Gilgit Baltistan Mein Firqa Wariat Aur Bairooni Mudakhlat
گلگت بلتستان میں فرقہ واریت اور بیرونی مداخلت
گلگت بلتستان کی سرسبز وادیوں اور پہاڑی سلسلوں کی خوبصورتی اپنی جگہ، لیکن اس خطے کی تاریخ میں جو تلخ حالات جڑ پکڑ چکے ہیں، ان کا بھی اپنا ایک مکروہ جمال ہے۔ انیس سو اٹھاسی کے فرقہ وارانہ فسادات نے اس علاقے کی سماجی اور مذہبی بنتر پر گہرے اثرات مرتب کیے، جن کی جڑیں دور دراز کی سیاسی اور سماجی سازشوں میں پیوست ہیں۔
جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت (انیس سو ستتر سے اٹھاسی) تک نے پاکستان کی سیاست میں ایک زبردست تحویل لہر دوڑائی۔ ضیاء الحق کے اقتدار میں آنے کے بعد، اسلامی قوانین کا نفاذ مذہبی شناخت کی سیاست کو بھڑکانے کا باعث بنا۔ ان قوانین نے مذہبی فرقہ واریت کو نئے زاویے فراہم کیے، خاص طور پر گلگت بلتستان جیسے حساس علاقوں میں جہاں شیعہ اور سنی برادریاں ایک دوسرے کے ساتھ رہتی ہیں۔ ضیاء الحق کی حکومت نے فرقہ واریت کو اپنی حکومتی گرفت کو مستحکم کرنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، جس سے مذہبی تناؤ میں اضافہ ہوا۔
گلگت بلتستان میں نسلی اور مذہبی تقسیم ایک ایسی حقیقت ہے جس نے مقامی سیاست اور سماجی تناؤ کو ہوا دی۔ ضیاء الحق کی حکومت نے ان تقسیمات کو بڑھاوا دے کر مقامی آبادی پر کنٹرول برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ اس نے علاقے میں بنیادی استحکام کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا، جس کے اثرات طویل عرصے تک محسوس کیے گئے۔
انیس سو اسی کی دہائی کے دوران افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ نے پاکستان میں افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کو جنم دیا۔ ان مہاجرین کے ساتھ اسلحہ اور انتہا پسند نظریات بھی آئے، جو گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ تناؤ کو مزید بھڑکانے کا باعث بنے۔ ان تناؤ کی بنا پر مقامی آبادی نے مذہبی اختلافات کو شدت سے محسوس کیا، جس نے فرقہ وارانہ کشیدگی میں مزید اضافہ کیا۔
ضیاء الحق کی حکومت نے فرقہ واریت کو سیاسی مخالفین کو کمزور کرنے کے لیے ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ فرقہ وارانہ کشیدگی نے عوام کی توجہ حکومت کی ناکامیوں سے ہٹا دی اور مزاحمت کو کمزور کر دیا۔ اس حکمت عملی نے عارضی استحکام فراہم کیا، لیکن اس کے طویل مدتی اثرات فرقہ وارانہ تناؤ کی صورت میں ظاہر ہوئے۔
گلگت بلتستان کی جغرافیائی اہمیت بین الاقوامی مفادات کو تحریک دیتی ہے۔ بھارت، چین، اور افغانستان کے قریب ہونے کی وجہ سے اس خطے کی اہمیت بین الاقوامی طاقتوں کے مفادات کے لیے باعث تشویش ہے۔ چین کی CPEC (چین پاکستان اقتصادی راہداری) میں سرمایہ کاری نے اس خطے کی اقتصادی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ CPEC کے ذریعے چین اپنی اقتصادی اور اسٹریٹجک منصوبہ بندی کو فروغ دے رہا ہے، جو گلگت بلتستان کی ترقی اور استحکام میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
گلگت بلتستان میں معدنیات اور معدنی ذخائر کی موجودگی نے عالمی طاقتوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ یہ خطہ قدرتی وسائل کے استحصال میں دلچسپی رکھنے والی عالمی قوتوں کے لیے اہم ہے۔ اس خطے کی سیاحت بھی عالمی سطح پر دلچسپی کا باعث ہے، جو اقتصادی فوائد کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
پاکستان، بھارت، اور چین کے درمیان علاقائی کشیدگی نے بیرونی قوتوں کو گلگت بلتستان میں مداخلت کا موقع فراہم کیا ہے۔ ان طاقتوں نے اپنے جغرافیائی اور سیاسی مفادات کو فروغ دینے کے لیے اس خطے میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی ہے۔ چین کی CPEC کے تحت سرمایہ کاری، پاکستان اور چین کے قریبی تعلقات، اور عالمی سطح پر دیگر طاقتوں کی سرگرمیاں اس خطے کی کشیدگی کی ایک بڑی وجہ ہیں۔
گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی پیچیدگی کو سمجھنے کے لیے ایک جامع اور حقیقت پسندانہ نقطہ نظر اپنانا ضروری ہے۔ اس مسئلے کا مستقل حل فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے، انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے، اور سماجی و اقتصادی ترقی کو بہتر بنانے میں مضمر ہے۔ مقامی آبادی کے درمیان مکالمے اور سمجھوتے کی ضرورت ہے، اور وفاقی حکومت کو ترقیاتی منصوبوں میں تمام فرقوں کو شامل کرتے ہوئے ایک جامع اور مساویانہ پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔
گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی تاریخ ایک پیچیدہ اور گہری نوعیت کی ہے، جس میں مذہبی، سماجی، اور سیاسی عوامل کا گٹھ جوڑ ہے۔ اس خطے کی جغرافیائی اہمیت اور قدرتی وسائل نے اسے بین الاقوامی طاقتوں کی نظر میں اہم بنایا ہے، جبکہ مقامی سیاسی اور مذہبی تقسیم نے فرقہ واریت کو ہوا دی ہے۔ ان مسائل کا حل ایک جامع، متوازن، اور حقیقت پسندانہ نقطہ نظر اپنانے میں ہے، جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور سماجی استحکام کو فروغ دے سکتا ہے۔