Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Rabia Khurram/
  4. Pipeline Track Ayubia National Park

Pipeline Track Ayubia National Park

پائپ لائن ٹریک ایوبیہ نیشنل پارک

قسمت نے جس سفر پر لے جانا ہوتا ہے، اس کے اسباب بھی خود ہی مہیا کرتی ہے۔ 4 جولائی کی صبح ایک ڈے ٹرپ کی نیت کر کے مری پہنچے تو لارنس کالج گھوڑا گلی کے سامنے مغرب، بارش اور دھند نے آ لیا۔ ایسی بارش اور دم دم پھیلتی دھند کہ واپسی کا آپشن باقی نہ رہا اور وہ رات مری میں رکنا ہی پڑا۔ اگلے روز پھر سے نئے پلانز تھے۔ واپسی کا روٹ براستہ نتھیا گلی، ایبٹ آباد سے بذریعہ ہزارہ ایکسپریس وے سوچا گیا۔

صبح ناشتے میں من مرضی کی کافی نہ ملنے کی وجہ سے طبیعت بوجھل تھی۔ سہج سہج کر کار چلاتے فطرت سے ملتے بندروں کی اٹھکھیلیاں دیکھتے ہم نتھیا گلی کی جانب محو سفر تھے کہ ڈونگہ گلی میں گلوریا جینز کافی شاپ کا بورڈ دکھائی دیا۔ پیر خود بخود بریک پر جا پڑا۔ کچھ آگے جا کر کار پارک کی اور بوندا بانڈی کا لطف اٹھاتے گلوریا جینز کے عقبی اوپن ائیر ٹیرس پر جا بیٹھے۔

چست کر دینے والی کافی اور فرائز کے بعد آگے نکلنے کا ارادہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب نتھیا گلی میں کوئی ٹریک کرنا چاہتے تھے۔ گلوریا جینز کے خوش مزاج ویٹر سے پوچھا کہ یہاں کوئی ٹریک ہے، تو اس نے فورا سے دو ٹریک بتائے مکشپوری ٹاپ اور پائپ لائن ٹریک۔ بلکہ بس یہ کہا کہ یہ عقب والا ٹریک تو ایشیا کا سب سے خوبصورت ٹریک ہے۔ مجھے چونکہ چند سیاحتی آرٹیکل پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا تو فورا سے پائپ لائن ٹریک کا خیال کلک ہوا۔

اور پوچھنے پر نام کنفرم بھی ہو گیا۔ بس اب ڈاکٹر صاحب سے بھی زیادہ پرجوش میں تھی کہ یہ ٹریک کیا جائے۔ مکشپوری کے لیے ہم ویسے بھی لیٹ ہو چکے تھے کہ ساڑھے چار تو کافی شاپ میں ہی ہو گئے تھے۔ خیر وہاں سے نکلے، ہر ایک نے اپنے لیے چھوٹی پانی کی بوتل پکڑی۔ کار سے جوتے تبدیل کیے کہ کار میں ہلکی چپل آسان رہتی ہے جبکہ ٹریک کے لیے جوگر مناسب رہتے۔

تسبیح بھی ہاتھ میں تھام لی کہ ذکر الہی ہر کام میں ہمت و طاقت کا منبع ہوتا ہے۔ میری روزمرہ عبادت کی تسبیح کھجور کی گھٹلی کے دانوں سے بنی ہلکی پھلکی سی ہے۔ جو اس ٹرپ میں گھر پر ہی رہ گئی تھی۔ ٹریک کے دوران کار میں موجود تسبیح ہاتھ میں تھی۔ جو کرسٹلز کی بنی خاصی وزنی تسبیح تھی چلتے ہوئے ہر قدم پر جھولتی اور اپنے وجود کا احساس دلاتی تھی۔

ٹریک کے ابتدا میں کار پارک میں پائپ لائن ٹریک کا بورڈ اور تیر کا نشان موجود تھا۔ ایسی ہر نشانی جوش و خروش میں اضافہ کر رہی تھی۔ چند قدم کے فاصلے پر لکھا تھا، پائپ لائن ٹریک 4 کلومیٹر لمبائی۔ یہ 4 کلومیٹر ٹریک کی ابتدا اور انتہا میں موجود حفاظتی گیٹس کا درمیانی فاصلہ ہے۔ جبکہ ان گیٹس کے "اراں اور پراں " جتنی دور تک آپ کی ہمت ہو آپ جا سکتے ہیں۔

خیر گیٹ سے گزر کر ٹریک کی راہداری ٹکٹ لیتے لیتے پونے پانچ ہو چلے تھے اور مجھے اندھیرا پھیلنے سے پہلے 4 کلومیٹر کا جانا اور آنا یعنی 8 کلومیٹر کا سفر پورا ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔ خیر جوش والے کب ہوش کی بات سنا کرتے ہیں سو چل دیے۔ راستے کے اطراف میں موجود بلند و بالا درختوں پر اسمائے الہی لکھے ہوئے تھے۔ پہلا نام "الرحمن" تھا جس نے ہمت و حوصلے کو مہمیز دی۔ یہ ٹریک بالکل ایک سطح پر ہے۔

اگر کسی قسم کی کوئی بلندی دوران سفر طے بھی ہوتی ہے تو محسوس نہیں ہوتی۔ مشہور یہی ہے کہ یہ سفر ابتدا سے انتہا تک ایک ہی سطح پر ہے۔ راستے میں مختلفالانواع اشجار و نجوم، پرندوں جانوروں کی بولیاں اور قسم قسم کے انسان نظر آئے۔ کوئی اپنی صحت کے لیے دوڑ رہا تھا کوئی دوڑتے دوڑتے کاروباری ایمپائر کو ٹیک اوور کرنے کی گفتگو کر رہا تھا۔ کوئی قرآن میں مشغول تھا تو کوئی حسن فطرت کی تلاوت کر رہا تھا۔

بچوں والی فیملیز بھی تھیں۔ نئے، پرانے اور بہت پرانے کپلز بھی تھے۔ نئے کپل ایک دوسرے میں مگن تھے۔ پرانے کپلز صحت و فطرت میں محو تھے اور بہت پرانے ایک دوسرے کی صحبت اور خالق کی تخلیق سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ایک دم عقب سے ہلکی سی کھانسی کی آواز آئی ہم ایک طرف ہو کر چلنے لگے۔ ہمارے پیچھے سے ایک باریش نوجوان اپنی با پردہ بیگم کے ساتھ آگے نکلے۔

دونوں کے اردگرد محبت اطمینان اور اعتماد کا "اورا" بکھرا ہوا تھا۔ میں نے شریک سفر سے کہا یہ ہے اسلام کا چہرہ۔ باریش و با پردہ لیکن زمانے کے ہم قدم۔ ٹریک پر ابتدا ہی میں پہلا اور ایک کلومیٹر کے فاصلے پر دوسرا ریسٹنگ شیڈ بنا ہوا ہے، ساتھ ہی چھوٹی سی ٹک شاپ ہے۔ چائے کافی پیئیں یا کولڈ ڈرنک یا بس سلام و کلام کر کے آگے نکل لیں۔ مزید آگے جائیں تو ہر چند سو میٹر کے فاصلے سے ریسٹنگ شیڈز ملتے ہیں۔

مختلف اطلاعی تختیاں کبھی تاریخ کبھی جغرافیہ اور کبھی حیاتیاتی یا نباتاتی معلومات اور وارننگز بہم پہنچاتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ پتھر سے بنے کوڑےدان بھی جگہ جگہ موجود ہیں۔ اس تمام راستے میں اگر چند پانی کے نلکے اور ایک دو واش رومز بنا دیے جائیں تو بہتر ہو۔ لیکن شاید ماحول کو کسی آلودگی سے بچانے کے لیے ایسا نہیں کیا گیا۔

ٹریک پر گند پھینکنا منع ہے، اس لیے پھینکنے والوں نے بالکل نئی لیکن خالی پانی کی بوتلیں اور چپس کے ریپرز پھینکے تھے جو "گندے " تو بالکل نہیں تھے۔ خیر اس ٹریک کی روزانہ صفائی کر دی جاتی ہے اور پورے ٹریک میں دو جگہ پر آتی بدبو نے اس صفائی کے ڈمپنگ اسٹیشنز کی بھی نشاندہی کر دی۔ مجاز اتھارٹی کو اس پر غور کرنا چاہیے۔

ٹریک کی صفائی کے ساتھ ساتھ حفاظت کا بھی اچھا انتظام ہے۔ ٹورسٹ پٹرولنگ پولیس موٹرسائیکلز پر گھومتی رہتی ہے۔ بالکل مسٹر چپس والا سین ہوتا ہے۔ پورے سفر میں کوئی چشمہ نہیں ملا ہاں تین کلومیٹر مکمل کرنے پر ایک نیم جاں آبشار کم چشمہ نظر آیا، جس سے قطرہ قطرہ آب حیات ٹپک رہا تھا۔ شاید سال کے کسی وقت میں یہ زیادہ روشن، اجلا اور بھرپور بھی ہوتا ہو گا۔

اس آبشار پر پل بنا ہوا ہے اور یہیں پہاڑی دیوار پر قدیمی تختیاں نصب ہیں۔ جن کی کاپیاں نقل مطابق اصل بنا کر ایک اسٹینڈ پر لگائی گئی ہیں کیونکہ قدیم دستاویزات پانی اور موسم کے اثرات سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ارادہ تھا کہ ٹریک مکمل کر کے نتھیا گلی پہنچا جائے۔ وہاں سے چائے پکوڑے کھا کر واپسی ہو، لیکن آخری ریسٹنگ اسٹیشن پر ملنے والی ایک فیملی جو وہیں کی رہائشی تھی۔

ہم نے اصرار کیا کہ آپ فورا واپس جائیں ورنہ اندھیرا پھیل جائے گا۔ خیر آخری گیٹ عبور کیا۔ پولیس کے نوجوان سے نوک جھونک کی اور واپس پلٹے۔ آنے کا سفر سست تھا، لیکن واپسی کا سفر تیز تھا۔ ایک تو اب ہم سین دیکھنے سے زیادہ سفر مکمل کر رہے تھے دوسرے اندھیرا پھیلنے سے پہلے واپسی یقینی بنانا چاہتے تھے۔ راستے میں ایک جگہ کسی کا سنہرا گمشدہ بندا ملا۔

جسے میں نے اٹھا لیا ذہن اس بندے کی کہانی سوچ رہا تھا اور نگاہ "دیودار" کی بلندی سراہ رہی تھی کہ یکایک ٹھوکر لگی اور منہ کے بل زمین پر آ گری۔ ظاہر ہے قدرتی ٹریک ہموار تو نہیں ہوتا۔ کسی آوارہ پتھر نے میرے رستے میں ٹانگ گھسا دی اور ہم زمیں بوس ہو گئے۔ نقصان اس کا یہ ہوا کہ میری تسبیح کی گرہ کھل گئی اور تسبیح کے کرسٹلز پورے ٹریک پر بکھر گئے۔

ان دانوں کے ساتھ ساتھ جوش بھی وہیں کہیں بکھر سا گیا، بس بچی کھچی تسبیح کو گرہ لگائی جو اب بس ایک کلائی کا کنگن سا بن گئی تھی، وہ سنہرا بندا اور میرے تسبیح کے شفاف کرسٹلز کسی اور سیاح کے ذہن کو مہمیز دینے کے لیے وہیں رہ گئے۔ شاید ٹریک کو میرا بندا اٹھانا پسند نہیں آیا تھا سو ہمیشہ کی طرح چھوٹی موٹی سرزنش کر دی گئی تھی۔

بکھرے دانوں اور جوش کو وہیں چھوڑ کر بچی کھچی تسبیح اور حوصلے کے ساتھ ٹریک مکمل کرنے کے ارادے سے دوبارہ چل کھڑی ہوئی ابھی تو چوٹ تازہ تھی بایاں ہاتھ جسے گرتے ہوئے زمین پر ٹکرایا تھا۔ اس کی ہتھیلی کا ماس اندر سے پھٹ گیا تھا۔ خون بہا تو نہیں لیکن اندر ہی اندر ہتھیلی نیلی پڑنے لگی تھی۔ تسبیح دائیں ہاتھ میں اور پانی کی بوتل ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ میں پکڑا دی۔

موبائل جیب میں چلا گیا۔ اسی لیے جتنی تصاویر لیتی ہوں وہ میں نہ لے پائی۔ خیر اس ہتھیلی اور گھٹنے کی چوٹ نے جاتے ہوئے تو کچھ نہ کہا، لیکن واپسی پر جب کچھ آرام کر کے سفر دوبارہ شروع کیا تو چوٹ ٹھنڈی ہو کے ٹیسیں دینے لگی تھی اور چال میں لنگڑاہٹ آ گئی تھی۔ اچھا ہے اچھا ہے زیادہ جوش بھی کبھی کبھی نظر لگا دیتا ہے۔ تاکہ انسان اپنی حد میں واپس آ جائے۔ اللہ تیرا شکر ہے۔

چار کلومیٹر کا جانا تو پتا بھی نہ چلا اگر کار کے پارک کرنے کے جگہ ملائیں تو قریب ساڑھے چار کلومیٹر ہم چل چکے تھے۔ واپسی پر ایک ہی دعا تھی کہ اے رب اندھیرا نہ پھیلنے دینا۔ جب تک ہم واپس نہ پہنچ جائیں۔ ڈاکٹر صاحب کیونکہ پہاڑوں کے پروردہ ہیں سو مجھے تسلی دیتے رہے کہ یہاں کا سورج میدان کی نسبت دیر سے چھپتا ہے اور روشنی زیادہ دیر تک قائم رہتی ہے۔ بس تم تیز چلو۔

مضروب گھٹنوں کے ساتھ ساتھ بائیں پاوں کے انگوٹھے نے بھی صدائے احتجاج بلند کرنا شروع کر دی تھی۔ لیکن چلنا تو تھا۔ سو چلتے رہے بلکہ تقریبا دوڑتے رہے۔ جب چھ کلومیٹر مکمل ہوئے تو ریسٹنگ شیڈ میں تین منٹ سستانے کے ارادے سے بیٹھی۔ لیکن پٹرولنگ پولیس کے نوجوان کی للکار سنائی دی کہ سر بیٹھنا نہیں چلنا ہے۔ سو مجھے نصف منٹ بعد ہی اٹھا دیا گیا۔

حالانکہ وہ تین منٹ کا آرام میری اسپیڈ بڑھا سکتا تھا۔ خیر سات کلومیٹر مکمل کرنے اور پٹرولنگ پولیس اور ان کے ساتھ موجود دیگر سیاحوں کو پیچھے چھوڑنے کے بعد ہم آخری ریسٹنگ ایریا پر کچھ دیر رک گئے۔ اب میرا حوصلہ بھی سسک ریا تھا کہ ہر ٹیس اسے کمزور کیے جا رہے تھی، بس ارادہ باقی تھا کہ بہر صورت خود ہی واپس پہنچنا ہے۔ اسی اثنا میں پولیس کا نوجوان دیگر ساتھیوں کے ساتھ ہم سے آ ملا۔

نوعمر نوجوان نہایت با ادب تھا۔ لیکن جب اس نے ادب سے بھرپور لہجے میں مجھے بزرگ کہہ کر پکارا تو گمشدہ جوش، سسکتا حوصلہ اور ڈولتا ارادہ سب واپس جوان ہو گئے۔ خود کو خود ہی تھپکی دی اور کہا اس بے چارے کو کیا پتا کہ یہ لنگڑانا چوٹ کا نتیجہ ہے بزرگی کا تقاضا نہیں۔ لیکن جب آٹھواں کلومیٹر طے کرنے میں دانتوں پسینے آئے تو بس ساتھی سے اتنا کہا کہ زندگی کے 7 کلومیٹر انسان خود گزار لیتا ہے۔

آٹھویں کلومیٹر میں ساتھی اور سہارے کی طلب سب سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ اللہ کریم سب کا ساتھ تادم آخر قائم دائم رکھے۔ خیر کار پارک تک پہنچتے پہنچتے نو کلومیٹر مکمل ہو گئے اور ہم بھی پورے ہو گئے۔ چائے کا تیز کپ اور درد کش دوا کے بعد چلتی کار میں نصف گھنٹے کی اشد ضروری نیند کے بعد اس قابل ہو سکے کہ اسی رو میں واپسی کا سفر طے کر سکیں۔ اللہ تیرا شکر ہے۔

کے پی کے پولیس کی مہمان نوازی۔ مہربانی، فرض شناسی اور توانائی کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔ وہی ٹریک والا نوجوان نتھیا گلی میں چائے لینے کے وقفے کے دوران مشاہدے میں آنے والی ایک بدمزگی کے درمیان پہنچا اسے زائل کیا اور آگے نکل گیا۔ اس کی ڈیوٹی ختم ہو چکی تھی، لیکن فرض شناسی نے اسے اس جھگڑے سے آنکھ نہیں پھیرنے دی۔ سلیوٹ کے پی کے پولیس۔

Check Also

Ameer Jamaat e Islami Se Mulaqaat (1)

By Amir Khakwani