Baltistan Ke Kamyab Logon Se Shikwa
بلتستان کے کامیاب لوگوں سے شکوہ
کامیابی لفظ بولنے میں تو بہت چھوٹا لگتا ہے لیکن جب کوئی اس لفظ کو پا لیتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ اس کی کتنی حکمت ہے۔ کامیابی کے لفظ سے کوئی بھی نا آشنا نہیں یہ لفظ ہر ایک کے لیے ضروری اور ہر ایک اس کو پانے کے لئے جدوجہد کرتا ہے اور اس کو پانے کے لیے اپنی جان مال اور وقت سب کچھ لگا دیتا ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ کامیابی کی اس دوڑ میں کچھ لوگ آگے نکل جاتے ہیں اور کچھ وہیں رہ جاتے ہیں جہاں سے انہوں نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ جو لوگ کامیاب ہوتے ہیں وہ ہمارے معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل کرتے ہیں اور اعلیٰ مقام پر فائز ہوتے ہیں۔ اب یہاں پر سوچنے کی ایک بات یہ ہے کہ اب یہ لوگ کامیاب ہوئے ہیں تو ان کا بھی کچھ فرض بنتا ہے یا نہیں؟
کچھ لوگ ناکام ہوتے ہیں تو صرف پڑھائی میں کمزور ہونے کی وجہ سے ناکام نہیں ہوتے بلکہ کچھ دوسری چیزیں بھی ہوتی ہیں۔ جی ہاں کچھ ایسی چیزیں جو اسے ناکام بنا دیتی ہیں۔ مثلا ایک انسان قابل بھی ہوتا ہے محنتی بھی ہوتا ہے محنت بھی کرتا ہے لیکن اس کو ماحول میسر نہ ہو یعنی اس کو پڑھانے والا ہی صحیح نہ ہو تو؟ یہاں میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے پڑھا کر کوئی یہ کہنے والا نہیں کہ تم اس میں محنت کرو، تم اس طرح پڑھو۔ میں یہاں ہمارے جی۔بی کے ان گاؤں کی بات کر رہا ہوں جہاں پر پڑھانے والا کوئی نہیں اور اتفاق کی بات یہ ہے کہ وہاں پڑھنے والا بھی کوئی نہیں۔ کوالٹی ایجوکیشن تو دور کی بات لوگوں کو بنیادی تعلیم ہی میسر نہیں۔ لیکن وہاں پہ تعلیم کا نام ونشان بھی نہیں۔ کوالٹی ایجوکیشن گلگت سٹی میں ہی نہیں ہے تو اندر گاؤں میں ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں، تو بہت سے لوگوں کے ناکام ہونے کی وجہ ایک اچھی تعلیم کا أس جگے میں نہیں ہونا ہے۔ اگر ہم تھوڑا سا غور کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ کامیاب ہوئے ہیں اور جو ناکام ہوئے ہیں ان سبھی کے حالات ایک ہی تھے لیکن کچھ اپنی راہ میں ڈٹ گئے اور کچھ نے اپنی راہ کو ترک کردیا۔ در حقیقت میں یہ کہوں گا کہ جو لوگ کامیاب ہوئے ہیں ان کو ان کی محنت نے اور صبر نے کامیابی کے دروازے پر پھینک دیا ہے۔
آئیں ہم اپنے اوپر والے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے کامیاب لوگوں سے میرا ایک ہی شکوہ ہے۔ گلگت بلتستان کے کامیاب لوگ جیسے ہمارے سیاستدان ہمارے افسران اور ہمارے بیروکریٹس ان سب سے میرا شکوہ ہے۔ ایک عجیب سا رجحان بن گیا ہے کہ جو بھی جی۔ بی کے کامیاب لوگ ہیں وہ جی۔ بی کو ترک کر رہے ہیں۔ جی ہاں آپ نے محسوس کیا ہو یا نہیں لیکن میں نے یہ محسوس کیا ہے۔ ہمارے جی بی کے بہت سے لوگ پاکستان کے دوسرے صوبوں میں آکر عیاشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن غریب بیچارا جو مالی امداد سے کمزور ہے وہ وہی کا وہی ہے۔ جو ہمارے مہاجرین حضرات جنہوں نے گلگت سے ہجرت کر لیا ہے اگر ہم ان سے ایک سوال کریں کہ آپ لوگ اپنے آباؤ و اجداد کے گاؤں کو چھوڑ کر یہاں کیوں آئے ہیں؟ تو ان کے پاس ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ بچوں کی پڑھائی کی وجہ سے یہاں آنا پڑا۔ تو میں ان سے یہ پوچھتا ہوں کہ کیا آپ کے بچوں کو جی بی کی پڑھائی راس نہ آئی؟ اگر جی بی کے تعلیم یافتہ لوگ اسی طرح جی بی سے نکلتے جائیں گے تو نیچے رہ جانے والوں کا کیا حال ہوگا؟ کوئی بندہ یہ بھی تو سوچے کہ ہم ادھر ہی بیٹھ کر ادھر کے تعلیمی نظام کی کوتاہیوں کو دور کریں۔ کوئی بندہ یہ نہیں سوچتا کہ چلو میں مالی طور پر مضبوط تھا تو میں نے اپنے بچوں کو یہاں لایا اگر کوئی مالی طور پر کمزور ہے تو وہ غریب ماں باپ کیا کریں۔ جو اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں وہ غریب ماں باپ کیا کریں۔ أن کے بھی کچھ خواب ہیں۔ ایسے خواب جو پورا ہونا ہی نہیں ہیں۔
جی بی کے ڈپٹی کمشنرز، سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، گورنر، وزیراعلی اور تمام افسروں کے بچے آوٹ آف سٹی گلگت سے باہر پڑھتے ہیں بلکہ آؤٹ آف ملک بھی۔غریب کا بچہ وہیں سکول میں جارہا ہے جہاں پہلے سے جا رہا تھا۔ جہاں پہ غریبوں کے بچے پڑھتے ہیں وہاں اعلیٰ افسران اپنے بچوں کو بھی تو ڈالے نا۔ جی بی کا تعلیمی نظام اچھا نہیں تھا تو آپ نے اپنے بچوں کو وہاں سے نکال کر ملک کے مختلف شہروں میں ڈال دیا تاکہ وہ اچھا سے اچھا پڑھے۔ آپ نے اپنے بچوں کو تو بھیج دیا اب وہ غریب ماں باپ کیا کریں جن کی آمدنی اتنی ہے کہ گھر کا خرچہ نکال کر بچے کو بڑی مشکل سے پڑھاتے ہیں۔ ان غریب ماں باپ کے بھی تو ایک خواب ہے کہ ان کا بھی دن بدلے۔ وہ بھی تو سکھ کی سانس لینا چاہتے ہیں۔ وہ بھی تو چاہتے ہیں کہ ان کے بھی دن اچھے گزرے۔ ان کے خوابوں کا کیا جو انہوں نے دیکھا ہے اور وہ یہ جانتے بھی ہیں کہ وہ جو خواب دیکھ رہے ہیں وہ کبھی پورا نہیں ہو سکتا کیوں کہ انہیں پتہ چلتا ہے کہ فلاں کا لڑکا وہاں پڑھ رہا ہے فلاں کا لڑکا اس یونیورسٹی میں پڑھ رہے تو آپ کا بیٹا کونسا ادھر سے پڑھ کر افسر بنے گا؟ ایک سوالیہ نشان ہے نا؟ جن لوگوں نے اپنے بچوں کو دوسرے شہروں میں پڑھائی کے لئے بھیج دیا ہے وہ تو پر امید اس بات پر بھی ہو سکتے ہیں کہ انہوں نے ایک اچھے ادارے میں اپنے بچوں کو ڈالا ہے تو کل وہ کوئی اچھی سیٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ ان غریب ماں باپ کا کیا جن کو پہلے سے ہی پتا ہو کیا ہونے والا ہے اور کیا وہ کر رہے ہیں۔
وہ تو جانتے ہیں کہ ان کا دن کبھی بدلنے والا نہیں اس طرح تو جی بی کے کامیاب لوگوں سے میری ایک ہی درخواست ہے کہ وہ کامیاب ہوئے ہیں تو اب جی بی کے لوگوں کو بھی کامیاب کی راہ دیکھانا ان کا فرض بنتا ہے۔ جی بی کے لڑکے اور لڑکیاں پاکستان کے مختلف شعبوں میں ترقی کر رہے ہیں یہاں تک کے سی ایس ایس کے امتحانات میں بھی پاس ہو رہے ہیں وہ بھی اعلیٰ پوزیشن سے۔ ان لوگوں کو بس ایک پلیٹ فارم کی ضرورت ہے اگر وہ پلیٹ فارم جی بی حکومت اور جی بی کے کامیاب لوگ مہیا کریں تو میں سمجھتا ہوں ہر لڑکا لڑکی جی بی کے نام کو روشن کرنگے۔ جی بی حکومت اور جی بی کے کامیاب لوگوں سے میری یہ درخواست ہے کہ وہ جی بی کے اندر جتنی کمیاں اور کوتاہیا ہیں جتنی بھی چیزوں میں موڈی فیکیشن کرنی ہے وہ کر کے جی بی كو پرفیکٹ جی بی بنائے۔ جس دن خود کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی کامیاب کرنے کا جذبہ اور احساس جی بی کے لوگوں میں پیدا ہوگیا اس دن وہ پوری دنیا میں چھا جائیں گے۔
ہٹلر۔کون نہیں جانتا أسے۔ ہٹلر ہمیشہ اپنی قوم کے لوگوں سے یہ کہتا تھا کی جاپان کے لوگوں جیسا کوئی نہیں وہ ہر ایک لحاظ سے ہر ایک قوم سے آگے ہیں۔ حالانکہ ایسا کچھ نہیں تھا لیکن ہٹلر ان کے مائنڈ میں یہ چیز ڈالنا چاہتا تھا کہ ان کے سامنے کوئی بھی قوم کچھ بھی نہیں جس لحاظ سے بھی دیکھا جائے اور جس دن جی بی کے لوگوں میں دوسرے لوگوں کو بھی اپنے کامیابی میں شامل کرنے کا جذبہ آئے گا تو اس دن وہ جو خوشی ملے گی وہ خوشی اندر کی خوشی ہوگی اور اور پھر یہ سلسلہ آنے والی نسل در نسل چلتا رہے گا۔