Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Rabia Khurram/
  4. Main Aap Ki Beti Hoon Abu Ji

Main Aap Ki Beti Hoon Abu Ji

میں آپ کی بیٹی ہوں ابو جی

میں آپ کی بیٹی ہوں ابو جی!

ابو آفس سے آ کے دوپہر کے کھانے کے بعد قیلولہ کے عادی تھے۔ بوقت عصر اُٹھ بیٹھتے اور دوبارہ سے ڈریس اپ ہو کے باغ میں بیٹھتے۔ میری فطرت سے محبت انہی کی وراثت ہے۔ باغ میں مرغیاں اور چوزے، ہرن، بکریاں، تیتر اور بٹیر گھوما کرتے۔ ابو کی چائے کا اہتمام بہت زبردست ہوتا۔ پیتے تو بس ایک سے دو کپ انگلش ٹی تھے لیکن اہتمام ایسا ہوتا کہ بھری پری محفل بھی چائے پی سکتی تھی۔

اسٹیل کی نفیس سی لمبی ٹونٹی والی چینک میں قہوہ دم کیا جاتا۔ اسی سیٹ کی دودھ دانی میں گرما گرم دودھ ہوتا۔ کچن سے باغ تک کے سفر میں گرم دودھ کی اوپری سطح پر بالائی کی ہلکی سی جھلی جم جاتی تھی جسے چھاننے کے لیے اسی سیٹ کی خوبصورت سی چھلنی (اسٹینر) اپنے مخصوص کپ سٹینڈ میں رکھی ہوتی۔ چینی دان میں سفید دانے دار چینی ہوتی۔ چینی ڈالنے اور ہلانے کے لیے دو چھوٹے چمچ ساتھ ہوتے۔ انگلش اسٹائل کے نقرئی کنارے والے دو کپ پرچ بھی ٹرے میں موجود ہوتے۔

ایک بلوریں گلاس میں کروشیا کی جالی سے ڈھکا پانی کا گلاس بھی ساتھ ہوتا۔ جو سب سے پہلے ابو کو پیش کیا جاتا۔ وہ پہلے گھونٹ سے کلی کرتے اور باقی پانی پی لیا کرتے تھے۔ دو کپ پرچ اس لیے کیونکہ عموماََ شام کی چائے ہمارے والدین پیتے تھے۔ زیادہ لوگ ہوتے تو اتنے ہی کپ پرچ بڑھا لیے جاتے۔ بچوں کو اس وقت دودھ روح افزا، سکنجبین یا روح افزا تخم بلنگا دیا جاتا۔ ہم بچے باغ میں کھیلتے امی ابو گپ شپ کرتے۔ صبح کے اخبار کے ساتھ ساتھ شام کے اخبارات بھی دیکھے جاتے۔

اسی دوران ابو کے میل ملاقاتی بھی آتے جاتے رہتے جس دوران امی اور بیٹیاں گھر کے اندر چلی جایا کرتیں۔ ابو کی سائیڈ ٹیبل پر لمبی تار والے دو ٹیلی فون رکھے جاتے۔ ایک آفس سے منسلک ہوتا اور دوسرا گھر کا فون ہوتا۔ فون بھی آتے رہتے خبریں بھی ملتی رہتیں۔ چائے کے دونوں کپس میں نیم گرم پانی موجود ہوتا جس سے کپ گرم رہتے اور جب چائے بنائی جاتی تو اسی پانی سے کپ کھنگال لیے جاتے اور پانی باغ کی سائیڈ پر ڈال دیا جاتا۔

امی نہایت سلیقے سے ٹی کوزی اٹھاتیں۔ چینک کی نال سے دھویں کی لکیر اوپر کو اٹھتی اور چائے کی مہک فضا میں پھیلتی۔ امی ابو کے کپ میں چھلنی رکھ کے قہوہ کی سنہری دھار گراتیں۔ کپ تقریباََ بھرنے والا ہوتا تو ہاتھ روکتیں۔ چند قطرے دودھ ملائے جاتے۔ نصف چمچ چینی ڈالی جاتی۔ نقرئی کپ میں چمچ ہلانے کی مدھر سی دھن بجتی اور ایک لذیذ پر لطف سنہرا چائے کا کپ پرچ میں رکھ کر ابو کے سامنے پیش کیا جاتا۔

ابو نے دونوں ہاتھوں سے اخبار پھیلایا ہوتا کبھی جنگ کبھی نوائے وقت کبھی ڈان۔ علاقائی اخبارات کی شہ سرخیاں اور اہم خبریں کاٹ کر ایک فائل میں چسپاں کر کے ابو کو پیش کی جاتیں وہ بھی زیر مطالعہ رہتیں۔ ابو کی دائیں ہاتھ کی پہلی دو انگلیوں میں دبے سیگریٹ کا دھواں اخبار کی اوٹ سے لہریے لیتا اوپر کو اٹھتا۔ کبھی جلتا سیگریٹ انگلی میں دبے دبے ہی فلٹر تک جا پہنچتا اور امی کے خبردار کرنے پر ایش ٹرے میں بجھا دیا جاتا۔

امی اپنا چائے کا کپ بناتیں۔ چسکی لیتیں اور "سنیں، چائے اچھی بنی ہے یا چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے" جیسے جملے سے ابو کو چائے کی طرف متوجہ کرتیں۔ ابو دائیں ہاتھ کی حرکت سے اخبار ذرا سا بائیں طرف کرتے عینک کے عقب سے امی کو دیکھتے۔ ہممم کہتے۔ اخبار دائیں ہاتھ میں منتقل کرتے سیگریٹ کا کش لیتے اور بقیہ سیگریٹ سامنے ٹیبل پر موجود ایش ٹرے کی سلٹ میں پھنساتے۔ چائے اٹھاتے۔ جس پر ایک بار پھر ہلکے بھورے رنگ کی جھلی تیر رہی ہوتی۔ اپنی پرچ سے چمچ اٹھاتے۔ جھلی کو چمچ سے اٹھا کر پرچ کی سائیڈ پر ڈالتے۔

ٹھنڈی ہو چکی چائے ایک ہی گھونٹ میں ختم کر کے دوبارہ اخبار اور سگریٹ والے سگنیچر پوز میں تب تک کے لیے واپس چلے جاتے جب تک امی نیا چائے کا کپ تیار کر کے ابو کو نہ پکارتیں۔ امی ابو کی یہ خاموش گفتگو بھی خوب تھی۔ دونوں اخبار دیکھتے یا کبھی امی رسالے پڑھا کرتیں۔ جب دونوں مطالعے سے فرصت پاتے تو روزانہ کی سیاسی سماجی خبروں، بچوں کے معاملات، گھر اور ملازمین کے ایشوز، بیک ہوم سسرال و میکے کے واقعات ڈسکس کیے جاتے یا امی سب رنگ کی کوئی کہانی ابو کو سناتیں۔

ایک دفعہ ابو کو سب رنگ میں چھپنے والی ایک ننھی بچی کی کہانی سنائی جسے بلڈ کینسر کی تشخیص ہوئی تھی اور وہ بچی علاج کے لیے گھر سے رخصتی کی صبح اپنے والدین کو ایک برفانی صبح میں پائیں باغیچے میں اگنے والے واحد سرخ گلاب کے ساتھ بیڈ ٹی پیش کرتی ہے۔ امی نے تو بس کہانی کا خلاصہ ہی سنایا تھا لیکن ابو اپنی آنکھوں کی سرخی اور آنسو کنٹرول نہ کر پائے تھے۔

ہم بچے باغ میں ایک دوسرے سے کھیلتے کبھی پکڑن پکڑائی تو کبھی چھپن چھپائی اور کبھی سائیکلنگ یا کرکٹ۔ آٹھ کنال پر پھیلے باغات میں چھپنے اور بھاگنے کے لیے وسیع و عریض باغات تھے کھیت تھے۔ گھوڑے کا اصطبل اور بھینس کا باڑہ بھی تھا۔ مرغیاں، چوزے، تیتر اور بٹیر گھومتے پھرتے۔ ہرن اور بکریاں بھی وہیں چوکڑیاں بھرتے۔ امی چائے پی لیتیں تو کپ کی تہہ میں موجود چائے کی پتی ان کے پالتو تیتر کا حصہ ہوتی۔ وہ ایک آواز پر ٹیبل پر آ بیٹھتا اور امی کے کپ میں منہ ڈال کے ساری پتی کھا جایا کرتا۔ یہ محبت تھی۔ وہ سارا کا سارا ماحول محبت تھا۔

میری شادی کے بعد سسرال میں دودھ پتی یا مکس چائے کا رواج تھا۔ سیپریٹ انگلش چائے میری ساس مرحومہ بہت اچھی بناتی تھیں لیکن یہ کبھی کبھار ہی ہوتا۔ ایک دفعہ ابو مجھے ملنے آئے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد قیلولہ کیا۔ میں ابو کی چائے ابو کے طریقے سے تیار کر کے بیڈ روم میں لے گئی تو ابو نے مجھے کہا۔ بیٹا جی میں ایک گلاس پانی بھی پیتا ہوں۔ میں نے ٹرے میں موجود گلاس ابو کو دیا تو حیران ہو کر کہتے ہیں ارے آپ کو یاد تھا؟ تو میں نے کہا

"میں آپ کی بیٹی ہوں ابو جی!"

ابو اب جنت کے باغات میں چائے پیتے ہیں خدام ٹرے تیار کر کے امی ابو کے سامنے رکھ دیتے ہوں گے امی چائے بناتی ہوں گی اور ابو کو چائے کی طرف متوجہ کرتی ہوں گی۔ ابو اخبار کی سائیڈ سے چہرہ نکال کے ہممم کہتے ہونگے اور ٹھنڈی چائے کی بھوری بالائی ہٹا کر چائے کا کپ ایک گھونٹ میں پی لیتے ہوں گے۔ بس ان کی بیٹی یہاں اسی دنیا میں اپنے مکس چائے کے کپ کے ساتھ ایک گلاس پانی رکھ لیتی ہے اور زیر لب کہتی ہے۔

"میں آپ کی بیٹی ہوں ابو جی!"

Check Also

Kya Hum Radd e Amal Ki Qaum Hain

By Azhar Hussain Azmi