18 May 2013 Se 18 May 2022 Tak
18 مئی 2013 سے 18 مئی 2022 تک
آج 9 سال گزر گئے آپ سے آخری بار ملے۔ آپ کو دیکھے، آپ سے بات کیے تو صدیاں گزر گئی ہیں۔ آپ کو محسوس تو ہر لمحے کرتی ہوں لیکن چھو نہیں پاتی۔ آج فجر کی نماز میں آپ کا وہی دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا جو آپ نے آخری وقت میں لیا ہوا تھا۔ تب سے وہی دوپٹہ میری نماز کی چادر ہے۔ لیکن آج وہ ڈوپٹہ جیسے زندہ احساس میں تبدیل ہو گیا تھا۔ جیسے وہ میرے سر پر موجود ہونے کے باوجود آپ کے وجود پر لہرا کر مجھے آپ کے ساتھ کا یقین دے رہا تھا۔
مجھے لگا کہ آپ میرے ساتھ کھڑی ہیں۔ جیسے وہ ڈوپٹہ آپ ہیں۔ آپ جان گئی ہیں نا کہ بڑی بہنا آج بہت اداس ہے۔ بے سبب اداسی اتنی گہری کہ وجود سن کیے دیتی تھی بس دل کی بے ترتیب دھڑکن زندگی کے ہونے اور اس کی بے ثباتی کا احساس ایک ساتھ دلاتی تھی۔ احساسات منجمد تھے اور کسی سے دل کی بات کہنے کا من تھا لیکن رات کے اس پہر وہ سامع کون ہو سکتا تھا؟ سوائے السمیع کے۔ بس وضو کیا اور بارگاہ میں حاضر ہو گئی۔
تب تک کوئی خیال نہیں تھا سوا اس کے کہ اسے حال دل کہوں جو میرے کہے بنا ہی سب جانتا ہے۔ مجھے خود بھی علم نہ تھا کہ اداس کیوں ہوں کہ میرے سر پر موجود آپ کے گلابی ڈوپٹے نے لہرا کر نائٹ بلب کی دھیمی سی روشنی میں آپ کے ہونے کا احساس دیا اور گویا اداسی کو نام مل گیا۔ تاریخ ذہن میں آئی تو یاد آیا 18 مئی 2013 کو آخری بار آپ کے چہرے کو محبت سے دیکھ کر حج اکبر کا ثواب کمانے گئی تھی۔ کیا خبر تھی کہ یہ حج اکبر آخری بار ہونے والا تھا۔
پھر ڈیڑھ روز ہی تو گزرا تھا کہ آپ چلی گئیں۔ 20 مئی کی صبح کسی سے کچھ بھی کہے بنا بس چپ چاپ اپنے بیڈ میں سو گئیں۔ ناشتے کے لیے بھی یہ کہہ کر منع کر دیا کہ کیئر ٹیکر بچی کی نیند خراب ہو گی جب وہ اٹھے گی تب کر لوں گی۔ دراصل آپ نے ناشتہ کرنا ہی نہیں تھا۔ مئی کا گرم دن تھا لیکن آپ کو سردی لگ رہی تھی اسی لیے تو بھابی کو سر پر کچھ اوڑھنے کا کہا کہ سر گیلا ہے سردی لگ جائے گی۔ سردی تو آپ کو لگ رہی تھی۔
آخری دنوں میں آپ کتنے فون کرتی تھیں ہم سبھی کو بار بار، بار بار کہ اس ماہ فون کا بل چار گنا آیا تھا شاید آپ جان گئی تھیں اور جانے سے پہلے سب سے، سب کچھ کہہ سن لینا چاہتی تھیں۔ یاد ہے آپ کو متنجن کا کتنا شوق تھا۔ آپ اور آپ کی کزن عالیہ آنٹی میں متنجن بنانے کا مقابلہ ہوا کرتا تھا آخری دنوں میں آپ متنجن کی دیگ بنانے کا کہتی رہیں جو آپ اپنی سالگرہ کی خوشی میں بانٹنا چاہتی تھیں۔
لیکن لاہور میں بلدیاتی الیکشن چل رہے تھے تو ماموں نے کہا کہ الیکشن کے بعد دیگ بنوا دوں گا ابھی تو دیگ بنانے والا کوئی فارغ ہی نہیں تب آپ کا کہا جملہ کہ "پھر کیا فائدہ تب میں نے کون سا ہونا ہے؟" اس بات کی دلیل ہے کہ آپ جان گئی تھیں وقت رخصت ہے اسی لیے تو 24 مئی اپنی سالگرہ کے دن تک انتظار نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ جاتے جاتے بھی سب کی دعوت کر کے خوشی بانٹ کے جانا چاہتی تھیں۔
مجھے لگا آپ کا متنجن کو دل ہے تو میں متنجن بنا کے لے گئی۔ مجھے امید تھی کہ آپ سے شاباش ملے گی۔ آپ نے کہا ہاں اچھا ہے لیکن تم نے اس میں اشرفی نہیں ڈالی۔ سو میرا متنجن نا کام ٹھہرا۔ ظاہر ہے آپ کی ٹکر کا متنجن، رابعہ کیسے بنا سکتی تھی؟ امی آپ کے متنجن کی دیگ پھر بن بھی گئی، بٹ بھی گئی لیکن تب آپ کا چالیسواں تھا۔ سوری امی دیر ہو گئی۔ ماؤں کے کام بچے ٹالتے ہی رہتے ہیں حتی کہ "بہت دیر" ہو جاتی ہے۔ سوری امی!
رب ارحمھما کما ربینی صغیرا۔