Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Rabia Khurram/
  4. Tanhai

Tanhai

تنہائی

والدین رحمن کی رحمت میں جا چکے، بہن بھائی اپنے بال بچوں میں مصروف ہیں۔۔ مہینوں فون نہیں کرتے اور سالوں بعد بہن کے گھر چکر لگانا یاد آتا ہے۔۔ بہن بھی اب اپنے گھر بار والی ہے اپنے بچے سنبھال رہی ہے۔۔ جب جب خاندانی فنکشنز میں بہن بھائی ملتے ہیں تو وہ قیمتی زیورات اور ملبوسات سے لدی پھندی ایک خوشحال عورت نظر آتی ہے۔۔ مسکراتی سب سے ملتی اپنے خاوند کے پہلو میں کھڑی تصویریں بنواتی۔۔۔ ایک کامیاب خوشحال گھریلو عورت۔۔اب اسی عورت کے روز و شب پر اک نظر کریں۔۔

بچے اسکول سے نکل کر کالج اور یونیورسٹی کی فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔ نئی نئی آزادی ہے کار موٹر سائیکل موبائل اور ٹیبلٹس۔۔ دوست آوٹنگ جوانی اور مستی ہے گھر میں کم ہی ٹکتے ہیں۔۔ شوہر کا کاروبار عروج پر ہے۔۔ ان کی سیکرٹری بتا رہی تھی کہ اس ماہ میں صاحب کے تین فارن ٹورز ہیں اور چند ڈومیسٹک پارٹیز کے ساتھ لنچ ہیں۔۔ اس ماہ تو صاحب کو سر کھجانے کا بھی وقت نہیں۔۔ بیگم ان پارٹیز کی ہاو ہو سے گھبراتی ہیں اور پھر سیکرٹری ہے نا۔۔

بیگم صاحبہ بچوں کو بھیج چکیں۔ صاحب بھی آج فارن کنٹری کے دورے پر 10 روز کے لئے روانہ ہو چکے۔۔ اب دن میں پانچ نمازیں اور ہر نماز کے درمیان کا فارغ وقت۔۔ تنہائی سے دل گھبرایا تو بیٹے کو فون ملایا۔۔ اس نے کال کاٹ دی۔۔ بزی ہو گا۔۔ اس خیال سے دل کو تسلی دینا چاہی۔۔ لیکن گھبراہٹ بڑھتی جا رہی ہے۔۔ بیٹی کو فون کیا تو اس نے عجلت سے بس اتنا کہہ کر فون رکھ دیا کہ ماما لیکچر میں ہوں ابھی اٹینڈ نہیں کر سکتی۔۔

اکیلا پن۔۔ تنہائی گھبراہٹ بلامقصد ادھر سے ادھر چکرانے لگی۔۔ اپنا وجود ایک خلا میں لگ رہا تھا۔۔ کیا کسی کو میری ضرورت بھی ہے، کیا کسی کو میں یاد بھی ہوں۔۔

اب بچوں کو میری لوری نہیں چاہئے۔۔ میرے پکائے کھانے آوٹ ڈیٹد ہیں انہیں فاسٹ فوڈ اچھا لگتا ہے۔۔

شوہر کے شانہ بشانہ موو کرنے کے لئے چاک و چوبند سیکرٹری ہے۔ جو بزنس کے ساتھ ساتھ صاحب کے ذہنی سکون کا بھی خیال رکھتی ہے۔۔ تو اب صاحب کو بھی گھر کے کھانے سے زیادہ ہوٹلنگ کی عادت ہو گئی ہے۔۔ دل زیادہ ہی گھبرانے لگا تو باہر باغ میں آ بیٹھی۔۔ ہاتھ میں تسبیح ہے۔ زبان پر درود جاری ہے لیکن دل ہی دل میں سود و زیاں کے کھاتے کھل گے ہیں۔

کیا کھویا۔۔؟ کیا پایا۔۔؟

وقت کی دوڑ نے والدین اور بہن بھائیوں سے دور کیا اور جن کے لئے اپنے پچھلے چھوڑے آج وہی شوہر اور بچے مجھے بھول گے ہیں۔۔ آخر اب میری ضرورت کسے ہے۔۔ کیا میرا کردار بس اتنا ہی تھا۔۔ تنہائی میرا مقدر کیوں بن گئی۔۔

اسے وہ وقت یاد آیا جب یونیورسٹی سے پاس آوٹ ہوتے ہی کیریر اور شادی میں سے اس کے لئے شادی کا انتخاب کیا گیا، پھر شادی کے بعد کیریر اور بچوں میں سے اس نے خود ہی بچوں کا انتخاب کیا۔۔ ایک گھر پرسکون جنت جیسا گھر اس کی خواہش اور خواب تھا۔۔

آج بچے کہتے ہیں آپ کچھ کیا کریں۔ کوئی جاب کر لیں تا کہ بےکار نہ رہیں، شوہر کہتے ہیں کوئی کلب جوائن کر لو۔۔ فارغ نہ رہو۔۔

آج جب عمر کی بیشتر نقدی خرچ ہو چکی۔ جب اپنی زندگی اپنے گھر پر لٹا چکی تو گھر والے کہتے کیں باہر دلچسپیاں ڈھونڈو۔۔

اس خلا میں چکرانا اور اپنے آپ سے سوال جواب کرتے رہنا اکثر عورتوں کا مقدر ہے۔۔

دیکھیں کیا آپ کے میرے ہمارے گھر میں ہمارا کوئی رشتہ اسی تنہائی کے کرب کا شکار تو نہیں؟

کہیں کچھ مس تو نہیں ہو رہا؟

Check Also

Nakara Aur Maflooj Qaum

By Javed Chaudhry