Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Rabia Khurram/
  4. Ishq e Aatish

Ishq e Aatish

عشق آتش

میں لجپالاں دے لڑ لگی آں میرے توں غم پرے رہندے!

آج شہناز کے برتن دھوتے ہاتھ اداس تھے برتنوں کی مخصوص جھنکار گم سم اور گنگناہٹ اداس تھی۔ لیکن وہ مگن تھی سنک کے سامنے شہناز کا وجود حاضر تھا لیکن رابطہ کہیں اور جڑا تھا۔ غور کرنے پر گنگناہٹ واضح ہوئی۔

میں لجپالاں دے لڑ لگی آں مرے توں غم پرے رہندے

مری آساں امیداں دے سدا بوٹے ہرے رہندے

خیالِ یار وچ میں مست رہندا آں دنے راتی

مرے دل وچ سجن وسدا مرے دیدے ٹھرے رہندے

صاف برتن ساتھ کے ساتھ وہ سائڈ شیلف پر رکھی ٹوکری میں ڈالتی جا رہی تھی۔ یکایک چھناکے کے ساتھ نازک سی پلیٹ فرش پر گری اور کرچیاں یہاں وہاں بکھر گئیں۔ شہناز چونک کے جھکی ہائے ربا جی۔ اس کی گنگناہٹ تھم گئی تھی اور محویت ہوا ہو گئی تھی سو میں نے پوچھ لیا۔ کیا ہوا ہے شہناز آج کدھر گم ہو۔ طبیعت ٹھیک ہے نا۔ اداس کیوں ہو۔ خوشی اور بچے خیریت سے ہیں نا؟

کچھ دیر چپ چاپ فرش پر بکھری کرچیاں گنتی رہی۔ یوں لگا جیسے کرچیاں نہ ہوں اس کا وجود بکھرا ہو جسے سہج سہج بنتی تھی۔ یا الفاظ تھے جو بکھر گۓ تھے سو چپ چاپ جمع کرتی تھی کہ جملے بنا سکے۔ کوئی لاوا تھا جو پل رہا تھا بہنے کے لیے روزن ڈھونڈتا تھا۔ پھر اپنی خاموش سوچوں کے درمیان سے جملہ اچک کے بولی۔

فیر باجی تسی دسو کی کراں؟ میرے بچیاں کا پیو تے اوہی ہووے ناں۔ مارے کو دوجا خصم مل جاوے گا بچیاں کو پیو نکو ملنا۔ اے بی سچ ہووے کے او راتاں کو گھر نہ آوے جانے کیدر پڑا رہوے سرگی ویلے گھر آوے، ان پانی کرے اور سو جاوے۔ شکل دیکھو تو اتا تھکا ہووے مانو صدیوں سے کبھی سویا نہ ہو بسترے پر پڑتے ہی سو جاوے۔ دن چڑھے اٹھے تاں بھاگم بھاگ نہا دھو صاف جوڑا پہنے اور لپک جھپک باہر۔

جیویں دو منٹ بی میرے پاس جیادہ رک گیا تو جواب طلبی ہو جاوے گی۔ سچ پوچھو تو باجی ای شودا بس گھر سون واسطے آوے۔ روٹی ٹکر نیندر پوری کر کے یہ جا وہ جا۔ میری طرف مرد کی نظر ڈالے تو کتنے ای برس بیت گئے پر باجی بس اتنا تو ہے ناں کہ صبح گھر سے بھلے ہی چلا جاوے شام میں گھر لوٹ بھی تو آوے ہے نا میرا بھولا میرا خوشی محمد۔

تو تجھے کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ اس سے حق مانگا کر۔ خرچا پانی۔ تو بھی تو سانس لیتی ہے تجھے تیرا مرد نہیں چاہیے کیا؟

باجی خرچا پانی تو مانگے بنا ہی تلی پر دھر دیوے۔ مجھے کبھی تنگی نہ آنے دی اس نے۔

پھر تو کام کیوں کرتی ہے؟

باجی وہ تے سارا دن باہر رہتا ہے بچے سکول جاویں، کالج جاویں تے میں سارا دن گھر ماں بیٹھ کے، کی کراں؟ چار دیواراں میں میرا دم گھٹے جی۔ جی کو جی کا ساتھ تو چاہیے نہ بس جی۔ میں دیواراں سے کتنیاں گلاں کراں۔ دیواراں کے کان تاں ہوتے ہیں باجی پر جبان نہیں ہوتی۔ دل نہیں ہوتا۔ دیواراں سینے نال نئیں لگاتیاں ناں باجی۔ آنسو نئیں پونچھتیں۔ ہاں ٹکریں مارنے کا من کرے تاں دیواراں کام آویں پر باجی منے تو لاگے کہ، جس بندے کا دل اک دوجے نال نہ دھڑکتا ہووے۔ دیوار سے جیادہ اس سے سر ٹکرانے میں چوٹ لگے باجی۔ دیواراں سے جیادہ سخت پتھر اس کے سینے میں ہوویں۔

تو شہناز تیرے بچے کیسے آئے جب اس کا دل تیرا نہیں؟

ہہہہ میری بھولی باجی جب بچے آئے تب میں نواں نکور مال تھی ناں جی۔ جری دیر کو ساری دنیا بھلا کے میرے گوڈے لگ کے بیٹھ گیا تھا میرا خوشی۔ بس جی اوہی ٹیم تو میرے راج کا تھا۔ دن بھی میرے تھے جی راتاں بھی میریاں تھیں۔ خوشی تے مٹی کا مادھو تھا جو کہتی مانے تھا۔ میرے دن چڑھے، تاں مجھے پیر زمین پر نہ اتارنے دیوے تھا۔ مانو پیروں پر مہندی لگی ہو۔

میں بڑی حسین ہو گئی تھی باجی اڑتے پرندے بھی میرے ورانڈے کی دیوار پر تھم جاتے تھے۔ میری ہنسی کی جھنکار مسافروں کی راہ کھوٹی کر دیتی تھی جی۔ خوشی تو بس ڈرتا رہوے تھا مجھے لکا چھپا کے رکھے تھا جیویں میں کوئی کوہ نور ہیرا ہوں۔ جسے کوئی چرا کے لے جائے گا۔ لو جی شہناز کوئی پاگل تھوڑی ہوے جو اتی قدر کرنے والے ساتھی کو چھوڑ کر دوجی تیجی تھاں منہ مارے۔ میں بڑی خوش تھی جی بڑی خوش۔

اس نے ایک آہ بھری اور دھیمے سروں میں گنگنائی۔

کدی وی لوڑ نئیں پیندی مینوں در در تے جاون دی

میں لجپالاں دا منگتا آں مرے پلّے بھرے رہندے

پھر کیا ہوا شہناز؟

بس باجی دوجے بچے تک تو سب خیر رہی۔ بس چھلے میں خوشی کرلاتا تھا۔ مرد ہے نا جی بے صبرا ہو گیا تھا۔ پر باجی اب چھلے میں کیا کرتی۔ قدرت کے کام ہوویں۔ پر تیجی بار جب دن اوپر لگے تب خوشی میرے سے لڑ پڑا۔ اسے ہور بچہ نہیں چاہئے تھا وہ تو جی مہینے بعد ست دن بڑی مشکل نکالتا تھا جی۔ بس رب سوہنے کی مرجی جی وہ حمل نہ چلا مجھے بھی خوشی کے غصے نے ڈرا دیا تھا جی۔ میں بھی محتاط ہو گئی تھی۔

پر اب صرف خوشی تو نہیں تھا نا میرا گھر بار، دو جی اور بھی تو تھے ناں جنہیں میری جرورت تھی۔ ہمارے منے۔ ہماری جند جان۔ خوشی کی تو ان میں جان تھی۔ لیکن میرا سارا ٹیم اس کو اپنے واسطے چاہیے ہوتا۔ میں ہستی کہ اب شہناز صرف تیری بیوی نہیں۔ تیرے دو بچیاں کی ماں بھی ہے تو وہ کہتا۔ نئیں جب تک میں تیرے سامنے رہوں تو میری بن کے رہا کر۔ تیرے میرے درمیان ہوا کو بھی اجاجت نئیں آنے کی۔ پر جی ایسا کب ہوتا ہے؟

آئستہ آئستہ خوشی نے کہنا چھوڑ دیا مجھے لگا کہ وہ سمجھ گیا ہے۔ آہ باجی وہ سمجھا نہیں تھا بدل گیا تھا۔ اسے جس توجہ کی عادت تھی وہ توجہ اسے کسی دوجے کے در پر لے گئی تھی۔ بس باجی تب سے لے اب تک میں اس کا بال بچہ سنبھال کے بیٹھی ہوں۔ یہی بہت ہے کہ صبح کا بھولا رات کو گھر واپس تو آ جاتا ہے۔ محلے والے بچوں کے باپ سے واقف ہیں میرے سر پر بھی مرد نام کی چھت موجود ہے۔

تم خوش ہو شہناز؟

باجی خوشی تو اسی دن مک گئی تھی جی جس دن خوشی کو دوجی کے ہیرے پھیرے لیتے دیکھا تھا جی۔ میرا بھولا توجہ اسے دیتا ہے جو پوری کی پوری توجہ بھولے کو دے۔ باجی میں نکاحی بیوی ہوں خوشی محمد کی، پر سہاگن تو دوجی ہے۔ سہاگن وہی جسے پیا من چاہے جی۔ میرا سہاگ خوشی ہے پر میرا مرد میں خود ہی ہوں جی۔ خوشی اپنی من چاہی عورت کا مرد ہووے جی۔ وہ بغیر نکاح کے سہاگن ہووے جی۔ میں تو بس اس کی نکاحی بیوی اس کے بچیاں کی ماں ہوں اور بس۔

دعا منگیا کرو سنگیو کتھے مرشد نہ رس جاوے

جنہاں دے یار رُس جاندے اوہ جیوندے وی مرے رہندے

شہناز اتنا لمبا صبر کیسے۔ کیا کوئی اور؟

نہ باجی نہ حرام ہی کرنا ہوتا تو کمی نہیں ایک چھوڑ دس یار مل جاویں پر باجی حلالی ہوں، حلالی بچے جنے ہیں۔ حرام پر دل راجی نہیں۔ تھوڑی سی تو جندگی ہووے۔ جب ربّ کی جنتاں میں جائیں گے تب تو میرا مرد میرا ہی ہووے گا ناں جی۔ تب رج کے اپنی جندگی جیوں گی باجی۔ یہاں بس میری عجت سے گزر جاوے۔

ایہہ پینڈا عشق دا اوکھا ایہہ ٹرنے نال مکناں ایں

اوہ منزل نوں نئیں پاندے جیہڑے بیٹھے گھرے رہندے

اسے ہر موقعے کے لیے کوئی شعر یاد آ جاتا لگتا تھا آج کل اس کی زندگی اسی صوفیانہ کلام کی تفسیر بنی ہوئی ہے

بڑا حوصلہ ہے تمہارا شہناز۔ بڑا صبر۔

ہک ہاہ باجی حوصلہ کیسا؟ راتاں میں جب بچے سو جاویں تے کمرے کی دیواراں پر کالے سائے ڈرانے لگتے ہیں۔ مارے سرہانے آ جاویں مارے بسترے میں گھس جاویں۔ وضو بناتی ہوں باجی نماز نیت لیتی ہوں لیکن باجی کتنیاں بی نمازاں پڑھوں۔ سائے جاتے ہی نہیں جب تک خوشی گھر نہ آ جاوے۔ اب جانی ہوں باجی کہ میرے چھلے میں بھولا کیوں کرلاتا تھا۔ اب میں کرلاتی ہوں پر میری کونج اڈاری بھر گئی ہے جی میں پیچھے رہ گئی ہوں جی۔ بہت پیچھے۔

شاید یہی میرا نصیبا ہے جی۔ ربّ کو بندے سے بندے کی محبت پسند تو ہے جی لیکن محبت کا اصل حق دار تو جی مالک سوہنا ہی ہووے۔ جب بندہ، اپنے ورگے بندے کو اچا درجہ دے دیوے تے فیر ٹھوکر تے لگنی ہی لگنی ہوتی ہے جی۔ فیر ای تے ٹوٹا پھوٹا مٹی کا مادھو دوبارہ چاک پر چڑھتا ہے۔ تب ہی تو اسے کھرا کھوٹا وکھو وکھ کرنا آتا ہے جی۔ تب ہی تو اصل سے جوڑ جڑتا ہے باجی۔ سادہ سی شہناز بیٹھے بٹھائے عشق حقیقی سے روشناس کرا گئی۔ پلیٹ کی کرچیاں سمیٹ کر مست مگن گھر جاتی شہناز باہر چل دی۔

نیازی مینوں غم کاہدا، مری نسبت ہے لا ثانی

کسے دے رہن جو بن کے قسم ربّ دی کھرے رہندے​۔

Check Also

Tareeki Mein Doobti Dunya

By Khalid Zahid