Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Fakhar Alam Qureshi
  4. Qaumi Wahdat Aur Ghair Muqami Ka Naara

Qaumi Wahdat Aur Ghair Muqami Ka Naara

قومی وحدت اور غیر مقامی کا نعرہ

کیا یہ ممکن ہے کہ میں ان یادگار لمحات اور دوستوں کو فراموش کر دوں جو میری زندگی کے قیمتی اثاثے ہیں؟ کیا وہ دن میری یادداشت سے مٹ سکتے ہیں جب میں نے پنجابی دوستوں کے ساتھ ایک ہی چھت تلے، محبتوں اور اخلاص کے حصار میں زندگی کے حسین لمحات گزارے؟ یہ تعلقات نہ صرف دوستی کی معراج کو چھوتے تھے بلکہ انسانی رشتوں کی گہرائی اور پاکیزگی کی مثال بھی تھے۔ وہ دن، جب ہم ایک ہی پلیٹ میں کھانا کھاتے، ایک دوسرے کا خیال رکھتے، اور ایک دوسرے کے کپڑے دھوتے تھے، آج بھی میری زندگی کے انمول خزانے ہیں۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ آج میں ان ناقابل فراموش یادوں کو نظر انداز کر دوں اور محض چند مفادات کی خاطر ان دوستوں کو غیرمقامی کہہ کر ان سے بیزاری کا اظہار کروں؟ کیا وہی قوم جو میرے ساتھ زندگی کے نشیب و فراز میں شریک رہی، آج غیرمقامی قرار دی جا سکتی ہے؟ کیا یہ انہی لوگوں کا حق ہے جو میرے ساتھ خوشی اور غم میں برابر کے شریک تھے؟

دیامر بھاشہ ڈیم پراجیکٹ ہو یا دیگر قومی منصوبے ملازمتوں کے مواقع پر غیرمقامی کا نعرہ لگانا نہایت ہی دل خراش ہے۔ یہ نعرہ ملک کے اتحاد اور یکجہتی کے لیے زہر قاتل کی مانند ہے۔ کسی بھی علاقے کے باشندوں کو غیرمقامی کہہ کر پکارنا نہ صرف قومی وحدت کے خلاف سازش ہے بلکہ یہ معاشرتی نظام کے شیرازے کو بکھیرنے کے مترادف ہے۔ دیامر بھاشہ ڈیم کے تناظر میں اس قسم کے نعروں کا اُٹھایا جانا ایک انتہائی خطرناک امر ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک ایسی آگ ہے جو ہمارے ہی وجود کو جلا کر راکھ کر دے گی۔

پنجاب اور سندھ کی اعلی جامعات نے نہ صرف ہمیں علم و آگہی کی دولت سے نوازا بلکہ ہمارے کردار کو بھی سنوارا۔ ان اداروں نے ہمارے ذہنوں کو فکر و عمل کے نئے زاویئے دیئے، ہمارے شعور کو وسعت دی، اور ہمیں اس قابل بنایا کہ آج ہم بول سکتے ہیں، لکھ سکتے ہیں، اور دنیا کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔ کیا ایسے تعلیمی اداروں اور اساتذہ کے فضائل کو فراموش کر دینا دانشمندی ہے؟ کیا یہ درست ہے کہ انہی اداروں سے فیض یاب ہونے والے لوگ ان صوبوں کے باشندوں کو غیرمقامی قرار دے کر ان سے نفرت کا اظہار کریں؟

غیرمقامی کا نعرہ وہ ہتھیار ہے جو قوموں کے درمیان نفرت کی خلیج کو بڑھاتا ہے اور ان کو تقسیم کرکے اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے والوں کے ہاتھ میں ایک خطرناک ہتھیار بن جاتا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں۔ ایک مہذب اور ترقی یافتہ معاشرہ وہی ہوتا ہے جہاں تمام قومیں اور طبقات یکجا ہو کر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں۔

چند ملازمتوں کے لیے غیرمقامی کا نعرہ لگانا ہماری معاشرتی بنیادوں کو کمزور کر رہا ہے۔ یہ سوچ ہمیں ایک دوسرے سے جدا کرکے ہماری وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش ہے۔ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ تعلیم اور شعور نے ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے مضبوط کیا ہے، اور یہ وہی تعلیمی درسگاہیں ہیں جنہوں نے ہمارے ذہنوں کو تراشا اور ہمارے کردار کو نکھارا۔ کیا یہ درست ہے کہ ہم ان درسگاہوں کو فراموش کر دیں اور ان کے فیض یافتہ لوگوں کو غیرمقامی قرار دے کر ان سے بیزاری کا اظہار کریں؟

اگر ہم ایک باشعور قوم کے طور پر اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہونا چاہتے ہیں، تو ہمیں ان تفرقہ انگیز نعروں سے بچنا ہوگا جو ہمیں تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں مقامی اور غیرمقامی کے فرق کو مٹا کر ایک مضبوط اور متحد قوم کی حیثیت سے آگے بڑھنا ہوگا۔ ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے ہمیں اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ہمارا نصب العین ایک خوشحال، تعلیم یافتہ اور پرامن پاکستان ہونا چاہیے، جہاں تمام شہری ایک دوسرے کے حقوق اور ذمہ داریوں کا احترام کرتے ہوئے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔

Check Also

Muqtadra Ki Hakoomati Bandobast Ki Janib Peh Raft

By Nusrat Javed