Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Rabia Khurram/
  4. Mohabbat Khud Ro Boota Hai Ji

Mohabbat Khud Ro Boota Hai Ji

محبت خودرو بوٹا ہے جی

جنگل میں اگنے والے بوٹے کی نشوونما فطرت کرتی ہے باغباں نہیں۔ جتنا مضبوط بیج ہو گا اتنا ہی طاقتور پودا بنے گا۔ جتنا گھنا سایہ دے گا اتنی ہی گہری جڑ بھی پھیلائے گا جتنا میٹھا پھل ہو گا اتنا ہی جھکا ہو گا۔

باغ میں لگائے جانے والے نازک پودے کی دیکھ بھال مالی کی ذمےداری ہے۔ لیکن بوٹے کی نزاکت، ہر دم کی دیکھ بھال، گرم سرد موسم یا خشک و تر کا گھٹنا بڑھنا پودے کے قائم رہنے اور پلنے بڑھنے کو مشروط و متاثر کرتا ہے۔ محبت کا بیج جتنا طاقتور ہو گا اتنا ہی کسی کی دیکھ بھال سے آزاد ہو گا۔ محبت بھی طاقتور اور نازک ہوا کرتی ہے۔

جنگلی سیب کی اٹھان کبھی دیکھی ہے، یا قبرستان میں اگے جنگلی بیر ہی دیکھ لیجیئے۔ کیسے خودسر و بے نیاز ہوتے ہیں۔ دنیا سے طلب صفر اور دین سو فیصد چاہے دنیا جھولی بھر بھر کے پھل سمیٹے۔ چاہے پھل حاصل کرنے کے بدلے پتھر برسائے اور چاہے تو اس کے سائے میں آرام ہی کرے۔ اس خودرو صوفی منش کو چنداں فکر نہیں کہ کون اس سے کس قیمت پر کیا وصول کر رہا ہے۔

وہ تو سراپا دین ہے۔ اس کی لو دنیا سے لگی ہی کب تھی جو وہ دنیا کے رویوں پر دکھی ہوتا۔ یہ انمول فیض رساں صوفی ہیں۔ جو جتنے مہنگے ہوتے چلے جاتے ہیں اتنا ہی مفت ہوتے جاتے ہیں۔ باغات میں لگے سیب کو کوئی پتھر تو مار کے دیکھے۔ پھل ملنا تو درکنار سایہ بھی نہیں ملتا۔ کیونکہ ان کی دین مشروط ہے۔ ان کی دین کا مول ہے۔ ایک قیمت ہے یہ شہزادے بوٹے ہیں۔ سہج سنبھال کے رکھےکسی قدردان کے منتظر۔

قدردان کہیے یا قیمت ادا کرنے کی صلاحیت رکھنے والا گاہک۔ ان کا باغباں ان کی قیمت طے کرتا ہے۔ یہ محب کی مرضی سے زیادہ نصیب کا فیصلہ ہے، کہ وہ انمول صوفی بنیں یا گراں قیمت شہزادے۔ کبھی وقت کا دھارا تبدیل بھی ہو جایا کرتا ہے شہزادے گڈری پوش ہو جاتے ہیں۔ اور فقیر کی کٹیا محل بن جایا کرتی ہے یہ فیصلے کہاں ہوتے ہیں۔ کب ہوتے ہیں یہ قدرت کی منشا ہے۔

اس کا کن ہے جو زمان و مکان کا مالک ہے۔ جو بے مانگے عطا بھی کرتا ہے اور عطا واپس لوٹا بھی لیتا ہے۔ ہر چیز ہر واقعہ آزمائش ہے جو شکر کر گیا وہ پا گیا جس نے شکایت کی وہ پھنس گیا۔ پس یاد رکھو کہ جو انعام کے انتظار میں ہے۔ اس کا انعام شروع ہے، اور جو سزا کے انتظار میں ہے اس کی سزا شروع ہے۔

Check Also

Muhabbat Fateh e Alam

By Amir Khakwani