Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Rabia Khurram/
  4. Aurat

Aurat

عورت

فیملی کے ساتھ ایک لیڈیز بیوٹی پارلر میں جانا ہوا۔ داخل ہوتے ہی داخلی دروازے کے دائیں سمت پڑے صوفے پر لیٹا سفید لباس میں ملبوس بھاری تن و توش کا مالک شخص پھرتی سے اٹھ بیٹھا۔ خود حفاظتی نظام نے ہمیں چوکنا کیا اور ہمارے بڑھتے قدم رک گئے۔ غور سے دیکھا تو آشکار ہوا کہ لٹھے کی مردانہ قمیض شلوار میں ملبوس شخصیت کوئی مرد نہیں بلکہ ایک ادھیڑ عمر چاک و چوبند خاتون تھیں۔ پہلی نظر کی ناگواری کے بعد یہ خاتون دلچسپی کا باعث بن گئیں۔

کچھ دیر کی گپ شپ سے اندازہ ہوا کہ یہ پارلر ان خاتون کی بیٹی چلاتی ہیں جبکہ یہ والد نما والدہ اپنی بیٹی کی گارڈ ہیں۔ خاتون کے کپڑوں میں پستول بھی موجود تھا چپل بھی سیاہ رنگ کی بھاری بھرکم پشاوری چپل تھی۔ بالوں کی کٹنگ بھی مردانہ تھی جو قمیض کے کالر کے اوپر بھلی لگتی تھی۔ ان سے ان کے حلیے کی بابت پوچھا تو کہنے لگیں کہ میری تین بیٹیاں تھیں۔ ان کے والد اچانک ہارٹ اٹیک سے چل بسے۔ میں جوان تھی اور بچیاں بھی جوانی کا دروازہ عبور کر رہی تھیں۔

ہم چار عورتیں اس طرح ہوگئیں جیسے چار بھیڑیں رال ٹپکاتے دانت نکوستے بھیڑیوں کے نرغے میں آ گئی ہوں۔ خاتون کے مطابق شوہر کے چالیسویں کے روز انہوں نے اپنے بال کٹوا دیے۔ شوہر کے کپڑے جوتے پہنے، پستول ڈب میں لگائی اور برادری میں اعلان کر دیا کہ میری بیٹیوں کی ماں مری ہے باپ ابھی زندہ ہے۔ اب جسے جو بات کرنی ہے مجھے مرد مان کے برابری کے لیول پر مخاطب ہو۔ کہتی ہیں برادری کو سانپ سونگھ گیا۔ کچھ بڑوں نے سمجھانے کی کوشش کی لیکن میں نے ان چالیس دنوں میں پہلے ہفتے کے بعد اپنی کسی بچی کو سکول کالج جانے نہیں دیا تھا۔

کیونکہ میں عدت میں تھی اور بچیوں کے ساتھ جانے کے لیے خاندان میں کوئی مرد نہ ہونے کی وجہ سے گلی محلے کی تمام مرد لفٹ دینے کے لیے تیار تھے۔ اس لفٹ کی قیمت ہم ادا نہیں کر سکتی تھیں۔ چالیسویں پر برادری نے قورمے کی دیگ پکائی لیکن اس سے پہلے دو دن سے ہم ماں بیٹیاں بھوکی تھیں اور برادری سو رہی تھی۔ سو وہ دن گیا آج پندرہ سال ہو گئے مجھے مرے ہوئے۔ اور ان کے والد کو میرا جسم اختیار کیے ہوئے۔ میری بڑی بیٹی نے تعلیم چھوڑ کر پارلر کا کام سیکھا۔ میں اس کی گارڈ بنی رہی۔

میں نے کار چلانا ان کے والد سے سیکھی تھی آج میں اپنی بچیوں کا باپ، ڈرائیور، گارڈ اور گن مین سب کچھ ہوں اور اچھے سے جانتی ہوں کہ گھر کا ایک مرد کیا کچھ ہوا کرتا ہے۔ اپنی بچیوں کو خود سکول کالج لے جاتی اور لے کر آتی۔ آج اپنی منجھلی بیٹی کو بیاہ چکی چھوٹی کا رشتہ بھی طے ہے بس اس کی گریجویشن مکمل ہو جائے اسے بھی رخصت کر دینگے۔ بڑی بیٹی کمانے کے چکر میں لیٹ ہوگئی ہے دیکھیں اس کی قسمت میں کوئی مرد آتا ہے یا یہ بھی میری طرح خود ہی اپنا مرد بنے گی۔

پس نوشت: آخر ہمارے معاشرے میں مرد کے سہارے سے محروم عورت کے لیے زندگی باعزت کیوں نہیں۔ مشکل کیوں ہے؟ عورت اگر مرد سے محروم ہوگئی تو کیا اپنی عزت، غیرت یا حمیت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی ہے۔ کسی بھی راہ چلتی گاڑی میں لفٹ لے سکنے والی۔ آخر اس معاشرے میں درپیش مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے عورت کو اپنی نسوانیت سے محروم کیوں ہونا پڑے۔ اسے عورت ہونے کی سزا سناتے ہوئے اسے انسان ہونے کی رعایت کیوں نہیں دیتے۔

Check Also

Feminism Aur Hamari Jameaat

By Asad Ur Rehman