Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Rabia Khurram/
  4. Safar Hai Shart Musafir Nawaz Behteere

Safar Hai Shart Musafir Nawaz Behteere

سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے

سفر وسیلہِ ظفر ہوتا ہے سنا تھا ہمیشہ سے سنتے آئے تھے۔۔ فسیروا فی الارض کا حکم بھی ہمیشہ مد نظر رہتا ہے۔ اور جب کولہو میں سر جھکائے ایک ہی مدار میں گھومتے گھومتے بس ہو جاتی ہے تو دل بے نتھے بیل کی طرح جوف سینہ میں ٹکریں مارنے لگتا ہے آزادی آزادی آزادی۔ کچھ دن کی زندگی، کچھ دن اپنے حصے کے سانس! بس یہی تو اس کے مطالبات ہوتے ہیں۔

ہم اہل خانہ پچھلے کچھ عرصے سے اکٹھے کچھ وقت گزارنے کی طلب میں ذمےداریوں کی بیڑیاں اتار کر سفر اختیار کر لیتے ہیں کہ دنیا اور اہل دنیا کے بوجھل معمولات سے نکل کر ایک دوسرے کا ساتھ اور دوسراہٹ پائی اور محسوس کی جائے۔ احساس کے ہلکے پڑتے رنگوں کو دنیا کی سیر سے حاصل کردہ نئے رنگوں میں رنگ لیا جائے۔

انہی اسفار میں کبھی کہیں صرف بت کی حاضری لگ جاتی ہے تو کہیں چت کی۔ کبھی دل کی حضوری پر معاملہ منتج ہوتا ہے تو کہیں نئے رشتے دل ملانے کا باعث بن جاتے ہیں۔

جب دل بچہ تھا تب سفر محض نظارے دیکھنے، دل بہلانے اور ذمےداری سے فرار کا نام ہوا کرتا تھا۔ جب دل کچھ کچھ سیانا ہونے لگا تب سیر و سیاحت کا نیا مقصد نئے دل جیتنا، نئے رشتے بنانا بھی ہوگیا۔ حاضری و حضوری کی کیفیات عنایت ہیں جب مل جائیں جسے مل جائیں۔ کبھی دل کسی خاص لمحے میں دیدار یار کا مشتاق ہوا کرتا تھا اور تمام سفر اسی لمحہء خاص کے انتظار میں کٹ جایا کرتا تھا اب یہ جانا کہ ہر لمحہ خاص ہے اور دیدار یار تو ہر جا میسر ہے سو لمحے کی تلاش ختم ہوئی۔ اب راستے تھے ہوا تھی، موسم تھے فضا تھی، ہمدم ہم سفر تھے اور ہمہ دم، ہم سفر میں تھے الحمد للہ رب العالمین۔

جب تک گھر میں تھے دل شوق سفر میں مگن تھا تیاری ادھوری تھی اور پوری ہو کے نہ دیتی تھی کہ منزل غیر متعین تھی۔ ہر سفر کا کوئی راستہ کوئی منزل تو ہوا ہی کرتی ہے لیکن جب دل قصدا بھٹک جانا چاہے تو منزل کا تعین ناممکن ہوا کرتا ہے۔ چند روز ہم سفروں کی متنوع مصروفیات کے سبب ابتداء سفر اگلے دن پر ٹلتی رہی حتی کہ 25 اگست کی شام کو شروع کیا جانے والا سفر 3 ستمبر کو شروع ہوا۔

یہ تو علم تھا کہ سفر پر نکلے ہیں لیکن کئےروز کے لیے اور کدھر کو؟ سالار قافلہ نے بس اتنا کہا کہ دیکھو یا تو سکردو جائیں گے یا براستہ کوئٹہ گوادر کی راہ لیں گے عین ممکن ہے کہ سکردو جا پہنچیں اور چند روز بعد کوئٹہ گوادر سے کراچی ٹچ کرتے ہوئے واپسی ہو۔ یعنی عجب سفر تھا کہ سمت جانب شمال تھی اور ارادا جنوب و مغرب کا تھا۔

سکردو سے سیاسی و زمینی صورتحال کے متعلق متضاد اطلاعات آ رہی تھیں کسی بھی قسم کی کشیدگی سیاحت کا لطف لینے نہیں دیتی کہ کھلی فضا بھی گویا گھٹن کا شکار ہو جاتی ہے۔ دو نفل استخارہ ادا کرکے چلے تھے سویہ تسلی تھی کہ جو ہوگا اچھے کے لیے ہوگا اور اچھا ہی ہوگا ان شاءاللہ۔

پس پہلے روز کے لیے منزل اسلام آباد طے پائی۔ اسلام آباد ہمارے سفر کا ایک پڑاو ہوگا یہ تو طے تھا لیکن یہ پہلا پڑاو ہوگا یہ واضح نہ تھا اور پچھلے ہر معمول میں یہ عموما آخری اسٹاپ ہوا کرتا تھا۔ سکردو میں لوئر کچورا لیک پر آرمی ریزورٹ میں کمرے بک تھے میزبان منتظر و مشتاق تھے لیکن ابھی اسلام آباد کے راستے میں ہی تھے کہ لینڈ سلائیڈ کے ساتھ راستے بند ہو جانے اور سیاسی کشیدگی میں اضافے کی اطلاع ایک ساتھ موصول ہوئیں۔ میزبان نے وائس میسج میں یہ بھی کہا کہ پہلے راستہ صاف ہونے کی تسلی کرکے گھر سے نکلیے گا۔

گھر سے تو نکل پڑے تھے سو اب واپسی ممکن نہ تھی اسی دوران ایک ہم سفر کی کمر میں کھنچاؤ کا آغاز ہوا جو اسلام آباد پہنچتے تک تکلیف دہ ہو چکا تھا بس اسلام آباد میں رات کا رکنا طے ہوگیا۔ بنا پیشگی اطلاع بڑے بھیا کے گھر چند گھنٹوں کے نوٹس پر جا پہنچے۔ یہ بھی زندگی میں پہلی بار ہوا کہ اتنے شارٹ نوٹس ہر کہیں جائیں اور یہ بھی پہلا ہی اتفاق تھا کہ بھیا کے گھر رات رکیں۔ جھجک بھی تھی۔ یہ جتنا بھی ان پلینڈ تھا بھیا بھابی کی معاملہ فہمی اور مہمان نوازی کی داد بنتی ہے۔

چند روز ہوئے تھے کہ وہ اپنے نئے گھر میں شفٹ ہوئے تھے۔ خوب بڑے بڑے درختوں سے گھڑا خوبصورت گھر ہے اللہ کریم باعث سکون و عافیت رکھے۔ گھر کا سامان تاحال ان پیک نہیں کیا گیا تھا گویا خانہ بدوشوں کی سی حالت تھی اور اسی خانہ بدوشی میں مہمان بھی جا پہنچے۔ لیکن خوش اسلوبی سے شام کی چائے گھر پر اور رات کا شاندار ڈنر اسلام آباد کلب میں کروایا گیا۔ اسلام آباد کلب میں ہی ڈاکٹر صاحب کے ایک کلاس فیلو جو ریلوے اسپتال میں SMO ہیں ان سے ملاقات طے تھی ڈنر کے اختتام پر ڈاکٹر صاحب کے دوست دو گھنٹے کھ لیے انہیں ہم سے مستعار لے گئے بوائز میٹنگ یو نو۔ جبکہ ہم سب کی تواضع کا اختتام حسب فرمائش آئسکریم یا کوئٹہ وال کی ملائی مارکہ گولڈن چائے پر ہوا جو انتہائی لذیذ تھی گھر پہنچنے پر بچوں کے کمرے ہمارے لیے خالی کر دیے گئے۔

پرسکون نیند، مزیدار ناشتے کے ساتھ ساتھ ہمارے استعمال شدہ کپڑے اگلی صبح تک دھل دھلا کے استری ہو کے ہم تک واپس پہنچ چکے تھے۔ سفر کی ابتدا مثبت تھی آگے کا اللہ وارث۔۔

کہانی ابھی شروع ہوئی ہے دوستو۔

Check Also

Aik Mulaqat Ka Sawal Hai

By Najam Wali Khan