1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Rabia Khurram
  4. Ishq

Ishq

عشق

میں نے اس کی شعوری محبت تب محسوس کی جس روز اس کے آنے کی خبر اسٹرپ پر دو لائنوں کی صورت نمودار ہوئی۔ اس کے آنے کے خواب اور خواہش تو شاید ہر لڑکی اپنے دل میں تب بھی رکھتی ہے جب وہ اپنی گڑیا /گڈے کےساتھ کھیلتی ہے لیکن جب اس کے اپنے جسم کا حصہ بننے کی خبر پائی تب مجھے اس سے عشق ہو گیا۔ میں نے دن بہ دن خود کو بھرتے اور نکھرتے پایا۔ ہر قدم یوں اٹھایا گویا مجھ میں نازک آبگینہ ہے جسے ذرا سی ٹھیس نقصان پہنچا سکتی ہے۔

جب میرا کھانا پینا سونا جاگنا اس کے تابع ہو گیا کہ جس خوراک کو وہ قبول کرتا تھا وہی میں کھا سکتی تھی اور جو خوراک اس کے لیے ناپسندیدہ تھی، اسے چاہ کر بھی میرا جسم قبول نہ کر پاتا، لیکن یہ تکلیف بھی مجھے اس کا وجود، میرے وجود میں بخیریت پنپنے کی خبر دیتی تھی، سو مجھے دل و جان سے قبول تھی۔ ایک ماں اپنی اولاد سے محبت باقی دنیا سے کم از کم بھی 9 ماہ پہلے شروع کرتی ہے اور پھر یہ محبت کبھی ختم نہیں ہوتی۔ اسے ختم کرنا کسی کے اختیار میں ہی نہیں خود ماں کے بھی نہیں۔

جب میرا جسم اپنی ہیئت بدل کر بھرپور ہو گیا جب میرا لباس ڈھیلا ڈھالا اور تراش خراش سے عاری ہو گیا اور چادر بڑی ہونے لگی، جب مجھے کسی کے سامنے چلنے میں جسم کو ڈھانپنے کا خیال زیادہ آنے لگا، تب مجھے اچھا یا برا لگنے کی فکر نہ تھی بلکہ اپنی قیمتی متاع کو اچھی بری نگاہ سے دور رکھنے کی طلب تھی۔ جب میں ننھے ننھے لباس تیار کر رہی تھی ننھے فراک سلواتی۔ چھوٹی چھوٹی بیڈ شیٹس اور رضائیاں تیار کرواتی تو ایسے جیسے کوئی ماں اپنی اولاد کا جہیز /بری تیار کرتی ہے۔ بس، بس ویسی ہی تیاری میں کیا کرتی تھی۔

جب وہ میرے اندر حرکت کرتا جب وہ مجھے اپنے ہونے کا احساس دلاتا تو میں اپنے دونوں ہاتھ اس کے گرد یوں حمائل کرتی کہ دیکھنے والی نگاہ یہ سمجھتی گویا میں نے خود کو خود ہی جپھی ڈال رکھی ہے، دنیا کیا جانے کہ تم میرا اپنا آپ ہی تو ہو۔ میرے جسم کا ہی نہیں بلکہ میری روح کا ٹکڑا ہو۔ میرا خون، میرا گوشت، میری ہڈی تم سے جدا کب تھی۔ میں ایک دکھتی تھی پر مجھ میں دو دل دھڑکتے تھے۔ مجھ میں دو جسم تھے لیکن جان ایک تھی۔ ہم دو قالب ہو کر بھی ایک روح تھے۔ ہم دو قلب رکھ کر بھی ایک جان تھے۔

پھر جب بارش ہوتی تو میں تمہارے ساتھ ہنستی ناچتی گاتی لہراتی اور بارش میں بھیگتی۔ کوئی دیکھتا تو مجھے جھلی، اللہ لوک سمجھتا لیکن وہ کچھ نہیں جانتا جو ایسا سمجھتا۔ میں اللہ لوک نہیں تھی میں تو اللہ والی تھی کہ اس نے مجھے تمہارے دنیا پر ظاہر ہونے کا ذریعہ بنایا تھا۔ مجھے میرے اللہ نے چن لیا تھا میں اللہ کی ہو گئی تھی میں اللہ والی تھی۔ پھر جب ساتویں ماہ میں ہی تمہاری ہر حرکت پر میرا جسم محبت کی شدت سے بےچین ہو کرآب حیات کے سوتے جاری کر دیتا تھا تو میں شکر کے ساتھ ساتھ حیران بھی ہوتی تھی کہ یہ تمہارا حصہ تم تک ابھی کیسے پہنچاوں۔ یہ وہ دن تھے کہ خود کو ائینے میں نہ دیکھتی تھی۔ اتنا پیار آتا تھا، ڈرتی تھی کہ نظر نہ لگ جائے۔

کام کاج کی مجبوری تھی جس نے وقت سے پہلے تمہارے آنے کے اشارے دینے شروع کر دیے۔ درد اٹھتا تھا اور میں بےکل ہوتی تھی لیکن ماں تھی کیسے تمہیں خطرے میں ڈال سکتی تھی سو جو بھی دوا میسر تھی اس کے جتنے بھی سائیڈ ایفیکٹس تھے سب برداشت کر لیے۔ بس پھر الرحمن کی رحمت نے تمہیں جسم مادر سے جدا نہ ہونے دیا۔

میرے محبوب یاد رکھنا"تم مجھ میں تھے، تم مجھ سے تھے۔ تم مجھ میں ہو۔ تم مجھ سے ہو۔ تم میرا تسلسل ہو مجھ سے جدا نہیں "اور تمہیں یاد ہے وہ وقت جب میرا سینہ جلن کی شدت سے الاو کی طرح دہکتا تھا لیکن اس وقت کی میسر ادویات تمہارے لیے مضر ہو سکتی تھیں سو وہ تمام وقت ہر دردبھری آہ کی پکار کے ساتھ بنا لیٹے گزار دیا کہ تمہاری حفاظت میرا نصب العین تھی میرا درد تمہاری حفاظت سے اہم نہ تھا۔ مجھے تم سے محبت نہیں عشق تھا، اور ہے، اور رہے گا۔

پھر تم آ گئے۔ اب بھی وقت سے پہلے ہی آ گئے۔ لیکن پھر بھی محفوظ وقت آ چکا تھا۔ جب تمہیں پہلی بار دیکھا تو تم ڈاکٹر کے ہاتھوں میں میرے جسم کے اوپر الٹے لٹک رہے تھے ہماری آنول نال کے ذریعے میرے جسم سے تمہارا رابطہ قائم تھا۔ ہم دو ہو چکے تھے لیکن اب بھی ایک تھے۔ میں تمہیں دیکھ کر اونچی اواز میں اللہ تیرا شکر ہے کہنے لگی اور شدت جذبات سے رونے لگی تو ڈاکٹر نے کہا پاگل خوش ہو جاو اب تو خوشی منانے کا وقت ہے۔ میں شکر منا رہی تھی میں خوشی منانے کا یہی طریقہ جانتی تھی کہ شکر کروں۔ الحمد للہ رب العالمین۔ ماشاءاللہ لاقوہ الاباللہ

پھر تم مجھ سے جدا کر کے نرسری بھیج دیے گے جہاں سے ایک ننھا منا مرد کمبل میں لپیٹ کر مجھے دکھایا گیا۔ میں تمہیں پہچانتی تھی ہمیشہ سے۔ ہمیشہ ہمیشہ سے۔ ہم جدا ہو کر ایک تھے۔ ہم تو کبھی جدا ہوئے ہی نہ تھے۔ بس تم دنیا والوں کو اب دکھائی دیے تھے جب تمہاری آمد کی اطلاع ملنے پر تمہارے نانا نے کہا کہ "اے اللہ تیرا شکر ہے ساتھ خیریت کے جان سے جان جدا ہوئی "اب میں سمجھ گئی کہ مجھے خوشی منانے کا طریقہ شکر ادا کرنا کیوں لگتا ہے کیونکہ یہ میری وراثت ہے مجھے ان سے ملا ہے جن جیسا میں تمہیں دیکھنا چاہتی ہوں۔

تمہارے بابا بھی بالکل تمہارے نانا جیسے ہیں خوشی میں شکر ادا کرنے والے اور تکلیف میں یاد خدا سے سکون قلب پانے والے۔ تم ان دونوں جیسے ہونا۔ مجھ جیسے نہیں بس مجھ سے محبت کرنا۔ وفا کرنا۔ مجھ سے جدا ہونے کا مت سوچنا۔ کیونکہ تم ایسا کر نہیں سکتے یہ ممکن ہی نہیں۔ بہت جیو نیک نصیب رہو علم حاصل کرو ہنر حاصل کرو کامیاب ہو جاو۔ جہان کے بادشاہ بن جاو میں سمجھوں گی میرا جہان مکمل ہے۔

Check Also

Ab Wohi Stage Hai

By Toqeer Bhumla