرے کی مکان میں ایک بچی نے سکول بنایا تھا ہمیں معلوم ہوا کہ نشہ اور منشیات کے استعمال سے اس پورے گاؤں میں بہت سے نوجوان مرچکے ہیں۔ ہر تیسرے چوتھے گھر میں کسی نے کسی نوجوان کی نشہ استعمال کرنے سے موت ہوچکی تھی میرے لیے اس صورتحال پر یقین کرنا کافی مشکل تھا کیوں کہ یہ پنجاب کا ایک علاقے تھا اور لاہور شہر سے کافی نزدیک تھا۔

میرے ساتھ موجود فوجی اہلکار سخت غصے میں تھا اور میں انتہائی رنجیدہ۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ سندھ کی طرح کا وڈیرہ سسٹم یہاں بھی رائج تھا اور لوگوں کو دانستہ طور پر شعور سے محروم رکھ کر محکوم بنایا جاتا تھا۔ اگلے دن میں اور سپاہی ہم اس طاقتور سیاستدان کے رشتہِ دار کے گھر میں موجود تھے اور سپاہی نے سخت لہجے میں ان سے پوچھا کہ وہ گاؤں میں سکول کیوں نہیں بننے دے رہے تو ان کا جواب تھا کہ اس میں ہمارا قصور نہیں ہے ہم تو خود ان طاقتور لوگوں کے عتاب کا شکار ہیں ہمارے رشتے دار ہونے کے باوجود اور اس کو ووٹ دینے کے باوجود وہ سیاستدان ہماری شہر میں زمین پر قبضہ کرناچاہتا ہے۔

ان دو گاؤں میں میری اپریل 2017 سے مئی 2017 ایک ماہ تک ڈیوٹی تھی اور اس دوران وہ سپاہی گاؤں والوں کو مسلسل تعلیم اور سکول بنانے کے مشورہ دیتا رہا اور ایک دن جب ہم ایک گھر کے سامنے ڈیٹا لکھ رہے تھے اچانک ایک ویگو ڈالا پہنچا جس میں چار سے پانچ ٹاؤٹ ٹائپ لوگ موجود تھے۔ ان میں ایک نے باہر سر نکالا اور سپاہی سے کہا سرکار کیسا کام چل رہا ہے سپاہی نے ناراض سے لہجے میں کہا ٹھیک چل رہا ہے تو ایک دوسرا ٹاؤٹ جو ڈیل ڈول سے کافی لمبا تڑنگا تھا چہرے پر مونچھیں تھیں اور شکل سے کوئی لفنگا معلوم ہوتا تھا باہر نکلا اور سپاہی سے بولا (سرکار تسی آ مردم شماری آلے استاد دے حفاظت کروآ سکولا شکولا آلیاں گلاں بہتر اے نہ کرو) مطلب تھا اس سپاہی کو طاقتور سیاستدان کے کارندوں نے وارننگ دی کہ وہ اپنا کام کرے اور لوگوں کو مت بھڑکائے۔

مگر سپاہی نے پورا مہینے لوگوں کو موٹیویٹ کیا اس کی بات لوگ ماننتے تھے مگر وہاں کے بوڑھے بے بس تھے جوان نشہ کا شکار تھا اور غربت اور بے بسی نے ان کی زندگیوں پر ڈیرہ ڈالا ہوا تھا ان کے گاؤں میں موجود مجرم اور جرائم پیشہ افراد کو سیاستدان کی آشیر باد حاصل تھی اور وہ لوگ تمام گاؤں والوں پر سیاستدان اور اپنے فائدے کے لیے عتاب ڈھاتے رہتے تھے۔

میں نے یہ صورتحال پنجاب میں پہلی دفعہ دیکھی تھی مجھے لگا کہ میں غلاموں کے اس زمانے میں آگیا ہوں جب انسانی منڈیاں لگتی تھیں اور لوگ پیسوں کے عوص بیچے جاتے تھے غلام بے شعور تھے اور شعور والے یا خاموش کروا دیے جاتے یا ان کو مختلف کیسز اور مقدمے بازیوں اور بلیک میلنگ کاسامنا کرنا پڑتا۔

2017 کی مردم شماری کا مہینہ گزر گیا مگر آج بھی جب میں اسی سیاستدان سے بڑے بڑے نعرے سننتا ہوں تو مجھے بچپن میں پڑھی اس کہانی کا وہ بھیڑیا یاد آجاتاہیں جو ہرنوں کا شکار کرنے کے لیے ہرن کی کھال پہن لیتا ہے۔

Check Also

Amjad Siddique

By Rauf Klasra