Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Rabia Khurram/
  4. Trophy

Trophy

ٹرافی

ایک دوسرے کو حاصل کرنے کا جذبہ، ساری دنیا کی مخالفت کو ہرانے کا عزم، ایک مقابلے کی سی کیفیت بن جاتی ہے۔ مقابلہ جیت لیں تو چند دن ٹرافی بہت پیاری لگتی ہے ہر آئے گئے کے سامنے آنے بہانے اس جیت کا ذکر کرکے اس سے خوشی کشید کی جاتی ہے توکبھی ٹرافی دکھا کے اس کے حسن و خوبی کا سہرا فاتح کے سر باندھا جاتا ہے۔ یہ دور نہایت حسین اور پرسرور ہوتا ہے۔

رفتہ رفتہ جیت اور ٹرافی پرانی ہوتی چلی جاتی ہے۔ ٹرافی جگہ گھیرتی ہے اور اس کی دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے لیکن تابکہ، سمجھدار فاتح وقت رہتے ہی اسے سمیٹ سنبھال کے گھر کے کسی محفوظ گوشے کسی سٹور یا لاک میں رکھ دیتا ہے جہاں آنکھ اوجھل پہاڑ کے مصداق ٹرافی یاداشت سے محو ہوتی چلی جاتی ہے۔

فاتح کے لیے باہر کی دنیا میں نئے چیلنجز نئے مقابلے روزانہ کی بنیاد پر منتظر ہوتے ہیں سو کب تک پرانی ٹرافی کو سینے سے لگائے رکھے ہاں جب کبھی کوئی پرانے مقابلے اور پرانی جیت کا ذکر کرے تب اس ٹرافی کو جھاڑ پونچھ کے اس کے سامنے لایا جاتا ہے۔ فاتح بھی چند روز ٹرافی کو بھلا دینے کے احساس جرم میں مبتلا رہتا ہے لیکن دن رات کی نت نئی الجھنیں اور آزمائشیں جلد ہی اس احساس جرم سے چھٹکارا پانے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہیں۔

وقت کا دھارا کچھ آگے سرکتا ہے تو نئی جیت کا نیا سہرا سر پر سجائے، فاتح ایک نئی ٹرافی کے ہمراہ گھر میں داخل ہوتا ہے اور جگہ کی کمی کو وجہ بنا کے پرانی ٹرافی کو بیک جنبش لب گھر سے چلتا کرتا ہے۔ پرانی جیت کا سرور، نئی جیت کے نشے کے سامنے ماند بلکہ ختم ہو جاتا ہے۔

ہار جیت کے کھیل میں آنا جانا تو چلتا رہتا ہے مسئلہ ٹرافی کا ہے جو پرانی ہو کے بھی اسی جیت کے سرور میں اپنے فاتح کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ پر بےجان، بے وقعت، ریپلیس ایبل چیزوں کی دنیا میں تعلق اور رشتے بھی ڈسپوزایبل ہو چکے ہیں۔ کیا کیا جائے!

Check Also

Kya Hum Radd e Amal Ki Qaum Hain

By Azhar Hussain Azmi