1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Rabia Khurram
  4. Do Auraton Ki Kahani (1)

Do Auraton Ki Kahani (1)

دو عورتوں کی کہانی (1)

پہلی عورت کہانی۔۔

مسز پروین ذوالفقار۔۔ اپنے دوسرے بچے کے حمل اور پیدائش کے لئے میرے پاس ریگولر چیک اپ کرواتی رہی۔۔ فیملی ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے میں اس کے گھر کے حالات سے واقف تھی۔۔ اکثر وہ اپنی ساس کے ساتھ آیا کرتی تھی جس سے پروین کا بہت اچھا تعلق تھا۔۔ پروین کے سسر وفات پا چکے تھے۔ شوہر ذوالفقار لوکل روٹ پر ویگن چلاتا تھا۔۔

منجھلا دیور قانون کی تعلیم حاصل کر رہا تھا اور منگنی شدہ تھا۔۔ اس سے چھوٹا دیور مڈل کے بعد پڑھائی کو خیرباد کہہ کر چھوٹا سا زمیندارہ سنبھال رہا تھا۔۔ نند کوئی تھی نہیں۔۔

پروین اپنی بڑی بچی جس کی عمر دو سال تھی اور دوسرے حمل کے ساتھ شفیق ساس اور محبت کرنے والے شوہر کے ساتھ ایک بہت پرسکون زندگی گزار رہی تھی۔۔ سسرال میں خدمت اور حسن سلوک سے سب کے دلوں پر حکومت کر رہی تھی۔۔زچگی کا وقت ہوا اور وہ میرے پاس آئی۔۔ اللہ تعالٰی نے اسے ایک صحتمند بیٹے سے نوازا۔۔ وقت رخصت میں نے اسے سات روز بعد دوبارہ معائنے کے لیے آنے کی ہدایت کی۔۔

لیکن وہ دوبارہ نہیں آئی۔۔ بہت سے خاندان بچہ پیدا ہو جانے کو ایک عام چیز سمجھتے ہیں اور اس کے بعد کے معائنے کو غیر ضروری مانتے ہیں۔۔ اور اگلے حمل تک کے لیے غائب ہو جاتے ہیں۔۔ سو پروین کا نہ آنا بھی ایک ایسا ہی واقعہ سمجھا گیا۔۔ کچھ عرصے بعد اس کے کسی پڑوسی نے مجھے اس کے شوہر کے قتل ہونے کی اطلاع دی۔۔ سواری بٹھانے اور کرایہ طے کرنے کے تنازعے پر فوری اشتعال میں گولی چل جانے کے باعث ذوالفقار کے سر میں گولی لگی اور وہ جائے وقوعہ پر ہی جان کی بازی ہار گیا۔۔ دکھ بھی ہوا اور پروین کی بیوگی اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچوں کی یتیمی کا خیال بھی ذہن میں آیا۔۔ اس سب کے ساتھ ساتھ یہ خیال بھی دامنگیر ہوا کہ اب در در کی ٹھوکریں پروین اور اس کے یتیم بچوں کا مقدر بن جائیں گی۔۔

کچھ عرصہ تک پروین میرے ذہن پر سوار رہی لیکن وقت کی گرد نے اس یاد کو دھندلا دیا۔۔تقریبا دو سال بعد ایک دن اچانک پروین اپنی ساس کے ساتھ میرے پاس آئی۔۔ وہ امید سے تھی اور پرسکون لگ رہی تھی۔۔ مجھے خیال گزرا کہ ذوالفقار کے قتل کی خبر شاید کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہو۔۔ اب یہ سوال پوچھتے الجھن ہو رہی تھی۔۔ آخر کسی حاملہ عورت سے اس کے شوہر کے دو سال پہلے قتل ہو جانے کے بارے میں کیسے پوچھا جا سکتا ہے۔۔

دوا کی پرچی لکھنے لگی تو مسز پروین ذوالفقار کی بجائے اس کا نام مسز پروین افتخار لکھوایا گیا۔۔ اب مجھے اپنی یادداشت پر شک ہونے لگا اور میں نے پوچھا کہ مجھے تو ذوالفقار نام یاد ہے۔ ایک دم پروین اور اس کی ساس خاموش ہو گئے اور ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔۔ ساس روتی ہوئی اٹھ کر آفس سے باہر چلی گئی۔۔تب پروین نے بتایا کہ میرا شوہر زوالفقار قتل ہو گیا تھا۔۔ تب میرا بچہ سات دن کا تھا۔۔ میرے میکے والے مجھے ساتھ لے جانا چاہتے تھے لیکن میرے بچوں کو جتنی عزت اور محبت اپنے ددھیال میں مل سکتی تھی وہ ننھیال میں نہ ملتی۔۔ میں تو تنہا ہو چکی تھی اب بچوں کے لیے زندگی بسر کرنا تھی۔ سو میں نے سسرال میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔۔

عدت گزرنے کے بعد میری ساس نے مجھے اور میرے دیور وں کو بلایا اور ان کے سامنے مجھے کہا کہ تم میری بڑی بہو ہو اور ہمیشہ بڑی بیٹی ہی کی طرح تمہیں سمجھا ہے۔۔ میرے یہ دونوں بیٹے حاضر ہیں تم جس کا نام لو گی میں اس سے تمہارا نکاح کروا دیتی ہوں۔۔ میں نے اپنی ساس سے کہا کہ میرا بچہ چھوٹا ہے میں اسے دودھ پلاتی ہوں۔۔ ابھی میرا غم بھی تازہ ہے مجھ سے ابھی ایسی کوئی بات نہ کریں۔۔ وہ سب چپ ہو گے،زوالفقار کی پہلی برسی کے بعد یہی سوال دوبارہ پروین کے سامنے رکھا گیا۔

منجھلے دیور کی دوران تعلیم ہی اس کی پسند سے منگنی کی جا چکی تھی اس پسندیدگی سے پروین واقف تھی۔۔ ان نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب میں نے تو بچوں کے لیے قربانی دینی تھی۔۔ بڑا دیور کیا اور چھوٹا کیا۔۔ میں نے کسی کا دل توڑنا مناسب نہ سمجھا اور چھوٹے دیور کے لیے ہاں کر دی۔۔ میرا بیٹا اسے ویسے بھی پاپا کہہ کر پکارتا تھا۔۔ میں نے اسے بھی خدائی اشارہ جانا۔۔ میرے نکاح کے بعد اور منجھلے دیور کی شادی کے بعد میری ساس نے سب پر واضح کر دیا تھا کہ نسرین میری بڑی بہو ہے اور بڑی ہی رہے گی۔۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ اب چھوٹے سے بیاہی گئی ہے تو اس کا درجہ گھٹ گیا ہے۔۔ آج اللہ کے فضل سے میں اپنے گھر میں خوش ہوں۔۔

ساس جو کمرے میں واپس آ چکی تھی اس نے کہا۔۔ ڈاکٹر صاحب میں جانتی ہوں کہ پروین کے دل میں آج بھی زوالفقار بستا ہے۔۔ میں اس کے غم اور قربانی سے واقف ہوں اور اس سے راضی ہوں۔۔ہاں میں اور پروین اکیلے بیٹھ کر کبھی کبھی زوالفقار کو یاد کر کے رو لیتے ہیں۔۔

میں نے تیس سال بیوگی کاٹی ہے میں جانتی ہوں کہ بیوگی کا دکھ کیا ہے بھلا میں اپنے پوتوں کو یتیم کیسے رہنے دیتی۔۔ پروین جوان ہے اس کی کہیں اور شادی ہو جاتی تو میرے پوتے رل جاتے۔۔ میرے بیٹوں سے زیادہ کوئی ان بچوں کو اپنا نہیں بنا سکتا تھا۔۔ چچا ہی سہی۔۔ لیکن خون تو ایک ہے نا۔۔

Check Also

Amma Ke Niwari Palang

By Tahira Kazmi