Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Rabia Khurram/
  4. Ali Sadpara, K2 Ho Gaya Hai

Ali Sadpara, K2 Ho Gaya Hai

علی سدپارہ، کے ٹو ہو گیا ہے

علی سدپارہ، کے ٹو ہوگیا ہے

ہم سب علی سدپارہ ہیں

علی ہم اداس ہیں۔ ہم سبھی تمہاری راہ تک رہے ہیں لوٹ آؤ۔ کوئی دل ایسا نہیں جو رنجیدہ نہیں، کوئی آنکھ ایسی نہیں جو نم نہیں۔ علی سدپارہ تم تو واقعی سد پار چلے گئے ایسی دیوار کے پار کہ جس کے پار ہم میں سے کوئی شاید ہی کبھی پہنچ پائے۔ بھلا یوں بھی کوئی جاتا ہے ہنستے، کھیلتے اپنے قدموں پر اپنی پوری طاقت کے ساتھ آگے بڑھ کے خود کو خود ہی کھو دیتا ہے کوئی۔ ایسا بھی کیا چھپنا کہ واپسی کا راستہ ہی بھلا دو۔

جو تم سے محبت کرتے ہیں بلکہ جو بھی کیوں کہیں، سبھی تم سے محبت کرتے ہیں وہ بھی جو رو رہے ہیں، وہ بھی جو تمہیں تلاش کرنے کے لئے اپنی جانیں داؤ پر لگائے ہیں وہ بھی جو جاء نمازوں پر بیٹھے تمہیں یاد کرتے ہیں اور ربّ کو پکارتے ہیں کہ تمہیں واپسی کا راستہ دے۔ اور وہ بھی جو کہتے ہیں کہ یہ کیسا کھیل ہے یہ تو سراسر خودکشی ہے۔ نہیں نہیں ان سے ناراض مت ہو۔ ان کا اظہار جیسا بھی ہے اس تلخ اظہار کے پیچھے چھپی خواہش تو جان لو۔ وہ سب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کاش تم نہ جاتے تو آج بھی سدپارہ کے ایک گھر میں گرم رضائی لپیٹ کر اپنی بیٹی کو کہانی سنا رہے ہوتے۔

تمہاری بیوی تمہارے لیے انگیٹھی پر دم کیا قہوہ پیالی میں چھان رہی ہوتی۔ ساجد اور باقی سبھی بچے اپنی تعلیم مکمل کرتے اور تم اسی محفوظ ماحول میں ایک مضبوط جوان سے جہاندیدہ بوڑھے میں ڈھل جاتے۔ ایک باپ سے دادا، نانا بن جاتے۔ کیا یونہی نہیں ہوتا۔ اس دنیا میں یہی سب تو ہوتے دیکھا ہے۔ پھر جب تم اپنے سارے فرائض ادا کر لیتے تو ایک روز اپنے نرم گرم بستر پر پرسکون سا گہرا آخری سانس بھرتے۔ کلمہ پڑھتے۔ ہلکا سا مسکراتے اور سدپارہ کی مٹی اوڑھ کر ابد تک سو جاتے۔

لیکن تم ایسے نہ تھے۔ پہاڑوں کا عشق سینے میں سموئے ایک ایسے عاشق تھے جو عشق کو اپنی طاقت مانتا تھا۔ جسے اپنے محبوب سے وصل کی طلب تھی۔ جسے بار بار محبوب کی طلب بے قرار کرتی اور وہ سر تسلیم خم کیے لبیک کہتا چل دیتا۔ یہ عشق کب کسی کی سمجھ میں آیا ہے۔ کیا کچے گھڑے پر چناب پار نہیں کرا دیتا، کیا منصور کو سولی نہیں چڑھا دیتا؟

تم بھی ایسے ہی عاشق تھے جسے اپنے محبوب کی بانہوں میں دم دینا تھا، جسے اپنے محبوب کی سانسوں سے اپنا سینہ بھرنا تھا، جسے اپنے وصل کے درمیاں مصنوعی سانس بھی برداشت نہ تھی تو پھر ہونی تو ہو کر رہتی ہے۔ جو عاشق محبوب کا سانس اپنے سینے میں سمو لیتا ہے وہ دنیا کو پلٹ کر نہیں دیکھتا۔ وہ خود محبوب ہو جاتا ہے۔ علی سدپارہ تم بھی بدل گئے تم شاہ گوری کے سینے میں سمو گئے۔ تم کے ٹو ہو گئے۔ لوگو علی سدپارہ، کے ٹو ہوگیا ہے۔

بس تم نہیں جانتے کہ ہم سبھی جمعہ کی شام سے "علی سدپارہ" بن گئے ہیں۔ ہمارے اردگرد برفیں اگ آئی ہیں۔ ہمیں آکسیجن کی کمی سے کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ ہمارے لب ساکت ہیں اور آنسو بہتے ہیں۔ دل مضطربّ ہیں اور دھڑکن میں بس تمہاری عافیت کی دعائیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ تم ہمارا انتظار کر رہے ہو گے، تمہیں ہمارے آنے کی امید ہوگی یا شاید تم شاہ گوری کے عشق میں اتنے مگن ہو کہ تمہیں ہمارا کوئی خیال نہیں، تم ہمارے منتظر نہیں۔ کیا واقعی تمہیں ہمارا کوئی خیال نہیں۔ کیا تم ہمیں بھول گئے ہو؟ لیکن علی ہم تمہیں کھونا نہیں چاہتے۔ ہم اپنی امید ختم نہیں کرنا چاہتے۔

سنا ہے کہ شاہ گوری تمہیں لوٹانا نہیں چاہتی۔ اس کی تند و تیز بھاپ اڑاتی سانسیں، شدید سردی، تیز ہواؤں اور گہری دھند کا باعث بن گئی ہیں۔ تمہیں تلاش کرنے والے اپنا کام نہیں کر سکتے۔ تمہارے دوست اکبر اور امتیاز تمہیں تلاش کرنے کی خواہش سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں وہ آ رہے ہیں۔ اگر تم منتظر ہو تو خود کو اپنے برف کے گھر میں محفوظ رکھنا۔ واپس لوٹ آنا۔ سلائی مشین بھی تو گھر لے جانی ہے۔ ابھی تو 14 میں سے 6 چوٹیاں باقی ہیں علی۔ کام ادھورا نہیں چھوڑتے یہ بری بات ہوتی ہے۔ بات کو سمجھو نہ علی ہم اداس ہیں۔ ہم تمہارے لیے بہت اداس ہیں۔ لوٹ آؤ۔

Check Also

Ehsaan Faramoshi Ki Riwayat

By Mohsin Khalid Mohsin