Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Faislan Shafa Isfahani
  4. Muhammad Shafa Aik Misali Shakhsiyat

Muhammad Shafa Aik Misali Shakhsiyat

محمد شفاء ایک مثالی شخصیت

جس دھرتی میں ہم رہتے ہیں اس دھرتی کا ایک اصول ہے۔ اس دھرتی کا ایک اصول یہ ہے کہ اس دھرتی میں جو انسان خود سے زیادہ دوسرے لوگوں کے بارے میں سوچتا ہے، دوسرے لوگوں کے دکھ درد کو سمجھتا ہے، دوسرے لوگوں کی مجبوریوں کو سمجھتا ہے، دوسرے لوگوں کی باتوں کی قدر کرتا ہے، دوسرے لوگوں کے موقف کو سننے کی طاقت رکھتا ہے۔ ایسے لوگوں کو یہ دنیا کھبی نہیں بھولتی۔ وہ لوگ اس قابل ہوتے ہیں کہ انہیں ہر دور میں یاد کیا جائے۔ آج کے یہ الفاظ ایک ایسے آفیسر کے بارے میں ہے جنہوں نے ہمیشہ ہر چیز سے پہلے اپنے فرائض کو ترجیح دیا ہے، جنہوں نے ہر چیز سے پہلے اپنے اصولوں کو ترجیح دیا ہے۔ اور ترجیح دیتے آ رہے ہیں۔

آج میں اس انسان کی بات کر رہا ہوں جو فخر گلگت بلتستان اور فخر ضلع استور ہیں، جناب محمد شفاء صاحب ایس۔ ایس۔ پی (SSP) گلگت بلتستان ضلع استور۔ جناب محمد شفاء صاحب 01-جنوری-1972ء میں محکمہ پولیس گلگت بلتستان سے وابستہ ہوئے۔ انہوں نے اپنے دور میں اے۔ ایس۔ آئی (A.S.I) سے محکمہ پولیس میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ یہاں سے ان کی ایک الگ اور مختلف زندگی کا آغاز ہوا جس میں وہ خود سے پہلے اپنے وطن کے بارے میں سوچنے لگے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ جو آج کا دور ہے یعنی ہماری جو نئی نسلیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ تو مقابلے کا دور ہے۔ تو ان کو میں ایک بات یہاں پہ واضح کر دوں یہ جو لفظ مقابلہ ہے یہ ہر دور میں پایا جاتا ہے اور یہ لفظ ہر دور کے لیے ہے۔ اگر ہر دور میں کچھ مختلف ہوتا ہے تو وہ ہر دور کے لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن مقابلہ ہر دور کے لوگوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔ یہ بات ہر دور میں مقابلے کا پائیں جانے کی عکاسی کرتی ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے اور حقیقت کو ماننا پڑتا ہے۔

1972ء کا وہ دور اور آج کا یہ دور کی بات کرے تو أس دور میں سہولیات نام کی کوئی چیز نہیں تھی لیکن آج کے اس دور میں تعلیم حاصل کرنے والوں کو اور اپنے خوابوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے والوں کے لیے ہر طرح کی سہولیات موجود ہیں۔ اے۔ ایس۔ آئی (A.S.I) کے بعد محمد شفاء صاحب اپنی قابلیت اور محکمہ پولیس کے اندر اپنی بہترین کارکردگی کی وجہ سے بڑی تیزی کے ساتھ پروموشن حاصل کرتے گئے۔ اسی طرح سے پھر 1977ء میں سب انسپکٹر (Sub-Inspector) اور پھر 1984ء میں انسپکٹر (Inspector) میں ان کا پرموشن ہوا اور انسپکٹر (Inspector) بنے کے بعد محمد شفاء صاحب نے اپنا تبادلہ خود اپنی مرضی سے ڈسٹرکٹ چلاس کے علاقے دریل۔ تانگیر میں کرایا۔ یاد رہے دریل۔ تانگیر أس وقت سب سے خطرناک علاقہ تھا اس علاقے کو مجرموں کا گڑھ کہا جاتا تھا۔ أس وقت جتنے بھی آفیسر تھے وہ یہ چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طریقے سے ان کا تبادلہ کہیں بھی ہو جائے لیکن دریل۔ تانگیر چلاس میں نہ ہو۔ کیونکہ دریل۔ تانگیر ڈسٹرکٹ چلاس کا وہ علاقہ ہوا کرتا تھا جہاں پر جرائم کی شرح سب سے زیادہ ہوا کرتی تھی اور اس علاقے کے بارے میں خوف و ہراس لوگوں میں اتنا تھا کہ کوئی بھی آفیسر یہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا تبادلہ وہاں پہ ہو۔ لیکن محمد شفاء صاحب نے اپنے فرائض کے آگے کسی چیز کو نہ آنے دیا اور نہ کسی چیز کی پرواہ کی اور خود اپنے اعلیٰ حکام کو کہہ کر اپنی مرضی سے اپنا تبادلہ دریل۔ تانگیر کرایا۔ اور وہاں انہوں نے پولیس کے نظام کو چلاس دریل۔

جب انہوں نے وہاں پہ کیسیس(Cases) دیکھیں تو لاتعداد کیسیس(Cases) تھے۔ جو سب کے سب اغوا اور قتل کے ہی تھے۔ انہوں نے وہاں پہ ایک ایسے کیس(Case) کی چھان بین کی جو سات سال پرانا تھا اور ایک بچے کا اگواہ کا کیس(Case) تھا۔ اس سات سال پرانے کیس(Case) کو محمد شفاء صاحب نے حل کیا اور سات سال پرانے کیس(Case) کو تکمیل تک پہنچایا اور ملزموں کو حراست میں لے لیا۔ اس طرح انہوں نے سات سال پہلے دفن ہونے والے ایک پرانے کیس کو حل کرکے یہ بتا دیا کہ انصاف دیر سے لیکن ملتا ضرور ہے۔ اس کے بعد لوگ بھی پولیس پر پورا اعتماد کرنے لگے۔ محمد شفاء صاحب کا وہاں تبادلا ہونے پر لوگ بہت خوش تھے۔ اس کیس(Case) کے حل ہوتے ہی پورے گلگت بلتستان میں محمد شفاء صاحب کی حوصلہ افزائی ہوئی اور انہیں گلگت بلتستان کے اعلیٰ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اور اعلی حکام کی طرف سے بہت سارے انعامات اور سرٹیفکیٹ سے بھی نوازا گیا۔ اس کے بعد محمد شفاء صاحب کی بہادری اور بہترین کارکردگی کو دیکھتے ہوئے آئی۔ جی۔ پی (IGP) گلگت بلتستان نے انہیں سال 1984ء کے بہترین آفیسر کے ایوارڈ سے نوازا۔

جوان ہو یا آفیسر جب وہ اپنے بدن پہ وردی زیب تن کرتے ہیں تو انہیں اپنے فرائض کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔ گلگت بلتستان کا ایسا کوئی ضلع ایسا کوئی علاقہ نہیں جہاں پہ محمد شفاء صاحب نے اپنے فرائض سرانجام نہیں دیا ہو۔ اس کی ایک بڑی وجہ سیاسی اختلافات تھے جو انہیں ایک ضلعے میں رہنے نہیں دیتے تھے اور تبادلہ کراتے تھے۔ جس کی وجہ سے محمد شفا صاحب کو ہر ایک ضلعے میں بہت کم عرصہ اپنے فرائض سر انجام دینے کا موقع ملتا تھا۔ کیونکہ سیاستدان انہیں سیاسی اختلافات کی وجہ سے کسی ایک جگہ میں اچھی طرح کام کرنے نہیں دیتے تھے۔ لیکن انہوں نے کبھی اس کی فکر نہیں کی اور اپنے فرائض کو بہترین طریقے سے سر انجام دیتے رہے۔ محمد شفاء صاحب کو اپنے تجربے اور زبردست کارکردگی کی وجہ سے انہیں 2012ء میں ڈی۔ ایس۔ پی (DSP) ہیڈ کوارٹر گلگت بلتستان تعینات کیا گیا۔ جہاں انہوں نے تین سال اپنے فرائض سر انجام دیے۔

ان کی ایسی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انہیں آخر کار 2013 میں ایس۔ ایس۔ پی (SSP)کی پروموشن دیا گیا۔ محمد شفاء صاحب نے اپنے سروس کے پورے وقت میں اپنے آبائی گاؤں میں انہیں صرف دو سال فرائض سر انجام دینے کا موقع ملا۔ أس وقت وہ ڈی۔ ایس۔ پی(DSP) استور تھے اور بعد میں استور میں ہی ایس۔ ایس۔ پی (SSP) استور تعینات ہوئے تھے۔ وہ ہمیشہ سے یہی چاہتے تھے کہ ان کا تبادلہ جہاں بھی ہو لیکن اپنے علاقے میں نہ ہو اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اگر آپ اپنے علاقے میں بیٹھ کر جتنا بھی اچھا کام کریں تو لوگ أس کو نہیں دیکھتے ہیں اور اپنے علاقے میں آپ کی آپس میں اتنی رشتہ داریاں ہوتی ہیں کہ آپ اگر کام کرنا بھی چاہیں تو آپ کر نہیں سکتے کیونکہ کوئی رشتہ دار ہوتا ہے۔ اپنی سروس کا آخری حصہ انہوں نے بلتستان (سکردو) ضلع گانچے میں گزارا انہوں نے ضلع گانچے میں دو سال ایس۔ ایس۔ پی (SSP) ضلع گانچے کے فرائض سر انجام دیے۔ اس کے بعد 31-اگست-2015 کو اپنے عہدے سے باعزت ریٹائرڈ ہو گئے۔

محکمہ پولیس اور گلگت بلتستان کی عوام آپ کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ جیسے آفیسرز آنے والے نئے پولیس آفیسرز کے لیے ایک رول ماڈل ہیں اور رہنمائی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ وہ کہتے ہیں نہ عمر اور تجربے کو حاصل کرنے کے لیے کوئی شارٹ کٹ راستہ نہیں ہے۔ یہ چیزیں آپ کے پاس وقت کے ساتھ ساتھ آتی ہیں۔ اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھیں اور آباد رکھیں۔ آپ جئے ہزاروں سال۔ اللہ آپ کو صحت اور تندرستی دے۔

Check Also

Haye Kya Daur Tha Jo Beet Gaya

By Syed Mehdi Bukhari